
محمد مصطفی علی سروری
یہ 16؍ جون 2022ءکی بات ہے بنگلور شہر کے ایک پرائمری ہیلتھ کیئر سنٹر پر ایک ماں اپنی بیٹی کا چیک اپ کروانے پہنچتی ہے۔ معائنہ کے بعد ڈاکٹروں نے بڑی تشویش کا اظہار کیا اور ماں کو اطلاع دی کہ آپ کی لڑکی تو ماں بننے والی ہے۔ یہ سن کر ماں اور بیٹی دونوں ہی خوشی سے مسکرانے لگے تب ڈاکٹر پوچھا کیا اس لڑکی کی شادی ہوچکی ہے تو ماں نے کہاں کہ ہاں تب ڈاکٹر نے کہا کہ پھر اس لڑکی کے شوہر کو فوری یہاں بلوالو تب لڑکی کی ماں دریافت کرتی ہے کہ ایسا کرنا ضروری ہے تو ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ہاں ضروری ہے۔
لڑکی کی ماں فون کر کے اپنے داماد کو بھی ہیلتھ کیئر سنٹر طلب کرلیتی ہے۔ ادھر ڈاکٹرس بھی کسی کو فون کرنے لگتے ہیں اور تھوڑی ہی دیر سے ادھر لڑکی کا شوہر آتا ہے تو ڈاکٹر اس کو بیٹھنے کو کہتے ہیں تب ہی پولیس کی ایک جیپ وہاں آکر رکتی ہے تو ڈاکٹر فوراً پولیس والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہی ہے وہ شخص جس نے اس لڑکی کو حاملہ بنایا ہے۔ اب بنگلور کی پولیس ماں بیٹی اور شوہر کی ایک بھی بات سننے کے لیے بالکل بھی تیار نہیں ہوتی۔ دوسری جانب لڑکی کا شوہر کہتا ہے کہ سر ہم لوگ مسلمان ہیں اور مسلمانوں کے ہاں لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد اس کی شادی کردینا جائز ہے۔
بنگلور کی پولیس نے بچپن کی شادی کے خلاف بنائے گئے ایکٹ اور نابالغ لڑکی کی شادی کرنے کے الزامات میں نوجوان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیتی ہے۔ یہ نوجوان چار ماہ جیل میں قید رہتا ہے۔
31؍ اکتوبر 2022ء کو انگریزی اخبار ہندوستان ٹائمز نے Karnataka HC annuls Muslim Girls Marriage, Says POSCO Act over rides personal law کی سرخی کے تحت ایک رپورٹ شائع کی۔ رپورٹ میں بتلایا گیا کہ جون 2022ء میں گرفتار کردہ مسلم نوجوان کے خلاف بنگلور پولیس کی جانب سے پوسکو قانون کا نفاذ درست ہے کیونکہ یہ مسلم پرسنل لاء سے بالاتر ہے۔ ساتھ ہی کرناٹک ہائیکورٹ نے 17 سالہ مسلم لڑکی کو حاملہ بنانے والے اس کے شوہر کو ایک لاکھ مالیتی شخصی مچلکہ کے ساتھ ضمانت دینا بھی منظور کرلیا۔
قارئین کرام کیا کرناٹک ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر ہم مسلمان غور کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کیا عدالتی فیصلوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اخباری بیانات جاری کردینا کافی ہے۔ ذرا غور کیجئے کیا عدالتیں قصوروار ہیں یا بحیثیت مسلم قوم ہماری بھی خود کچھ ذمہ داری بنتی ہے؟ آیئے اب میں آپ حضرات کی توجہ تاملناڈو سے آنے والی ایک خبر کی جانب مبذول کروانا چاہوں گا۔ جہاں پر ایک مسلمان لڑکی خود عدالت سے رجوع ہوکر اپنی شادی کو زبردستی کی شادی قرار دے کر شوہر سے علیحدگی کی درخواست کرتی ہے۔ اخبار دی ہندو کی 21؍ اکتوبر 2022ء کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مدراس ہائیکورٹ نے اس مسلم لڑکی کی شادی کے رجسٹریشن کو مسترد کردیا۔
قارئین اس واقعہ کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب خاندان کے بڑے، شہر کے ذمہ دار مسلم انجمنیں اور ذمہ دار احباب ایک مسلم خاتون کی زبردستی کی شادی کو نہیں روک سکے تو یہ مسلم خاتون مدراس ہائیکورٹ سے رجوع ہوکر اپنے لیے راحت کی درخواست کرتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق یہ 2015 کی بات ہے جب ملاپلایم تاملناڈو کی رہنے والی ایک مسلم لڑکی حسب معمول کالج جانے کے لیے گھر سے نکلتی ہے۔ چنئی سے 625 کیلومیٹر دور اس شہر میں ہی اس لڑکی کا ایک رشتہ دار اس کا راستہ روک دیتا ہے اور اس کو اطلاع دیتا ہے کہ اس کی ماں اچانک سے بیمار ہوگئی ہے۔ اس کو دواخانہ لے جایا گیا ہے۔ اس لیے وہ بھی اس کے ساتھ دواخانہ چلے۔ اپنے رشتہ دار کی بات پر بھروسہ کر کے لڑکی اس کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوجاتی ہے لیکن جلد ہی لڑکی کو احساس ہوتا ہے کہ وہ گاڑی نہ تو اس کو گھر کی طرف لے جارہی ہے اور نہ ہی دواخانہ بلکہ ساڑھے تین کیلومیٹر کا فاصلہ طئے کرنے کے بعد یہ گاڑی پلے یم کے مقام پر واقعہ ایک سرکاری رجسٹرار کے آفس پر رکتی ہے۔
لڑکی کو اس بات کی دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر وہ انکار کرے گی تو اس کے گھر والوں کو مارڈالا جائے گا۔ یہ کہہ کر رجسٹرار آفس میں لڑکی کا رشتہ دار نوجوان اس کے ساتھ شادی کے کاغذات پر دستخط کروالیتا ہے۔
ذرا اندازہ لگائیں یہ کسی ایک غیر مسلم گھرانے کی کہانی نہیں ہے بلکہ مسلم گھرانے میں جب گھر کے بڑے بزرگ اپنے نوجوانوں کو نہیں سمجھا سکیں گے تو ہمارے گھر کے مسائل سڑکوں پر بھی آئیں گے اور ہماری لڑکیاں عدالت کا بھی دروازہ کھٹکھٹائیں گی اور یہ بات بھی پڑھ لیجئے گا کہ عدالت سے رجوع ہونے والی لڑکی کو عدالت سے راحت ملنے کے لیے دو ایک نہیں بلکہ پورے سات برس انتظار کرنا پڑا۔
21؍ اکتوبر 2022ء کو انگریزی اخبار دی ہندو نے HC relief for Muslim Women, set aside registration Certificate of forced Marriage سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع کی۔میں عدالتوں پر الزام تراشی کیسے کرسکتا ہوں۔ جبکہ یہ عدالتیں تو فیصلے بعد میں صادر کر رہی ہیں سب سے پہلے تو مسلمان خود اپنے مسائل عدالتوں سے رجوع کر رہے ہیں۔
مشہور انگریزی میگزین انڈیا ٹوڈے نے یکم؍ نومبر 2022 کو اپنے آن لائن ایڈیشن میں Islamic Law recognises Muslim Woman’s right to demand divorce, husband’s consent not needed: Kerala HC اس سرخی کے تحت تفصیلی خبر شائع کی۔ تفصیلات کے مطابق ایک مسلمان شخص نے اپنی بیوی کی جانب سے خلع لینے کے حق کو استعمال کرنے کے خلاف عدالت سے رجوع ہوکر خلع کو کالعدم قرار دینے کی درخواست کی۔ کیرالا ہائیکورٹ کے ڈیویژن بنچ کے جسٹس اے محمد مشتاق اور جسٹس سی ایس دیسائی نے اپنے فیصلے میں واضح کیا کہ ’’شادیوں کو ختم کرنے کے باضابطہ طور پر ملک میں کوئی واضح میکانزم موجود نہیں ہے اور جب شوہر طلاق دینے سے منع کردے تو ایسی صورت میں عدالت خاتون کی جانب سے لیے جانے والے خلع کو برقرار رکھنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں رکھتی ہے۔
عدالت نے اس بات کو واضح کردیا کہ مسلم خاتون کو خلع کے حق کو استعمال کرنے کی قرآن مجید نے اجازت دی ہے۔ اس خبر سے بھی اگر کوئی قاری مطمئن نہیں اور یہ سونچتے ہیں کہ صحافی حضرات یہاں وہاں کچھ بھی ایک دو خبروں کو بنیاد بناکر کچھ بھی لکھ دیتے ہیں تو قارئین میں ایک اور مثال دینا چاہوں گا۔ جس سے آپ حضرات کو اس مسئلے کی سنگینی کا اندازہ ہوگا کہ مسلم سماج میں نکاح اور طلاق اس قدر سنگین شکل اختیار کرچکے ہیں کہ صورت حال دھماکو ہوچکی ہے۔
اکتوبر 2021ء کو کرناٹک سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر سیدہ عنبرین نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک درخواست داخل کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بلا کسی مذہبی اور جنسی امتیاز کے طلاق کا سب کے لیے ایک ہی طریقہ کار ہونا چاہیے۔
خاتون ڈاکٹر کی مفاد عامہ کی درخواست کے حوالے سے اخبار دی نیو انڈین ایکسپریس نے 5؍ اکتوبرکو ایک رپورٹ شائع کی Karnataka Woman files plea in SC against unilateral ways of declaring talaq.
