اب بھی ہے فیض جاری حضرت برہنہ شاہؒ کا
دنیا میں یہ دستور چلا آرہا ہے کہ جب کوئی اس فانی جہاں سے رخصت ہوجاتا ہے توکچھ ماہ یا چند سال دنیا اس کو یاد رکھتی ہے۔ اس کے بعد وہ بُھلادیا جاتا ہے تاہم اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی وفات ہوئے صدیاں گذر جانے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ اُن کی یاد باقی رہتی ہے بلکہ مخلوق خدا کا اُن سے فیضیاب ہونے کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہتا ہے۔

ڈاکٹر سید شاہ مرتضیٰ علی صوفی حیدرؔپادشاہ قادری
معتمد سید الصوفیہ اکیڈمی ‘پرنسپل ایس ‘ایم ‘وی کالج حیدرآباد
دنیا میں یہ دستور چلا آرہا ہے کہ جب کوئی اس فانی جہاں سے رخصت ہوجاتا ہے توکچھ ماہ یا چند سال دنیا اس کو یاد رکھتی ہے۔ اس کے بعد وہ بُھلادیا جاتا ہے تاہم اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی وفات ہوئے صدیاں گذر جانے کے بعد بھی نہ صرف یہ کہ اُن کی یاد باقی رہتی ہے بلکہ مخلوق خدا کا اُن سے فیضیاب ہونے کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہتا ہے۔اُن ہی بافیض ہستیوں میں حضرت سید خواجہ حسن برہنہ شاہؒ کا نام نامی اسم گرامی پچھلے چار صدیوں سے مخلوق خدا کے دلوں پر نقش ہے گوکہ اس عرصہ میں کئی نسلیں دنیا میں آئیں بھی اور ختم بھی ہوگئیں تاہم ہر زمانے کے لوگوں میں حضرتؒ کی محبت اور عقیدت منتقل ہوتی رہی ہے۔ البتہ اللہ والوں کی محبت ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی بلکہ کچھ لوگ ہر دور میں اس نعمت سے محروم رہ کر بے ادبی و گستاخی کے مرتکب اور غضب الٰہی کے شکار بنا کرتے ہیں کیونکہ اللہ والوں سے عداوت و دشمنی پر اللہ نے خود اعلان جنگ فرمایا ہے چنانچہ مشہور حدیث قدسی: من عادی لی ولیا فقد اٰدنتہ‘ بالحرب (بخاری)(جس نے میرے ولی سے دشمنی کی تو اس کے لیے میری طرف سے اعلان جنگ ہے)۔ معاذ اللہ!
حضرت سید خواجہ حسن برہنہ شاہؒ کو سراج المجذوبین کے مبارک لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اولیائے دکن کے تذکرہ نگاروں (۱) مشکوٰۃ النبوۃ مولفہ حضرت سید شاہ غلام علی قادری موسویؒ (۲) تاریخ گلزار آصفیہ مولفہ خواجہ غلام حسن خاں (۳) محبوب ذی المنن تذکرہ اولیائے دکن مولفہ عبدالجبار خان ملکاپوری (۴) تذکرہ اولیائے حیدرآباد مولفہ محمد مراد علی طالع (۵) تاریخ خورشید جاہی مولفہ محمد غلام امام خان وغیرہ نے مختصر ہی سہی آپ کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ ایک روایت کے مطابق آپ کی حضرت حسین شاہ ولیؒ(المتوفی ۱۰۶۸ھ) کی دعوت پر حیدرآباد دکن آمد ہوئی۔
آپ کا تعلق سرزمین عراق سے ہے وہیں پر آپ کی ولادت ۱۰۰۰ھ میں ہوئی۔ بزمانہ اورنگ زیب عالمگیر ہندوستان کا رخ کیا اور دہلی میں مقیم مشہور و معروف مجذوبانہ رنگ کے بزرگ حضرت صوفی سرمدؒ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے اور پھر وہاں سے سلطان عبداللہ قطب شاہ بادشاہ گولکنڈہ کے زمانہ میں دہلی سے حیدرآباد وارد ہوئے اور شہر سے دور ایک سنسان ویران مقام پر جو اونچائی پر تھا سکونت پذیر ہوئے وہیں پر آج آپ کا مزار پر انوار مرجع خلائق ہے۔ یہ علاقہ پھسل بنڈہ کہلاتا ہے۔ ماضی قریب میں وہاں آبادیاں تیزی سے بڑھنے لگیں اور اب وہ کنچن باغ مدھانی ڈپو وغیرہ سے موسوم ہوگیا۔ تاہم حضرت کے مزار شریف کے اطراف و اکناف کو آج بھی ’’درگاہ حضرت برہنہ شاہؒ‘‘ سے جانا جاتا ہے جس کے قرب و جوار میں آپ کے ہزاروں معتقدین بشمول شاہ وگدا کے مقابر موجود ہیں۔ قطب شاہی سلطنت ہو کہ آصفجاہی سلطنت کے وزرائ، عمائدین اور امراء کے خاندان سب کے سب حضرت کے معتقدین میں شامل اور حضرت ہی کے جوار میں مدفون ہیں۔
حضرت نے تو ویران مقام کو پسند کرکے سکونت اختیار کی تھی لیکن جیسا جیسا بندگان خدا کا آپ سے واسطہ ہوتا وہ آپ کی محبت و عقیدت کے اسیر بنتے گئے۔ ان ہی میں آپ کی سکونت گاہ کے قریب رہنے والا ایک غریب شخص بھی تھا جو سلطان عبداللہ قطب شاہ کے ایک وزیر مالک پرست خاں کے پاس ملازم تھا۔ ایک دن حضرت برہنہ شاہؒ سے معروضہ کیا ’’میری بیوی حاملہ ہے‘ زچگی قریب ہے، تنگدستی کا مارا ہوں آرزو یہ ہے کہ لڑکا پیدا ہو‘‘۔ حضرت نے جواباً فرمایا ’’خدا تجھ کو سب دے گا اب تو یہاں سے جا‘‘ جب گھر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے بیوی گود میں نومولود لڑکے کو لئے بیٹھی ہے۔ آنول لے کر اُسے دفنا نے کے لیے گڑھا کھودا تو وہاں سے دفینہ برآمد ہوا۔ اس کے بعد اس کی ساری غربت و تنگدستی آسودگی و خوشحالی میں بدل گئی۔
جب اس ملازم کے مالک یعنی سلطان عبداللہ قطب شاہ کے وزیر مالک پرست خاں کو یہ اطلاع پہنچی تو وہ بھی کچھ عرصہ بعد بیٹے کی آرزو لئے ہوئے حاضر خدمت ہوگیا۔ اتنا رو رو کر فریاد کی کہ حضرت نے ترس کھا کر فرمایا ’’خدا دینے والا ہے غمگین نہ ہو وہ بے حساب دے گا‘‘ ۔اس کے بعد اس کی تین بیویوں سے یکے بعد دیگرے اتنی اولادیں ہوئیں کہ بے حساب ، اُسے کوئی اولاد کے بارے میں پوچھتا تو کہتا میں اپنے منشی سے پوچھ کر بتاتا ہوں۔
مذکورہ بالا واقعہ میں اللہ کے ولی کے ذریعہ جو کرامت کا ظہور ہوا اس کو یا اس جیسے خلاف عادت کاموں کو ماننے میں کچھ اذہان تامل وانکار کیا کرتے ہیں اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے پہلے اس سے متعلق قرآن وحدیث کی روشنی میں کچھ ضروری باتوں کا مطالعہ کرلیں۔
اللہ تبارک وتعالی کی قدرت کائنات کے ذرہ ذرہ سے عیاں ہے البتہ اس کی شانِ قدرت و خالقیت کا شہکار انسان کو قرار دیا گیا اور یہی انسان قدرتِ خداوندی کا جب مظہر بن جاتا ہے تو ایسے محیر العقول اُمور ظاہر ہوتے ہیں کہ عوام وخواص تعجب کئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ ظاہر ہے ایسا مظاہرہ ہر انسان سے تو نہیں ہوتا بلکہ اللہ پاک کی طرف سے جنھیں چن لیا جاتا ہے اُن ہی کو مظہر قدرت بناکر دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اُن نفوس ِقدسیہ میں سب سے اونچا مرتبہ تو انبیاء ورسل کا ہے اور پھر اُن میں بھی جو اولوالعزم پیغمبران حق گزرے ہیں اُن کے ذریعے رب تبارک و تعالی نے اپنی قدرت کاملہ کا خوب اظہار فرمایا جنھیں نبوت ورسالت سے سرفراز فرمایا انھیں کے ہاتھوں ایسے ایسے حیران کُن خلاف عادت اُمور کو ظاہر فرمایا کہ دنیا ششدر رہ گئی ایسے اُمور و واقعات کو خرق عادت یا معجزہ کہتے ہیں البتہ اگر اس طرح کا معاملہ غیر نبی سے انجام پائے تو اُس کی دو قسمیں ہیں ایک کو اصطلا ح میں کرامت کہتے ہیں تو دوسرے کو استدراج ۔اہل اللہ اورخاصان خدا سے جب کوئی خلاف عادت بات سرزد ہو تو کرامت کہلاتی ہے جبکہ کافر ومشرک یا دشمنان ِخدا سے ایسا کوئی کام ہوتو اسکو اصطلاح شریعت میں استدراج کہتے ہیں ۔
