مضامین

زانی اور قاتل اب ”سنسکاری“ ہو گئےایسی بے شرمی ایسی بے حیائی….!

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

ہمارا ملک جو کبھی گنگا جمنی تہذیب و اقدار کے لیے جانا جاتا تھا ۔ یہاں کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ پر ہم فخر کیا کرتے تھے۔ افسوس کہ اب یہ شاندار روایت دھیرے دھیرے موجودہ حکومت کی دانستہ کوششوں سے ختم ہوتی جارہی ہے ۔ آئے دن غیر انسانی اور غیر آئینی سانحات پر اس حکومت کی خاموشی کو نیم رضامندی کی علامت سمجھتے ہوئے ملک و بیرون ممالک کے انسانی اقدار کے علمبردار لوگوں کے درمیان تشویش لاحق ہے ۔
اس سال 15 ا گست کو جب پورا ملک یوم آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر بہت ہی خاص ”امرت مہوتسو“ کا جشن منا رہا تھا اور ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی اس خاص موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے بہت ساری باتوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے تئیں ان کی عزت ، احترام اور ان کے حقوق کی باتیں کر رہے تھے ، ٹھیک اسی وقت ان کی ریاست گجرات کی خاتون بلقیس بانو کے اجتماعی زنا بالجبر، بلقیس کی نظروں کے سامنے ہی اس کی چھوٹی سی معصوم بیٹی کے سرکو کچل کر ہلاک کرنے ، اسی کی خوف زدہ آنکھوںکے سامنے اس کی ماں اور ایک دوسری خاتون کی عصمت دری کرنے اور اس کے 13 نہتے رشتہ داروں کو بڑی بے رحمی سے قتل کرنے والے مجرمین کی عمر قید کو عام معافی نامہ کے تحت انھیں جیل کی سلاخوں سے باعزت باہر نکال کر ان کا والہانہ استقبال کیا جا رہا تھا ۔ ان حیوانوں کی رہائی کی خوشیاں منائی جا رہی تھیں ، مٹھائیاں تقسیم کی جا رہی تھیں، جنھیں دیکھ کردنیا حیران تھی کہ یہ کون لوگ ہیں ، ان لوگوں نے ایساکون سا قابل فخر کارنامہ انجام دیا ہے کہ ان کا اس طرح والہانہ استقبال کیا جا رہا ہے ۔
بلقیس بانو کے ساتھ جو ظلم و زیادتی ، بربریت ، حیوانیت کا ننگا ناچ 2002 ءمیں ہوا تھا ۔ا س وقت بھی ملک کو شرمندہ ہونا پڑا تھا ۔ یہ وہ حیوانیت تھی جس پر پوری انسانیت چیخ اٹھی تھی اور ان مجرموں کو پھانسی دیے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا ۔ اس دلخراش اور انسان سوز سانحہ کی مذمت کرنے والوں کو پوری امید تھی کہ ان مجرموں کو قرار واقعی سزا ضرور ملے گی ، لیکن افسوس کہ اس وقت کی گجرات کی حکومت ہمیشہ سے ہی ظالموں ، جابروں ، قاتلوں اور زانیوں کی حمایت میں کھڑی رہی اور انصاف کا خون کرتی رہی۔ یہی وجہ تھی کہ ان زانیوں اور قاتلوں کے خلاف پہلے تو FIR کیے جانے سے انکار کیا ، بڑھتے دباو¿ پر ایک پولیس والے نے ایف آئی آر درج کرنے کی ہمّت دکھائی تو اسے برطرف کر دیا گیا تھااور ان قاتلوں اور زانیوں کو حکومت گجرات کی جانب سے پوری کوشش کی گئی انھیں بے قصور اور ”معزز“ ثا بت کیا جائے۔ اگر اس وقت سپریم کورٹ بلقیس کو انصاف دلانے کے لیے اس کے کیس کو گجرات سے مہاراشٹر ہائی کورٹ میں سنوائی کا فیصلہ نہ کرتی تو بہت ممکن تھا کہ جس طرح گجرات کی حکومت اور عدالتوں نے اجتماعی قتل وغارت گری کرنے والوں کو ”با عزت “ رہا کیا ، ٹھیک اسی طرح بلقیس کے زانیوں اور اس کی بیٹی اور اس کے رشتہ داروں کے قاتلوں کو بھی اسی وقت بے قصور ثابت کر دیا جاتا ۔
