ضابطہ اخلاق بنانے کی کوئی ضرورت نہیں: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے منگل کے دن کہا کہ سرکاری عہدوں پر فائز لوگوں کو ازخود تحمل برتنا چاہئے۔ انہیں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہئے جس سے ملک کے دیگر شہریوں کی اہانت ہوتی ہو۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل کے دن کہا کہ سرکاری عہدوں پر فائز لوگوں کو ازخود تحمل برتنا چاہئے۔ انہیں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہئے جس سے ملک کے دیگر شہریوں کی اہانت ہوتی ہو۔
ملک کی سب سے بڑی عدالت نے کہا کہ یہ اپروچ ہمارے دستوری کلچر کا حصہ ہے۔ عوامی عہدوں پر فائز افراد کے لئے ضابطہ اخلاق بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
جسٹس ایس اے نذیر کی زیرقیادت 5 رکنی بنچ نے کہا کہ عوامی عہدہ پر فائز شخص جب بھی ایسی تقریر کرتا ہے جس سے کسی اور کو زک پہنچتی ہے تو شہریوں کے لئے سیول ریمیڈی ہمیشہ دستیاب رہتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ آرٹیکل 19(2) چاہے جو کہے اس ملک کا دستوری کلچر ایسا ہے جو سرکاری عہدوں فائز افراد پر بندش لگاتا ہے۔ بنچ نے کہا کہ ہم ضابطہ اخلاق کیسے بناسکتے ہیں کیونکہ یہ لیجسلیچر اور اکزیکٹیو کا کام ہے۔
درخواست گزار کے وکیل کالیشورم نے کہا کہ عوامی نمائندوں کی طرف سے نفرت بھڑکانے والی تقاریر بڑھ گئی ہیں۔ انہوں نے ایک واقعہ کا حوالہ دیا جس میں ایک وزیر نے صدرجمہوریہ کا مذاق اڑایا ہے۔