مضامین

مسلم دنیا میں خواندگی کا قابل قدر اضافہ، صنفی فرق میں بھی خوش آئند کمی

فرانس کے مشہور مورخ مارکوس نے بجا طور پر کہا، ’’یہ مسلم سائنس تھی، مسلم آرٹ اور مسلم لٹریچر تھا جس نے یورپ کو عہد وسطیٰ کی تاریکی سے نکلنے میں مدد کی۔

از ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی 

متعلقہ خبریں
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے تعلیم بنیادی ضرورت ہے اور اعلیٰ تعلیم، غربت کے خاتمہ کے لئے ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ معاشرے کو زمانہ کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ عصری علوم (سائنسی تعلیم) کو فروغ دیا جائے۔ یہ بنیادی حقیقت امت مسلمہ کو دوران عہد وسطی خوب واقف تھی۔

’’علم کی تلاش‘‘ مسلمانوں کے لئے اسلام کا معروف حکم تھا۔ اس حکم کی پیروی کرتے ہوئے انہوں نے تقریبا آٹھ سو سال تک دنیا کی قیادت کی۔ ایڈوربراؤن (1862-1926) نے خیال ظاہر کیا کہ ’’جب خلافت عباسیہ کے دوران بغداد کی 10 لاکھ آبادی میں خواندگی 100 فیصد تھی، اس وقت یورپ کے نوابین (Lords) کی شہزادیاں اور شہزادے اپنا نام لکھنے سے قاصر تھے۔ (History of Persian Literature – 1902)

یہ وہی دور تھا جب مسلمانوں نے تقریبا آٹھ سو سال تک علم کے تمام شعبوں میں زبردست پیشرفت کی اور تاریک دنیا کو اپنے علم سے منور کر دیا۔ 

فرانس کے مشہور مورخ مارکوس نے بجا طور پر کہا، ’’یہ مسلم سائنس تھی، مسلم آرٹ اور مسلم لٹریچر تھا جس نے یورپ کو عہد وسطیٰ کی تاریکی سے نکلنے میں مدد کی۔ (Speeches   in India, 1890) ــ۔ 

پھر افسوس صد افسوس کہ مسلمانوں کے ساتھ نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ انہوں نے اپنے آپ کو پندرہویں صدی کے بعد علم سے دور کرلیا اور دنیا کی قیادت سے محروم ہوگئے۔ ساری اسلامی دنیا جہل کےاندھیروں میں ڈوب گئی اور تاریکی کا یہ حال ہوا کہ  بقول ڈونالڈ کوتاٹٹ (مورخ) ساری دنیا میں مسلمانوں کی خواندگی انیسویں صدی کے اواخر میں 10 فیصد سے بھی کم تھی۔  بارہویں صدی میں صد فیصد اور انیسویں صدی میں دس فیصد سے کم۔ دنیا کے مسلم اور غیر مسلم دانشور حضرات اس منفی انقلاب کے حکمی وجوہ بتانے سے قاصر ہیں۔

اسلامی زوال کی ایک وجہ تو یہ ضرور بتائی جاتی ہے کہ پندرہویں صدی کے بعد عثمانی سلطنت (ترکی خلافت) کے دوران مسلمانوں نے فن تعمیر، ہتھیارسازی، دھات کاری (Metallurgy)، سیرامکس (Ceramics)، شعر و ادب، موسیقی اور پینٹنگ جیسے فنون میں تو ترقی ضرور کی لیکن علم  بالعموم اور سائنس بالخصوص کی جانب توجہ کو ضروری نہ جانا۔

یورپ  کے تیزی سے ابھرتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کو تو بالکل غیرضروری ہی بتادیا گیا۔ سب سے زیادہ نقصان  تو اس رویہ سے ہوا کہ 15 ویں صدی کی نہایت اہم یوروپی ایجاد پرنٹنگ پریس کے استعمال کو ناجائز قرار دیا گیا۔ پرنٹنگ پریس (مشین) دراصل یورپ کا وہ اصل ذریعہ تھا جس کی مدد سے وہاں سائنسی اور صنعتی سرگرمیوں کو جلا ملی اور زندگی کے ہر شعبہ میں ایک انقلاب بپا ہوا۔ 

مولانا ابوالحسن علی ندوی نے بجا طور پر فرمایا کہ ’’سولہویں صدی کے بعد مسلمانوں نے تحقیقات اور طبیعی علوم میں دلچسپی کم کردی اور خود کو مابعد الطبیعاتی علوم میں زیادہ مشغول کر دیا جس کے نتیجے میں وہ عظیم علمی شخصیات سے محروم ہوگئے۔‘‘ مسلمان اپنی سائنسی فکر بھول کر صرف روایتی علم کی پیروی  کرنے لگے۔ اس لئے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں پیچھے رہ گئے اور یوں مغرب کے غلام بن گئے۔

بہر حال مسرت کا مقام ہے کہ حالیہ برسوں میں اسلامی دنیا میں تعلیم کے تئیں احساس جاگا ہے اور خواندگی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ قابل مسرت یہ بات بھی ہے کہ عورتوں میں بھی خواندگی بڑھی ہے اور مرد۔عورت کے درمیان فرق بھی کم ہوا۔

