مضامین

جو ہیں غدار وہ معصوم بنے بیٹھے ہیں

مہا تما گاندھی اور پنڈت نہرو کے بعداگر کسی شخصیت نے خون جگر سے ہندوستان کو سینچا ہے تو وہ بلامبالغہ بھارت رتن مولانا ابوالکلام آزاد ہیں۔ آج قوم ان کی 136 ویں سالگرہ منارہی ہے۔ یہ دن پورے ملک میں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے یوم قومی تعلیم کی حیثیت سے بھی منایا جاتا ہے۔

جھلکیاں
  • مولانا ابوالکلام آزاد جدید ہند کے معمار
  • فرقہ پرستی کی لعنت سے کبھی سمجھوتہ نہیں
  • کہا تھا کہ پاکستان بنے گا تو میری لاش پر

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786

متعلقہ خبریں
خریدے جب کوئی گڑیا‘ دوپٹا ساتھ لیتی ہے
کسانوں کے قرضوں کی معافی اسکیم ریونت ریڈی کا ایک انقلابی قدم، ڈاکٹر شجاعت علی کا بیان
سی اے اے اور این آر سی قانون سے لاعلمی کے سبب عوام میں خوف وہراس
الکٹورل بانڈس سے متعلق سپریم کورٹ کا تاریخ ساز فیصلہ: شجاعت علی صوفی

مہا تما گاندھی اور پنڈت نہرو کے بعداگر کسی شخصیت نے خون جگر سے ہندوستان کو سینچا ہے تو وہ بلامبالغہ بھارت رتن مولانا ابوالکلام آزاد ہیں۔ آج قوم ان کی 136 ویں سالگرہ منارہی ہے۔ یہ دن پورے ملک میں ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے یوم قومی تعلیم کی حیثیت سے بھی منایا جاتا ہے۔

وہ مولانا ابوالکلام آزاد جنہوں نے اپنے ایک مضمون میں یہ لکھا تھا کہ ’’آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں میں سے اُتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑا ہوکر یہ اعلان کردے کہ سوراج 24 گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو ۔مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے‘ تو میں سوراج سے دستبردار ہوجاؤں گا کیونکہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو عالم انسانیت کا نقصان ہوگا‘‘۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے اسلام کو سینے میں مضبوطی کے ساتھ تھامنے کے باوجود ملک کی تقسیم کے سخت مخالف تھے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے بارہا کہا تھا کہ پاکستان بنے گا تو میری لاش پر بنے گا۔ جدید ہندوستان کے معمار اور ملک کے پہلے وزیرتعلیم ہونے کے ناطے جو ادارے انہوں نے قائم کئے اور جنہیں قوم کے نام معنون کیا گیا وہ ایسے ادارے ہیں جنہوں نے ہندوستان کی کایا پلٹ دی۔

جن اداروں کا مولانا نے پایہ رکھا تھا اُ ن میں یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن ‘ سنٹرل اڈوائزری بورڈ آف آرکیا لوجی ‘ انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنس ‘ دلی پبلک لائبریری‘ سیکنڈری ایجوکیشن کمیشن‘ نیشنل آرٹ ٹریژرس فنڈ، سنٹرل بلڈنگ ریسرچ انسٹیٹیوٹ‘ کاؤنسل آف سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ‘ نیشنل انسٹیٹیوٹ پلانی ‘ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن‘ نیشنل اکادمی آف لیٹرز‘ انڈین ہسٹاریکل ریکارڈز کمیشن‘ میسور و جئے پور‘ آل انڈیا کونسل فار ٹیکنیکل ایجوکیشن کی تشکیل نو‘ سنٹرل اڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن دہلی‘ کٹک و کلکتہ شامل ہیں۔یہ وہ ادارے ہیں جو جدید ہندوستان کی ترقی کی بنیاد بن گئے ہیں۔

ہندوستان اگر مولانا کے بتائے ہوئے راستہ پر چلتا ہے تو وہ د ن دور نہیں کہ ہمارا ملک عزیز ساری دنیا کی امامت کرنے لگے گا۔ وہ سیاست داں تھے ، غیر معمولی دانشور تھے، مفکر اسلام ہونے کا بھی انہیں اعزاز حاصل ہے تو وہیں وہ ایک صحافی ہونے کے ناطے جس جرأت اظہار کیا اُسے قیامت تک بھلایا نہیں جاسکتا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کے ہفتہ وار ’’الہلال ‘‘کو اردو صحافت کی تاریخ میں غیر معمولی حیثیت حاصل ہے۔

