مشرق وسطیٰ

حماس اور فتح کا جھگڑا ختم‘ بیجنگ اعلامیہ پر دونوں تنظیموں کے دستخط

حماس اور اسرائیل میں امن معاملت ہوجانے کے بعد بھی مابعد جنگ غزہ کا ویژن مشتبہ ہے، کیونکہ اسرائیل غزہ کو چلانے میں حماس کے کسی بھی رول کے خلاف ہے۔

رملہ(مغربی کنارہ): فلسطینی تنظیم حماس اور فتح نے ایک سال سے جاری جھگڑا ختم کرتے ہوئے بیجنگ میں ایک اعلامیہ پر دستخط کردئے۔ چین کے سرکاری میڈیا نے منگل کے دن یہ اطلاع دی۔ یہ اعلامیہ فریقین کو متحد کرنے سلسلہ وار بات چیت کا نتیجہ ہے۔

متعلقہ خبریں
ٹمریز میں داخلے، آن لائن درخواستوں کیلئے اعلامیہ جاری

پچھلے اعلامیہ ناکام رہے تھے۔ شبہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ آیا چین جو بات چیت کرارہا ہے وہ کامیاب ہوگی۔ یہ پیشرفت ایسے وقت ہوئی ہے جب اسرائیل اور حماس جنگ بندی کی تجویز کا جائزہ لے رہے ہیں جسے بین الاقوامی تائید حاصل ہے۔

 حماس اور اسرائیل میں امن معاملت ہوجانے کے بعد بھی مابعد جنگ غزہ کا ویژن مشتبہ ہے، کیونکہ اسرائیل غزہ کو چلانے میں حماس کے کسی بھی رول کے خلاف ہے۔ غزہ میں تازہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے حماس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ حماس پھر سے غذا کی حکمرانی سنبھالنا نہیں چاہتی۔

 اُس نے ٹیکنوکریٹس کی حکومت بنانا تجویز کیا ہے، جس پر مختلف فلسطینی دھڑے متفق ہوں۔ ایسا ہوجائے تو غزہ اور مغربی کنارہ میں الیکشن کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ حماس اور فتح نے بیجنگ اعلامیہ پر دستخط کردئے۔ انہوں نے جھگڑا ختم کرنے اور فلسطینی اتحاد کو مستحکم کرنے کے لئے یہ اقدام کیا۔

 سرکاری نشریاتی ادارہ سی سی ٹی وی نے یہ اطلاع دی۔ فلسطین کے دو حریف گروپس نے دیگر 12سیاسی دھڑوں کے ساتھ وزیر خارجہ چین وانگ ای سے ملاقات کی۔ اتوار کے دن شروع ہونے والی بات چیت اختتام کو پہنچی۔ بات چیت کے بعد جاری مشترکہ بیان میں بیجنگ نے یہ تفصیل نہیں بتائی کہ کب اور کیسے حکومت بنے گی۔ اس نے صرف اتنا کہا کہ دھڑوں میں اتفاق رائے سے یہ کام ہوجائے گا۔ فتح اور حماس ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں۔

 یو این آئی کے بموجب چین میں ہونے والے مذاکرات میں الفتح اور حماس سمیت 14 فلسطینی دھڑے اختلافات ختم کرنے اور غزہ پر حکومت کے لیے ایک‘عبوری قومی مفاہمتی حکومت’کے قیام پر متفق ہوگئے ہیں۔

غیر ملکی خبررساں ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق صہیونی فوج کی جانب سے انخلا کے حکم کے چند منٹ بعد جنوبی غزہ میں مشرقی خان یونس پر اسرائیلی فوج کی جانب سے فضائی اور زمینی حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں 77 فلسطینی شہید اور 200 سے زائد زخمی ہو گئے ہیں۔

غزہ کی وزارت صحت کے حکام کے مطابق اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، جب کہ اسرائیل نے خبردار کیا کہ اس کی افواج علاقے میں‘زبردستی آپریشن’کریں گی۔فلسطینی شہری دفاع کے مطابق اسرائیل کی جانب سے انخلا کے نئے حکم سے 4 لاکھ سے زیادہ فلسطینی متاثر ہوئے ہیں۔

اسرائیلی فوج کی طرف سے خان یونس کے کچھ حصوں بشمول‘المواسی ہیومنٹریئن زون’سے عارضی طور پر انخلا کے حکم کے بعد ہزاروں فلسطینی علاقے کے جنوبی علاقوں سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اس علاقے میں راکٹ حملوں کو روکنے کے لیے کارروائی کرے گی۔فلسطینی شہری دفاع کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صبح سویرے شمالی غزہ میں فلسطینیوں کے گھروں پر اسرائیلی حملوں میں کم از کم 16 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

غزہ شہر کے صابرہ محلے میں الدایہ خاندان کے گھر پر اسرائیلی بمباری میں کم از کم 8 افراد شہید ہوئے، جس میں 2 بچے بھی شامل ہیں، الصحابہ کے علاقے میں الجماسی خاندان کے گھر پر الگ الگ حملے کے نتیجے میں کم از کم 4 افراد شہید ہوئے۔

چین کے دارالحکومت بیجنگ میں فلسطینی سیاسی گروپ حماس اور الفتح کے درمیان فلسطینی مفاہمتی مذاکرات ہوئے، چینی حکومت کی حمایت سے ان مذاکرات میں الفتح کے نائب سربراہ محمود اللول اور حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ سمیت دونوں گروپوں کے وفد نے شرکت کی۔

الفتح کے سینیئر رہنما عبدالفتاح دولہ نے کہا‘غزہ پر نسل کشی کی جنگ کے ساتھ فلسطینی کاز جن مشکل حالات سے گزر رہی ہے، ان میں مفاہمت کی راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو حل کرنے اور ختم کرنے کے لیے تیار ہیں ’۔خیال رہے کہ فتح اور حماس کے درمیان مسائل پر شدید اختلافات کے نتیجے میں مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ 2007 سے سیاسی طور پر منقسم ہیں۔تاہم دونوں جماعتوں کے مقاصد ایک جیسے ہیں، جو 1967 کی سرحدوں پر ایک فلسطینی ریاست کی تشکیل ہے، لیکن وہ اسرائیل کے بارے میں اپنے رویے پر منقسم ہیں-

 الفتح مسلح مزاحمت کے بجائے پرامن مذاکرات کی حامی ہے۔اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے 14 فلسطینی دھڑوں کی جانب سے غزہ پر حکومت کرنے کے لیے ایک‘عبوری قومی مفاہمتی حکومت’کے قیام کے معاہدے کو سراہا ہے۔

چین کے دارالحکومت میں دھڑوں کی طرف سے‘بیجنگ اعلامیہ ’پر دستخط کرنے کے بعد وانگ یی نے کہا‘ سب سے نمایاں بات جنگ کے بعد کے غزہ کی حکمرانی کے لیے ایک عبوری قومی مفاہمتی حکومت کی تشکیل کا معاہدہ ہے ’۔