جان ملر (John Miller) کے سروے کے مطابق 5 مسلم ممالک یعنی آذربائیجان، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان اور ازبکستان   میں سب سے زیادہ یعنی 100 فیصد خواندگی کی شرح ہے۔ ورلڈ بینک اور UNSECO کے 2018-2021 کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 25 مسلم اکثریتی ممالک نے بھی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ اوسط خواندگی 90 فیصد سے زیادہ ہے۔

ان میں سعودی عرب98 فیصد، انڈونیشیا 94 فیصد، ملائیشیا 94 فیصد، ایران 90 فیصد، اردن 96 فیصد، متحدہ عرب امارات 94 فیصد اور ترکی 95 فیصد کے اہم نام لئے جاسکتے ہیں۔

بدقسمتی سے بنگلہ دیش، پاکستان اور نائیجیریا سمیت 15 ممالک اب بھی خواندگی میں پیچھے ہیں جہاں 70 فیصد سے بھی کم آبادی خواندہ ہے۔ تاہم 1980 میں 30 فیصد اوسط خواندگی کے اعداد و شمار کے مقابلے میں 2018 تا 2021 کا ڈیٹا انتہائی تسلی بخش ہے۔

سروے میں ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ بہت سے اسلامی ممالک میں خواندگی میں صنفی فرق (مرد اور خواتین) میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے۔ کم از کم 21 ممالک میں فرق صرف 0 سے 7 فیصد ہے۔

نہایت اہمیت کا امر یہ بھی ہے  کہ 41 یونیورسٹیوں میں خواتین طلباء کی تعداد مردوں کے مقابلے زیادہ ہے۔ 11 یونیورسٹیوں  میں خواتین 65 فیصد سے زیادہ ہیں:

مندرجہ ذیل فہرست اسلامی دنیا میں تعلیم کے دوبارہ ابھرنے کی تصویر پیش کرتی ہے:

نام ملک ۔ خواندگی 2008 ۔ عوامی خواندگی 2021 ۔ مردوں کا تناسب 2021 ۔ خواتین کا تناسب 2021 ۔ صنفی فرق کا تناسب 2008 (تمام اعداد و شمار فیصد میں ہیں)

افغانستان: 12-37-52-22-30

البانیہ: دستیاب نہیں۔ 98-98-97-13

الجزائر: 37-81-87-75-20

آذربائیجان: دستیاب نہیں-100-100-100-دستیاب نہیں

بحرین: 73-97-99-94-7

بنگلہ دیش: 26-76-77-72-22

بوسنیا: دستیاب نہیں۔98-99-97-7

برونائی: 63-97-98-93-5

برکینا فاسو: 12-39-69-31-20

شاز: 12-22-31-16-17

کوموروس: دستیاب نہیں-57-64-53-دستیاب نہیں

کوٹی لیوار: دستیاب نہیں-89-93-86-دستیاب نہیں

جی بوٹی: 32-67-دستیاب نہیں۔ دستیاب نہیں۔20

مصر: 66-71-76-65-21

اریٹریا: 52-76-86-68-21

گیمبیا: 16-50-61-61-دستیاب نہیں

گنی: 25-39-56-27-27

گنی بساؤ: دستیاب نہیں۔59-71-68-37

انڈونیشیا: 62-96-97-96-10

ایران: 50-89-90-80-12

عراق: 50-85-91-79-31

اردن: 80-98-98-97-10

قازقستان: دستیاب نہیں۔100-100-100-دستیاب نہیں

کوسوو: دستیاب نہیں۔91-96-87-دستیاب نہیں

کویت: 60-96-97-95-6

کرغیزستان: دستیاب نہیں-99-99-99-دستیاب نہیں

لبنان: 76-95-96-93-11

لیبیا: 50-91-96-85-20

ملائیشیا: 60-95-96-93-6

مالدیپ: دستیاب نہیں-97-97-98-دستیاب نہیں

مالی: 10-35-46-25-دستیاب نہیں

موریطانیہ: 17-53-63-43-21

مراکش: 28-73-83-64-25

نائیجیریا: دستیاب نہیں-62-71-52-21

عمان: دستیاب نہیں۔95-97-92-16

پاکستان: 31-58-69-46-27

قطر: 76-96-92-94-1

سعودی عرب: 50-97-98-96-16

سینیگال: 10-51-64-39-25

سیرا لئیون: 15-43-51-39-20

صومالیہ: 20-39-دستیاب نہیں۔ دستیاب نہیں۔25

سوڈان: 20-60-65-56-20

شام: 53-86-91-81-26

تاجکستان: دستیاب نہیں۔100-100-100-دستیاب نہیں

تیونس: 55-81-89-74-18

ترکی: 60-96-99-94-17

ترکمنستان: دستیاب نہیں۔100-100-100-دستیاب نہیں

متحدہ عرب امارات: 65-97-98-96-دستیاب نہیں

ازبکستان: دستیاب نہیں-100-100-100-دستیاب نہیں

یمن: 27-70-85-55-23