اس سرخی کے تحت اخبار نے سیدہ عنبرین کا بیان لکھا کہ مقننہ (قانون ساز ادارے) عورتوں کے وقار اور مساوات کو فراہم کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ خاص طور پر مسلم خواتین کی شادیوں اور طلاق کے مسئلے پر عدالتوں کے گذشتہ دہائیوں میں مشاہدے کے باوجود یکساں سیول کوڈ مبہم دستوری ہدف بن کر رہ گیا ہے۔
گذشتہ ہفتہ سیکریٹری، مسلم پرسنل لاء بورڈ کا بیان اخبارات میں شائع ہوا تھا جس میں بورڈ کی جانب سے یکساں سیول کوڈ کی مخالفت ظاہر کی گئی تھی۔دوسری جانب آئے دن مسلم خواتین شادی، طلاق اور خلع کے مسائل کو لے کر پرسنل لاء بورڈ سے نہیں عدالتوں سے رجوع ہو رہی ہیں اور اس بات کی شکایت کر رہی ہیں کہ مسلم پرسنل لاء کے تحت مسلم مرد جو جو اختیارات حاصل ہیں۔ مسلم سماج میں مسلمان مردوں کی جانب سے ان کا ناجائز طریقے سے استعمال ہو رہا ہے۔
یقینا قانونی لڑائی عدالتوں میں لڑی جانی چاہیے لیکن یہ لڑائی کون لڑے گا جس میں ہم مسلمانوں کو خود اپنی ، اپنے نوجوانوں کی تربیت کرنی ہوگی کہ وہ خواتین کے ساتھ زیادتیوں سے گریز کریں۔ شادیوں کو مشکل نہ بنائیں۔ طلاق اور خلع کے حقوق کا ناجائز استعمال نہ کریں۔
آیئے ذرا اس ڈاکٹر خاتون کے بارے میں بھی جان لیجئے جس نے سپریم کورٹ میں مفاد عامہ کی درخواست داخل کرتے ہوئے یکساں سیول کوڈ کا مطالبہ کیا۔
ڈاکٹر سیدہ عنبرین، کرناٹک سے تعلق رکھتی ہیں۔ نام کے ساتھ لکھے جانے والے ڈاکٹر سے ہی پتہ چل رہا ہے کہ وہ ماشاء اللہ سے پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ اخبار دی نیو انڈین ایکسپریس کی 5؍ اکتوبر 2022ء کی رپورٹ کے مطابق سیدہ عنبرین نے اپنے شوہر کے خلاف جسمانی اور ذہنی اذیت دینے کے الزامات عائد کرتے ہوئے پولیس میں شکایت درج کروائی۔ ڈاکٹر خاتون نے مزید بتلایا کہ ان کو مزید جہیز کے لیے ہراساں کیا گیا۔ شادی کے بعد ڈاکٹر کی اعلیٰ تعلیم ایم ایس کے لیے فیس بھی لڑکی کے والد نے ہی ادا کی۔ ان لڑائی جھگڑوں کے بعد عنبرین کا شوہر اس کو اکتوبر 2021 میں مائیکے میں چھوڑ دیا اور پھر جنوری 2022ء میں بذریعہ خط طلاق بھیج دی۔ بس اسی جھگڑے کی بنیاد پر یہ ڈاکٹر خاتون اب سپریم کورٹ پہنچ گئی ہیں۔ آیئے غور کریں کیسے ہم مسلم سماج میں شادی، طلاق اور اس سے جڑے مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ اگر ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں گے تو پھر یہ مسائل اوروں کے پلیٹ فارمس پر بھی جائیں گے اور عدالت بھی پہنچیں گے۔ سونچئے اپنے حصے کی شمع جلائیں۔ پرسنل لاء بورڈ پر تنقید سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اگر آپ اپنے علاقے، اپنے محلے میں شادی بیاہ، طلاق اور خلع کے مسائل کو کونسلنگ سے حل کریں تو یہ بھی شروعات ہوگی۔ اس کام کے لیے آپ اپنی قریبی مسجد سے شروعات کریں۔
خدارا سونچیں آخر کیوں مسلمان لڑکیاں اور خواتین پولیس اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہیں۔ اپنی مساجد کے د روازے کھول دیجئے۔ لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ ساتھ نوجوان جو مسائل میں پھنسے ہیں کونسلنگ کیجئے۔ ملت کے مسائل کو ملی پلیٹ فارم سے حل کیجئے۔ مسلم قوم کا تماشہ بننے سے روکنے کچھ تو کیجئے اور کوئی کر رہا ہے تو اس کا ہاتھ بٹائیں۔ اللہ تعالیٰ ضرور اجر عظیم دے گا۔
شکوۂ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)۔sarwari829@yahoo.com