ان کے اس جریدہ نے آزادی کے متوالے مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کی مذہبی حمیت کو بھی للکارا تھا جس کا بے حد شاندار اثر ہوا۔ ہندوستان‘ مسلمانوں کی آبادی کے اعتبار سے ایک بہت بڑا ملک ہے اور اسے ملک کی اقلیت کی بجائے ملک کی دوسرے بڑی اکثریت کہنا زیادہ واجب ہوگا۔ ہندوستان کے ھ سے ہندو اور م سے مسلمان دونوں کے باہمی اشتراک سے یہ قوم بنتی ہے اور ھ اور م جب آپس میں ملتے ہیں تو ’’ہم‘‘ کا لفظ ہمارے سامنے آتاہے۔

اس سچائی سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ ملک بھر میں بے پناہ فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی کے باوجود ناہندو بھائی مسلمان کا مخالف ہوا اور ناہی مسلمان بھائی کے دل میں ہندو بھائیوں کے خلاف کوئی براسی آئی ہوگی۔ مکہ مکرمہ کی مقدس سرزمین پر آنکھیں کھولنے والے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے فرقہ وارانہ اتحاد قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ اشتعال انگیز بیانات سے احتراز کیا حتیٰ کہ مسلم لیگ کے قائد جناح کے ہندو۔ مسلم اتحاد کے خلاف نامناسب ریمارکس پر بھی برہمی کا اظہار کیا تھا۔

دورِ حاضر میں اختلاف وانتشار کا مصنوعی ماحول دراصل دورِ غلامی کی دین ہے۔ حیدرآباد کی ایک مندر کے پاس گائے کا گوشت کاٹ کر ڈالا گیا اور شہر فرخندہ کی ایک مسجد کے سامنے کتے کے گوشت کا ٹکڑا ڈالاگیا۔ ناتو ہندو بپھرا اور ناہی مسلمان مشتعل ہوئے۔ ملک کے عوام کا یہ شعور ثابت کرتاہے کہ انہیں امن‘ شانتی‘ بھائی چارہ اور انسانیت کے راستے سے کوئی ہٹانہیں سکتا۔

جب ملک تقسیم ہوا تو مولانا ابوالکلام آزاد نے دلی کی جامع مسجد میں ایک ایسی تقریر کی تھی جس نے ان مسلمانوں کی کایا پلٹ دی جنہوں نے پاکستان کے ملنے کے باوجود ہندوستان کو اپنے جسم اور ایمان کا حصہ بنالیا تھا۔ مولانا نے فرمایا تھا ’’یہ دیکھو! جامع مسجد کے بلند مینار تم سے جھک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کردیاہے؟۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیاتھا اور آج تم ہوکہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتاہے حالانکہ دلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے‘‘۔

مولانا نے مزید فرمایا تھا ’’عزیزو: اپنے اندر ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرو جس طرح آج سے کچھ عرصہ پہلے تمہارا جوش وخروش بیجا تھا اسی طرح آج تمہارا یہ خوف وہراس بھی بیجاہے۔ مسلمان اور بزدلی یا مسلمان اور اشتعال ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ چند انسانی چہروں کے غائب ازنظر ہوجانے سے ڈرو نہیں۔ انہوں نے تمہیں جانے کے لئے اکٹھا کیاتھا آج انہوں نے تمہارے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیاہے تو یہ عیب کی بات نہیں۔

اگر دل ابھی تک تمہارے پاس ہیں تو اسے خدا کی جلوہ گاہ بنائو‘‘۔ عزیزو: تبدیلیوں کے ساتھ چلو۔ یہ نہ کہو کہ ہم اس تغیر کے لئے تیار نہ تھے بلکہ اب تیار ہوجائو۔ ستارے ٹوٹ گئے مگر سورج تو چمک رہاہے‘‘۔ (تقریر کے اقتباسات ختم) زندگی کا ایسا کوئی شعبہ نہیں ہے جس میں ہندوستان کے مسلمانوں نے ترقی نہیں کی ہے۔ اپنے آخری ایام میں آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بہادینے کی بھی بات کہی تھی ۔

ایسے عظیم قائدین کا یہ ملک ترقی کررہا تھا کررہا ہے اور کرتا رہے گا۔ لیکن ہمیں ابراہم لنکن کی اس بات کو یاد رکھنا چاہئے کہ ’’آپ یہ نہ پوچھئے کہ وطن نے آپ کو کیا دیا ہے‘ آپ یہ سوچئے کہ وطن کے لئے آپ نے کیا کیا ہے‘‘۔ بہرحال مولانا کے کارناموں کو دہرانا ایسا ہی ہے جیسے سورج کو دِیا دکھانا۔ اگر آج آزاد باحیات ہوتے اور ہندوستان کی سماجی شکل دیکھتے تو وہ یہ ضرور کہتے کہ

جو ہیں غدار وہ معصوم بنے بیٹھے ہیں
اور معصوم گنے جاتے ہیں غداروں میں