معجزہ وکرامت میں طاقت وقوت رب العالمین کی ہی کارفرماہوتی ہے تاہم اس کا ظہور نبی یا ولی کے ذریعہ ہوتا ہے البتہ استدراج میں شیطانی قوتیں اپناکام کرتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو اور اسکے ہمنوائو ں کو وقت مقررہ تک ڈھیل دے رکھی ہے اور یہی ڈھیل یا مہلت اُن شیاطین یا شیطان صفت لوگوں کے لئے بتدریج ہلاکت کی طرف ڈھکیلے جانے کا سبب بنتی ہے چنانچہ قرآنی آیت والذین کذبوا باٰ یٰتنا سنستدرجھم من حیث لایعلمون (سورئہ اعراف آیت نمبر ۱۸۲) ترجمہ :اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلا یا ہم ان کو بتدریج تباہی کی طرف اس طرح لے جائیں گے کہ ان کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ استدراج کا معنیٰ یہ ہے کہ بندے کو دنیا میں اللہ کریم ہر وہ چیز عطا فرمادیں جو اس بندہ کی گمراہی اور جہالت میں اضافہ کا سبب بن جائے ۔یہ چیزیں اس کے لیے اللہ کریم سے دوری بڑھاتی چلی جاتی ہیں ۔
معجزات ِ انبیاء ورسل پر قرآن مجید کی کثیر التعداد آیات گواہ ہیں کئی انبیاء ورسل کے معجزات کو پورے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر الگ الگ انداز سے بیان کیا گیا ہے اس لئے عوام الناس کی اکثریت معجزات کا انکار تو نہیں کرتی تاہم کرامات اولیاء کو حق ماننے کے بارے میں لوگ بہت جلد فریب کا شکار ہوجاتے ہیںیا موجودہ زمانے میں ایسے عوامل کارفرماہیں کہ کرامات اولیاء اللہ پر شک و شبہ ہی نہیں بلکہ کھلم کھلا انکار اور اس پر بحث و تکرار ہوتی دکھائی دے رہی ہے خصوصاً سوشیل میڈیا پر تو اس جیسے موضوعات پربہت ہی نازیبا اور ایسا نا مناسب رویہ روا رکھا جاتا ہے کہ اکرام ِمسلم و اخلاق و اداب بین المسلمین کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ساری حدودوقیود کو توڑ کر آپس میں ایک دوسرے پر رکیک ذاتی حملے اور سوقیانہ اندازکے جملے عوام تو عوام اہل علم کی تک شناخت کو مجروح کررہے ہیں اس لئے سطور ذیل میں اختصار کے ساتھ اس عنوان پر کچھ روشنی ڈالنے کی سعادت حاصل کی جاتی ہے تاکہ شکوک و شبہات کا غبار دور ہو اور حقیقت وصداقت کا نور ماحول کو پھر سے منور کردے ۔
اُمت کے علمائے حق نے قرآن کریم کی جن آیات بینات کو اثبات کرامت پر دلیل کے طور پر پیش کیا ہے اُن میں۔
مثال (۱) آل عمران میں حضرت بی بی مریم کے حجر ے میں بے موسم کے پھلوں کی موجودگی جو بی بی مریم کی کرامت ہی متصور ہوگی کیونکہ آپ ایک نبی کی والدہ ضرور ہیں لیکن نبوت آپ سے متعلق نہیں لہذا غیر نبی کے ذریعہ جو خلاف ِ عادت امر واقع ہو وہ کرامات کہلاتاہے۔
