مسلم نوجوان کی ہندو پارٹنر کو عدالت میں پیش کیا جائے :ممبئی ہائی کورٹ
نوجوان نے ہفتہ وصولی کے معاملے میں قبل ازگرفتاری کی درخواست ضمانت بھی داخل کی ہے جسکی سماعت ممبئ کی سیشن عدالت میں 5 دسمبر کو ہونے والی ہے۔

نوجوان پر لڑکی کے والدین نے ہفتہ وصولی کاکیس بھی درج کیا عدالت نے گرفتاری پر بھی روک لگائ
ممبئ: ممبئ ہائ کورٹ نے اہنے ایک اہم فیصلے میں ایک مسلم نوجوان کی ہندو پارٹنر کو٩ دسمبر کو عدالت میں پیش کئے جانے کا حکم جاری کیا ساتھ ہی ساتھ مسلم۔نوجوان پر لڑکی کے والدین کی جانب ہفتہ وصولی کے کیس درج کئے جانے پر بھی شبہات ظاہر کرتے ہوئے اسکی گرفتاری پر عارضی روک لگادی اور ہدایت دی کہ جس دن عدالت میں لڑکی کو پیش کیا جائے گا اس دن نوجوان بھی عدالت میں حاضر رہیں
ممبئ ہائ کورٹ کی جسٹس بھارتی ڈانگرے اور جسٹس منجوشا دیش پانڈےپر مشتمل بینچ مسلم نوجوان کی جانب سے حبس بیجا ( قانونی اصطلاح میں جسے ہبیس کارہس کہا جاتاہے جسکے تحت عدالت پولیس کو حکم دیتی ہیکہ وہ متعلقہ شخص جس کے تعلق سے عرضداشت داخل کی گئ ہے اسے زندہ یا مردہ عدالت میں پیش کیا جائے )کے تحت دائر کی گئ ایک عرضداشت کی سماعت کر رہی تھی جس میں پولیس کی جانب سے خاتون کو چیمبور نامی علاقے میں ریاستی حکومت کے زیر انتظام چلائ جانے والی خواتین کی پناہ گاہ میں رکھے جانے کو غیرقانونی و بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فوری رہائ کا مطالبہ کیا
عدالت نے خاتون کے والدین کی جانب سے مسلم نوجوان پر ہفتہ وصولی کے مقدمے کے تعلق سے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نو دسمبر بروز پیر معاملے کی اگلی سماعت تک نوجوان کو گرفتار نہ کیا جائے کہ نیز عدالت دیکھنا چاہتی ہیکہ ماجرہ کیا ہے ؟
نوجوان نے ہفتہ وصولی کے معاملے میں قبل ازگرفتاری کی درخواست ضمانت بھی داخل کی ہے جسکی سماعت ممبئ کی سیشن عدالت میں 5 دسمبر کو ہونے والی ہے۔
عرضداشت کے مطابق خاتون کو اس کے والدین اور کئی فریقین بشمول بجرنگ دل اور دیگر مزہبی تنظیموں کی شکایات کے بعد پولیس نے مداخلت کرتے ہوئے سرکاری پناہ گاہ میں رکھاہے
وکلاء کے مطابق خاتون کو سرکاری پناہ میں رکھے جانے کے بعد عرض گزار نے عدالت سے رجوع کیا اور دلیل دی کہ خاتون کے متعدد مرتبہ یہ کہنے کے باوجود کہ وہ بغیر کسی جبر کے رضامندی سے اس کے ہمراہ "لیو ان ریلیشن شپ” میں زندگی گزار رہی ہے نیز اس نے اس ضمن میں ایک نوٹری شدہ حلف نامہ بھی دیا تھا جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ اس کا نوجوان کے ساتھ رہنے کا انتخاب اور اسلام قبول کرنے کا فیصلہ اس کی اپنی مرضی کے مطابق تھا اور وہ بغیر کسی جبر یا غیرضروری اثر پر مبنی تھا
درخواست گزار کے وکلاء لوکیش زیدئے آصف لطیف شیخ اور عابد عباس سید نے عدالت کو بتلایا کہ پولیس کے روبرو تمام حقائق حلف نامہ کی نقول اور دیگر دستاویزات پیش کئے گئے تھے لیکن اس کے باوجود بھی پولیس نے اسے نظر انداز کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا ہے جو کہ آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت اس کے جینے اور آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے
ریاستی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل پبلک پراسیکیوٹر شرمیلا کوشک نے عدالت میں پیروی کی جبکہ ۔خاتون کے والدین کی جانب سے وکیل راجیش شرکے اور انجلی جوشی نے عرض داشت کی مخالفت کی ۔
عدالت نے اگلی سماعت ٩ دسمبر تک ملتوی کر دی