1991 کے قانون پر مرکز کا اصل موقف کیا ہے؟
سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کے دن مرکز سے کہا کہ وہ 1991کے عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی بعض دفعات کو چیلنج کرتی درخواستوں پر اپنا حقیقی موقف ریکارڈ پر لائے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کے دن مرکز سے کہا کہ وہ 1991کے عبادت گاہوں سے متعلق قانون کی بعض دفعات کو چیلنج کرتی درخواستوں پر اپنا حقیقی موقف ریکارڈ پر لائے۔
اس نے مرکز سے پوچھا کہ جواب داخل کرنے کے لئے وہ کتنا وقت لے گا۔ چیف جسٹس یو یو للت کی بنچ نے مرکز کے وکیل سالیسیٹر جنرل تشار مہتا سے پوچھا کہ مرکزی حکومت کا اصل موقف کیا ہے۔ آپ کو کتنا وقت چاہئے۔ آپ جواب کب داخل کریں گے۔
ایک درخواست گزار کے وکیل راکیش دیویدی نے کہا کہ یہ قانون کسی بحث کے بغیر منظور ہوا تھا اور معاملہ قومی اہمیت کا ہے۔ انہوں نے اپنے تیار کردہ 11 سوالات کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانونی سوالات دستوری تشریح کے متقاضی ہیں اور موجودہ کیس میں عدالت ان پر غور کرسکتی ہے۔
جمعیت علمائے ہند کی وکیل ورندا گروور نے کہا کہ مرکز کا موقف اس معاملہ کو آگے لے جائے گا۔ تشار مہتا نے کہا کہ جواب ہنوز زیرغور ہے۔ انہوں نے 2 ہفتوں کا وقت مانگا۔بنچ نے کہا کہ مرکز کا جواب بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں قانون کے جواز کو چیلنج کیا گیا ہے۔
بنچ نے تشار مہتا سے ایودھیا فیصلہ کے اثرات کے تعلق سے ان کی نجی رائے جاننی چاہی۔ بنچ نے ان سے پوچھا کہ آیا 1991 کے قانون کا احاطہ ایودھیا فیصلہ میں ہوا ہے؟ مہتا نے جواب دیا کہ شاید نہ ہوا ہو۔ انہوں نے جواب داخل کرنے کے لئے مہلت مانگی۔
بنچ نے مرکز کو 31 اکتوبر یا اس سے قبل حلف نامہ داخل کرنے کو کہا اور معاملہ کی آئندہ سماعت 14 نومبر کو مقرر کی۔ 12 مارچ 2021کو اُس وقت کے چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی بنچ نے وکیل اشوینی اُپادھیائے کی درخواست پر مرکز سے جواب مانگا تھا جنہوں نے 1991کے قانون کی بعض دفعات کو چیلنج کیا تھا۔
یو این آئی کے بموجب پلیس آف ورشپ ایکٹ یعنی عبادت گاہوں کے تحفظ کے قانون کو ختم کرنے والی درخواستوں پرسپریم کورٹ میں آج سماعت عمل میں آئی جس کے دوران چیف جسٹس کے سامنے جمعیت علمائے ہند کی جانب سے پیش ہوتے ہو ئے ایڈوکیٹ ورندا گروور نے بتایا کہ عدالت کے سابقہ حکم کے باوجود ابھی تک مرکزی حکومت نے اپنا موقف داخل نہیں کیا ہے اور مرکزی حکومت کا موقف جانے بغیر اس اہم معاملہ کی سماعت کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
جمعیت علمائے ہند کی جاری کردہ ریلیز کے مطابق ایڈوکیٹ ورندا گروور نے عدالت کو مزید بتایا کہ مرکزی حکومت کا جواب آنے کے بعد وہ اپنا جواب داخل کریں گی کیونکہ پلیس آف ورشپ قانو ن کو 1991 میں پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا اور آج اسی قانون کو چیلنج کیا جارہا ہے لہٰذا یہ مرکزی حکومت کا فرض ہے کہ وہ نہ صرف جواب داخل کرے بلکہ وہ تمام دستاویزات بھی عدالت میں پیش کرے جوقانون بنانے کے وقت ضروری تھے۔