مثال(۲) سورئہ کہف میں وارد اصحاب کہف کے تذکرے میں سورج کا غار سے دائیں بائیں ہو کر گذر نا بیان ہوا ہے جسکو بھی زمرئہ کرامت ہی میں شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اصحاب کہف حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ السلام کے بعد آنے والے آپ کے امتی سمجھے جاتے ہیں نبی نہیں کیونکہ حضرت عیسیٰ کے بعد ہمارے آقا سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان کو نبی نہیں ہے اس طرح سورج کا اپنی چال بدلنا یہ اصحاب کہف کی کرامت ہی متصور ہوگی کیونکہ وہ بھی غیر نبی تھے۔ اور خود اُن اصحاب کہف کا تقریبا ۳۰۹سال تک بیدار ہوئے بغیر محو خواب رہنابھی ایک کرامت ہی ہے ۔یہاں کسی کے دل میں یہ خیال گذرسکتا ہے کہ اس میں اُن کا کیا کمال ؟یہ تو قدرت الٰہی سے سوتے رہے سورج بھی قدرت الٰہی سے ہی اپنی چال تبدیل کیا یہ اُن کی کرامت کیسے ہوگئی؟ اس کے جواب میں یہی کہا جائے گا معجزہ ہو کہ کرامت سب میں قدرت الٰہی ہی کا رفرماہوتی ہے البتہ اس کا ظہور بندوں سے ہوتا ہے جو مضمون ہذا کے ابتدائی سطور میں بھی مذکور ہو چکاہے۔
مثال (۳) سورئہ نمل میں تذکرہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تحت ملکہ بلقیس کے تخت کا دربار سلیمانی میں لایا جانا بھی عارفین نے کرامات اولیاء میں شمار کیا ہے کیونکہ اس فعل کو بذات خود حضرت سلیمان علیہ السلام نے انجام نہیں دیا اورآپ چاہتے تو ایسا کرسکتے تھے اگر آپ سے یہ فعل سرزد ہوتا تو معجزہ کہلاتا لیکن آپ نے خود اس فعل کو انجام دینے کے بجائے اپنے ایک امتی کو حکم دیاجس پر آپ کی رعایا میں شامل اور آپ کے دربار میں داخل آپ کے بااعتماد وزیر نے پلک جھپکنے کے دور انیہ میںتخت لاکردکھا یا جن کو قرآن نے ’’قال الذی عندہ علم من الکتاب‘‘ کے مبارک الفاظ سے یاد کیا اور جن کا نام مفسرین نے آصف بن برخیا بتایا ہے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے امتی تھے نبی نہیں اور جو غیر نبی سے خلاف عادت کام ہو تو وہ کرامت کہلاتا ہے ۔
آیات قرآنی سے کرامت کاجو ثبوت امت کے علمائے حق نے دیا ہے اس کا اختصار کے ساتھ خلاصہ قارئین کے نظر نوازہوا اب آئیے احادیث شریفہ کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ تو مسند احمد کی ایک ہی حدیث مبارکہ میں کرامت سے متعلق دودوشواھد ملتے ہیں کہ جھولے میں رہ کر دوغیر نبی کمسن لڑکوں نے بات کی۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا گہوارے میں صرف تین بچوں نے کلام کیا (۱) عیسیٰ بن مریم (۲) بنو اسرائیل میں جریج نامی ایک عبادت گزار آدمی تھا -حدیث طویل ہے-اس پر زنا کی جھوٹی تہمت لگی اور ایک بدکا ر عورت نے ایک بچے کو اُس کی طرف منسوب کیا تب اُس نیکوکار شخص نے نماز پڑھی دعاء کی اور اس نو مولود بچے کی طرف آکراس کو اپنی انگلی ماری اور کہا اللہ کی قسم اے بچے تیرا باپ کون ہے؟ اس نے کہا :
