فضائل و برکات موئے مبارک ﷺ
حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ ﷺ نے حجامت بنوائی اور بال مبارک ایک درخت پر ڈال دیئے یہ دیکھتے ہی تمام صحابہ کرام اس درخت کے نیچے جمع ہوگئے اور موئے مبارک کو ایک دوسرے سے چھننے لگے ۔
مولانا سید اسحاق محی الدین قادری ( بانی و ناظم باب العلم انوار محمدی)
حضور ﷺ نے خود اپنے دست مبارکہ سے موئے مبارک متعدد مرتبہ تقسیم فرمائے۔ (شوا ہدالنبوت)
حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ ﷺ نے حجامت بنوائی اور بال مبارک ایک درخت پر ڈال دیئے یہ دیکھتے ہی تمام صحابہ کرام اس درخت کے نیچے جمع ہوگئے اور موئے مبارک کو ایک دوسرے سے چھننے لگے ۔ رسول اللہ ﷺ کے ریش مبارک (داڑھی) کے دو بال حضرت ابو بکر صدیقؓ نے تبرک کے طور پر اپنے گھر میں رکھ لیئے تو انہیں تلاوت قرآن کی دلکش آواز سنائی دیتی تھی مگر تلاوت کرنے والا نظر آتا تھا انہوں نے آقا کریم ﷺ سے ماجرہ عرض کیا کیا تو آپ نے فرمایا (ابوبکرؓ) تم نہیں جانتے کہ میرے بالوں کے گرد فرشتے جمع ہوکر تلاوت قرآن میں مشغول رہتے ۔ (در منثور، تفسیر ابن کبیر، تفسیر ابن جریر، خزائن العرفان)
حضرت ام عمارہ رضی اللہ عنہا بھی موئے مبارک حاصل کر لئے جب حضور ﷺ نے دنیا سے پردہ فرمالیا تو وہ مبارک بالوں کو پانی میں ڈبو کر جس مریض کو پلاتی اللہ تعالی اس بیمار کو شفا عطا فرمادیتے (صحیح البخاری: ج ۹۲/۱) حضرت عبیدہ مخضر مینؓ کبار تابعین سے ہیں آقا ﷺ کے وصال مبارک سے دو سال قبل اسلام قبول کیا لیکن جمال حبیب کبریا کا مشاہدہ نہ کر سکے ان کے پاس حضور ﷺ کے موئے مبارک تھے جو انہیں حضرت انسؓ سے حاصل ہوئے تھے وہ فرماتے ہیں کہ میرے پاس حضور ﷺ کا ایک موئے مبارک ہو، یہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہے (بخاری شریف)
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میرے سارے فتوحات کا باعث موئے مبارک ہوتے ہیں ہمیشہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں موئے مبارک ہوا کرتے ۔ جنگ یرموک میں ان کے سر سے ٹوپی گرگء اور جب تک ٹوپی نہ ملی تو وہ الجھن میں رہے ٹوپی ملنے کے بعد اطمینان ہوا اس وقت آپ نے یہ ماجرا بیان فرمایا کہ اپنی کامیابی کا دارومدار موئے مبارک ہیں (شمس التواریخ) اگر رسول اللہ ﷺ کا موئے مبارک یا عصا مبارک کسی بڑے گنہگار کی قبر پر رکھدئے جائیں بشرطیکہ وہ صحیح العقیدہ مومن ہو ان تبرکات کی وجہ سے ان کے عذاب میں تخفیف یعنی کمی ہوجاتی ہے (تفسیر روح البیان: ۹۵۲/۳ ج، البرہان: ۶۱۱,۷۱۱ جامع المعجزات: ۷۶۲)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا ﷺ اپنا ایک بال اپنے ہاتھ میں رکھ کر فرمایا کہ جس نے میرے ایک بال کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا (تکلیف) دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے خدا کو تکلیف دی اور اس پر تمام آسمان و زمین کے فرشتوں کی لعنت ہے اور نہ اس کے نوافل قبول ہوں گے نہ فرائض (کنز العمال ۶۷۲/۲)
صحابہ کرامؓ وہ لوگ نہ تھے جو فضول کا موں میں وقت گزارتے یا اسے اہمیت دیتے ان کے عمل سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کے تمام صحابہ کرامؓ موئے مبارک کی بے حد تعظیم کرتے اور بطور تبرک اپنے گھر میں رکھتے ۔ امت مسلمہ کیلئے دین و دنیا کی رہنمائی و سرخروئی کیلئے صحابہ اکرام نمونہ عمل ہے۔
٭٭٭