ایڈوکیٹ ورندا گروور کی درخواست پر چیف جسٹس آف انڈیا یو یو للت نے عدالت میں موجود سالیسیٹر جنرل آف انڈیا تشار مہتا کو حکم دیا کہ اگلی سماعت سے قبل عدالت میں مرکزی حکومت کا کیا موقف ہے اسے حلف نامہ کی شکل میں داخل کریں۔ عدالت نے تشار مہتا سے مزیدکہا کہ اگر وہ جواب داخل نہیں کرنا چاہتے ہیں تو اگلی سماعت پر یہ بھی واضح کردیں تاکہ عدالت پھر اس ضمن میں اپنی کارروائی آگے بڑھائے۔
دوران سماعت مخالف گروپ کے سینئر ایڈوکیٹ راکیش دیویدی نے عدالت کو بتایا پلیس آف ورشپ قانو ن 1991 کو بغیر کسی بحث کے پارلیمنٹ نے منظور کرلیا تھا اور بابری مسجد مقدمہ فیصلہ میں سپریم کورٹ کی جانب سے کئے گئے تذکرہ کی کوئی دستوری حیثیت نہیں ہے۔ ایڈوکیٹ دیوید ی نے کہا کہ پارلیمنٹ کو پلیس آف ورشپ قانو ن بنانے کا اس وقت اختیار ہی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود اس قانون کو نہ صرف بغیر بحث کے منظور کیا گیا بلکہ اسے نافذبھی کردیا گیا جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک مخصوص طبقہ کو خوش کرنے کے لئے اس وقت کی حکومت نے پلیس آف ورشپ قانو ن بنایا تھا جو غیر آئینی ہے اس قانون کی وجہ سے اکثریتی فرقہ کو شدید پریشانیوں کا سامنا ہے۔ اسی دوران ڈاکٹر سبرامنیم سوامی(سابق رکن پارلیمنٹ راجیہ سبھا بی جے پی) نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے بھی پلیس آف ورشپ قانو ن کو ختم کرنے کی درخواست داخل کی ہے لیکن مرکزی حکومت نے اس پٹیشن پر بھی جواب داخل نہیں کیا ہے لہٰذا مرکزی حکومت کو حکم دیا جائے کہ وہ ان کی پٹیشن پر بھی جواب داخل کرے۔
فریقین کی بحث کی سماعت کے بعد عدالت نے فریقین کو حکم دیا کہ 14 نومبر سے قبل کن موضوعات پر عدالت کو سماعت کرنا ہے تیار کرکے عدالت میں جمع کریں‘ عدالت ان موضوعات کو جانچنے کے بعد سماعت شروع کرے گی۔
دوران سماعت عدالت میں جمعیت علمائے ہند کی جانب سے ایڈوکیٹ ورندا گروور کے ہمراہ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول‘ ایڈوکیٹ شاہد ندیم‘ ایڈوکیٹ آکرتی چوبے‘ ایڈوکیٹ سیف ضیاء و دیگر موجود تھے۔واضح رہے کہ صدر جمعیت علمائے ہند سید ارشد مدنی کی ہدایت پر داخل سیول رٹ پٹیشن کا ڈائری نمبر 28081/2022 ہے‘ اسی کے ساتھ ساتھ جمعیت علمائے ہند نے دیگر پٹیشن میں مداخلت کار کی درخواست داخل کی ہے جسے عدالت نے سماعت کے لئے پہلے ہی منظور کرلیا ہے۔
ان درخواستوں میں جمعیت علمائے ہند قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی مدعی بنے ہیں۔آج کی سماعت کے بعد گلزار اعظمی نے کہا کہ جمعیت علمائے ہند‘پلیس آف ورشپ قانو ن کا مضبوطی سے دفاع کرے گی اور مرکزی حکومت کے جواب کی روشنی میں ہمارے وکلاء اگلا لائحہ عمل تیار کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت پڑھنے پر سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون کی خدمات حاصل کی جا ئیں گی۔ ماضی میں ڈاکٹر راجیو دھون اس معاملہ میں پیش ہوچکے ہیں۔