گجرات حکومت نے جس بے شرمی اور بے حیائی کا ثبوت دیتے ہوئے بلقیس کے مجرموں کو ”معزز“ بنا کر جیل سے رہا کیاہے ۔اس بے شرمی اور بے حیائی پر پورے ملک اور بیرون ملک میں غم و غصہ دیکھا جا رہا ہے۔ ملک کے طول و عرض میں جلسے ، جلوس احتجاج مسلسل ہو رہے ہیں ۔ خاص بات یہ ہے کہ اس غم و غصہ اور احتجاج کے اظہار میں مسلم خواتین اور ان کی تنظیموں کے مقابلے ہندو خواتین اور ان کی سیاسی و سماجی تنظیمیں زیادہ متحرک اور حملہ آور ہیں ۔ترنمول کانگریس کی رہنما مہوا موئترا نے بھی اپنے شدید رد عمل اور ہندو مسلم کرنے والوں پر اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ملک کو اب فیصلہ کرنا ہوگا کہ بلقیس کو ایک عورت سمجھا جائے یا ایک مسلمان ۔ شیو سینا کی خاتون لیڈر پرینکا چترویدی نے اس سانحہ پر ملک کی خواتین سے آواز بلند کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج بلقیس بانو ہے کل آپ ہو سکتی ہیں ۔ ملک کے مشہور صحافی شیکھر گپتا نے اپنے غم و غصہ کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ” عمر قید کی سزا پانے والے عصمت دری کے مجرمین کی رہائی ایک سیاسی عریانیت اور اس کا جشن اور اس کا استقبال ایک قومی شرم کی بات ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ گجرات میں جلد ہی انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی کو پولرائزیشن کی ضرورت ہے ، لیکن اس کے لیے حکومت اس حد تک گر جائے گی، اس کا تصور نہیں کیا گیا تھا ۔ بہار میں سی پی آئی ایم ایل (مالے) نے بہار کے مختلف شہروں میں بی جے پی حکومت مخالف احتجاجی جلوس اور مظاہرے کیے نیز اس پارٹی کے اراکین اسمبلی نے اسمبلی کے باہر بھی بلقیس بانو کوا نصاف دیے جانے کا پُر زور مطالبہ پلے کارڈ پر آویزاں ” بلقیس بانو کو انصاف دو “ ”ناری سمّان کا ڈھونگ بند کرو “ جیسے نعروں کے ساتھ کیا ہے ۔ایپوا بھی بلقیس کے مجرموں کو رہا کیے جانے پر سخت معترض ہے اور پورے ملک میں احتجاج کر رہی ہے ۔
پورے ملک اور کئی بیرونی ممالک میں گجرات حکومت کے غیر انسانی اور غیر منصفانہ عمل پر غم و غصہ کی بازگشت ہو رہی ہے ، لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارے ملک کے ہندی (گودی) میڈیا نے اس معاملے میں چپی سادھ رکھی ہے ۔ اس خاموشی پر خفا ہوتے ہوئے مشہور انگریزی صحافی راج دیپ سردیسائی نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ سماج اور میڈیا میں جو غم و غصہ نربھیا معاملے میں دیکھا گیا تھا ، وہ بلقیس کے معاملے میں کیوں نہیں دیکھا جا رہا ہے ۔ بی جے پی کی گجرات حکومت کے اس گھناﺅنے فیصلے کے بعد جس طرح ان نا پسندیدہ سماجی عناصر کا والہانہ استقبال ہوا اور کہا گیا کہ جیل سے رہا ہونے والے یہ لوگ برہمن ہیں جو سنسکاری ہیں ۔ اس کے جواب میں نربھیا کی ماں نے گجرات حکومت پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ”ان زانیوں اور قاتلوں کا اس طرح والہانہ استقبال کیا جا رہا ہے جیسے یہ لوگ ملک کے لیے کوئی جنگ فتح کر کے آئے ہیں ۔“ گجرات حکومت کے ذریعہ ان زانیوں اور قاتلوں کو ”سنسکاری“ بتا کر ان کی عمر قید سے رہائی پر ہائی کورٹ کے وہ جج بھی برہم ہیں ، جنہوں نے بلقیس کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے اجتماعی زنا بالجبر اور قتل کے مرتکب 11 مجرموں کو 2008 ءمیں عمر قید کی سزا دی تھی ۔سابق جج یو ڈی سالوی نے اس رہائی پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلقیس کے مجرموں نے ہندو مذہب کو بھی شرمندہ کیا ہے ۔ ان مجرموں کی رہائی گینگ ریپ سے بھی بدتر اور مذہب اور انصاف کے لیے تشویشناک ہے ،جو ملک کی جمہوریت کے لیے بھی مناسب نہیں ہے ۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرا ، جب ملک کے اندر زنا با لجبر کے واقعات بڑھ رہے تھے اور ہر جانب بی جے پی کی حکومت کو ہدف ملامت بنایا جا رہا تھا ۔ اس وقت بی جے پی کے ایک لیڈر نے بڑی بے شرمی سے کہا تھا کہ ریپ ہندو سنسکرتی میں ہے ۔ شاید اسی سنسکرتی کے باعث ہی بی جے پی والوںنے اناو¿ میں زنا کے مجرم اور بی جے پی کے ممبر اسمبلی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی، کٹھوعہ کی معصوم بچی آصفہ کا جس وحشیانہ اور درندگی کے ساتھ کئی دنوں تک اجتمائی زنا بالجبرکرنے کے بعد اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا، اس کے مجرموں کو بھی بے گناہ ثابت کرنے کے لیے اس زانی اور قاتل کی حمایت میں ریالیاں نکالی گئی تھیں ، ہاتھرس میں ریپ کے بعد لڑکی کو ہلاک کر کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بی جے پی حکومت کی پولیس اور انتظامیہ نے بچی کو کوڑوں کے ڈھیر پر جلانے کی کوشش کی گئی تھی۔ ایسے نہ جانے کتنے سانحات ہیں ،جن سے انسانیت شرمسار ہوئی ہے اور مسلسل ہو رہی ہے ۔ ابھی ابھی کرناٹک کے لنگایت کے ایک مٹھ کے گرو پر ہنگامے کے بعد بڑی مشکلوں سے ریپ کی ایف آئی آر درج کی گئی اور اسے 14دن کی عدالتی تحویل میں بھیجا گیا۔ اس سے قبل نوئیڈا کے جیور سے بجنور تک مسلم خواتین کی عصمت دری کے اذیت ناک منظر نامے بھی یاد آتے ہیں ۔
قومی اور بین الاقوامی سطح پر بلقیس کے زانیوں اور اس کی بچی و دیگر تیرہ رشتہ داروں کے قاتلوں کی عمر قید سے ”با عزت رہائی“ کی شرمناک اور غیر منصفانہ حرکت کی جس طرح مذمت کی جارہی ہے ، وہ پورے ملک کے لیے شرمندگی کا باعث ہے۔ ملک کے 6 ہزار سے زائد انصاف پسند، سیکولر،حقوق انسانی کے کارکنان اور معتبر شخصیات کے ساتھ ساتھ 134 سابق نوکر شاہوں نے بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو مکتوب بھیج کر بلقیس کے زخموں کو کریدنے والے فیصلے اور وحشی نما مجرمین کے معافی نامہ کو منسوخ کرتے ہوئے فوری طور پر عمر قید کی سزا کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سنوائی کے بعد گجرات حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب ضرور کیا ہے ۔ لیکن ۔ دوسری جانب سوال کے کٹہرے میں سپریم کورٹ کے جج جسٹس اجئے رستوگی ہیں کہ ان کی سربراہی میں بنی بنچ نے گجرات حکومت کو اس سنگین معاملے پر غور کیے جانے کا اختیار کیونکر دیا گیا ۔جب کہ یہ بات کئی بار سامنے آ چکی تھی کہ ان مجرموں کی عمر قید کا فیصلہ چونکہ ممبئی ہائی کورٹ کا تھا ، اس لیے ان مجرموں کی رہائی کی اپیل پر فیصلہ بھی ممبئی ہائی کورٹ کو ہی کرنا تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رہائی کی یہ اپیل بھی صرف ایک مجرم نے کی تھی اور رہائی تمام گیارہ مجرموں کی کی گئی ۔ وہ کون سی ”خاص“ وجہ رہی کہ اس بے حدسنگین معاملے کو مہاراشٹر عدلیہ کے بجائے گجرات حکومت کے سپرد کیا گیا ۔ اجتماعی زنا بالجبر اور قتل کے ان مجرموں کی”با عزت “ رہائی اور بی جے پی کے ایک ممبر اسمبلی بھرت پٹیل کے اس خطرناک بیان پر کہ ” میں جب چاہوں دنگے کرا سکتا ہوں “ کے بعدبلقیس کے گاو¿ں رندھیک پور میں رہنے والے مسلمان خوف و دہشت کے عالم میں ہیں اور اس گاو¿ں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوکر رحیم آباد کالونی میں پناہ گزیں ہیں ۔ ان لوگوں کو گجرات کے بھیانک قتل عام کی یاد پریشان کیے ہوئے ہے ۔
افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان واقعات اور سانحات پر ملک بھر میں احتجاج ، غم و غصہ ، امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی کی سخت مذمت کے باوجود مرکزی حکومت مسلسل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے جو انسانی اقدار و جمہوری تقاضوں کے منافی اور بے حد تشویشناک ہے ۔
٭٭٭