دہلی

ہم جنس پرستوں کی شادی کی درخواستیں، سپریم کورٹ کا مرکز کو نوٹس

حیدرآباد میں رہنے والے دو ہم جنس پرستوں سپریو چکرورتی اور ابھئے ڈانگ نے پہلی درخواست داخل کی تھی۔ دوسری درخواست پارتھ فیروز مہروترا اور اُدے راج نے داخل کی تھی۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستوں کی شادیوں کو تسلیم کرنے کی ہدایت دینے کے لیے دہلی ہائی کورٹ میں زیر التوا درخواستوں کو عدالت ِ عظمیٰ میں منتقل کرنے کی دو  عرضیوں پر آج مرکز سے جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس پی ایس نرسمہا پر مشتمل بنچ نے سینئر وکیل مینکا گروسوامی کی درخواستوں کا نوٹ لیا کہ یہ درخواستیں مساوات کے بنیادی حق سے متعلق ہیں۔ بنچ نے کہا کہ نوٹس جاری کریں۔

 یہ بنچ کویتا اروڑا اور نویدیتا کی جانب سے داخل کی گئی دو  علیحدہ منتقلی کی درخواستوں کی سماعت کررہا تھا۔ عدالت نے ان دونوں درخواستوں سے نمٹنے کے لیے اٹارنی جنرل آف انڈیا آر وینکٹ رمنی سے مدد بھی طلب کی۔

واضح رہے کہ اسپیشل میریج ایکٹ کے تحت ہم جنس پرستوں کی جانب سے ہم جنسوں کی شادی کی اجازت دینے کے لیے دو درخواستیں داخل کی گئی ہیں۔ اسپیشل میریج ایکٹ 1952ء ان جوڑوں کے لیے شادی کی سول شکل فراہم کرتا ہے جو اپنے ذاتی قانون کے تحت شادی نہیں کرسکتے۔

حیدرآباد میں رہنے والے  دو ہم جنس پرستوں سپریو چکرورتی اور ابھئے ڈانگ نے پہلی درخواست داخل کی تھی۔ دوسری درخواست پارتھ فیروز مہروترا اور اُدے راج نے داخل کی تھی۔ ان دونوں درخواستوں کے ذریعہ ایک شخص کو اپنی پسند سے ”LGBTQ“ شادی کا حق دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

2018ء میں ایک پانچ رکنی دستوری بنچ نے جس میں موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا بھی شامل تھے، ایک تاریخی متفقہ فیصلہ دیا تھا اور بالغ ہم جنس پرستوں کی جانب سے خانگی مقام پر جنسی فعل کو جرم کے زمرہ سے خارج کردیا تھا۔

اس بنچ نے انگریزوں کے دور کے تعزیری قانون کے ایک حصہ کو کالعدم کردیا تھا جس کے تحت اسے جرم کے زمرہ میں رکھا گیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ اس قانون سے مساوات اور وقار کے دستوری حق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