میں چرواہے کا بیٹا ہوں۔الخ(۳)ایک خاتون اپنی گودمیں ایک بچے کو دودھ پلارہی تھی کہ اس کے پاس سے حسن و جمال والا ایک سوار گذرا تو اس نے کہا اے اللہ میرے بیٹے کو اس کی طرح بنادے بچے نے د ودھ پینا چھوڑااورر سوار کی طرف متوجہ ہوکر کہا اے اللہ مجھے اس کی طرح نہ بنانا پھر وہ دودھ پینے میں لگ گیا۔ آگے بیان کرتے ہیں کہ اتنے میں اسی خاتو ن کے پاس سے ایک ایسی عورت گذری جسکی پٹائی ہورہی تھی اس دودھ پلانے والی خاتون نے کہا اے اللہ میرے بیٹے کو اس طرح کا نہ بنانا۔ بچے نے دودھ پینا چھوڑا اور دعاء کی کہ اے اللہ مجھے اس کی طرح بنانا ‘ اور اب کی بار اس لڑکے نے کہا اے میری ماں وہ حسن و جمال والا سرکشوں میں سے ایک سرکش تھا اور یہ لونڈی جس کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ اس نے زنا کیا ہے جبکہ اس نے زنا نہیں کیا لوگ کہتے تھے کہ اس نے چوری کی ہے جبکہ اس نے چوری نہیں کی تھی اور وہ کہہ رہی تھی حسبی اللہ (اللہ مجھے کافی ہے)
مذکور ہ بالا حدیث میں مذکورہ تین بچوں کے منجملہ ایک تو حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ہیں جن کا گہوار ہ میں بات کرنا قرآن میں بھی مذکور ہوا جو از قسم معجزات ہے لیکن ما بقی دوکمسن شیر خوار لڑکوں کا بات کرنا غیر نبی سے ہونے والا خلاف عادت فعل ہے جو بلا شبہ قدرت الٰہی سے ہی ہوا ہے تاہم اس کو کرامات کی قسم میں گناجاتا ہے کیوں کہ اس کا ظہور غیر نبی سے ہوا ہے۔
علاوہ ازیں احادیث مشہورہ میں مذکورہ تین غاروالوں کا قصہ جوچٹان کے باعث ہلاکت کے قریب ہوگئے تھے اور جب دعاء کی تو چٹان ہٹ گئی اور وہ سلامتی کے ساتھ باہر نکل آئے اس واقعہ کوبھی از قسم کرامت امت کے علمائے حق نے شمار کیا ہے۔جو بخاری شریف میں بھی شامل ہے۔
بخاری کی ایک اور روایت جس میںبیان ہوا کہ ایک شخص بیل پر سوار ہوکر جارہا تھا کہ اس بیل نے اس کی طرف دیکھا اور کہا میں اس کے لئے نہیں پیدا ہوا ہوں میری پیدائش تو کھیت جو تنے کے لئے ہوئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس (بات کو) مانتا ہوں اور ابو بکر ؓو عمرؓ بھی مانتے ہیں۔
کتب حدیث میں ایسی بے شمار روایات ہیں جن میں خلاف عادت ہونے والے کام کا تذکرہ ہے جو از قسم معجزات نہیں ۔ خاص طور سے بیل والی حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا ’’بہت ہی قابل غور ہے ‘‘کہ( بیل کے بات کرنے کے واقعہ کو)میں مانتا ہوں اور( نہ صرف میں مانتا ہوں بلکہ زمین میں میرے دو وزیر) حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی مانتے ہیں ۔سطور بالا میں مذکورہ آیات قرآنی و احادیث کریمہ کی روشنی میں کرامات اولیاء اللہ کے بارے میں اہل ایمان کو کیسا رویہ اختیار کرنا چاہئے واضح ہوگیا ۔اب پھر ہم سیرت حضرت برہنہ شاہ ؒ کی طرف رخ کرتے ہیں
آپ کے بارے میں تذکرہ نگاروں نے یہ واقعہ بھی لکھا ہے جو زبان زد خاص و عام ہے کہ جب اورنگ زیب عالمگیر کی فوج میں حضرات یوسفینؒ کی حیدرآباد میں آمد ہوئی تو اس وقت حضرت سید حسن برہنہ شاہ قبلہ بقید حیات تھے۔ اس بات کو میرے جد امجد سید الصوفیہ حضرت مفتی و محدث ابوالخیر سید شاہ احمد علی صوفی صفیؔدرویش حسنی حسینی قادری ؒ (المتوفی :۱۳۶۸ھ) فرزند اکبر و جانشین حضرت صوفی اعظم قطب دکن ؒنے حضرات یوسفین پر اپنی کتاب ’’دکن کے دوولی ‘‘مطبوعہ ۱۳۵۵ھ میں با قاعدہ اپنے والد ماجد کی سند کیساتھ روایت کیا ہے ۔
لکھتے ہیں’’میرے والد ماجد مرشد ارشدسید السادات شیخ الشیوخ امام الصوفیہ حضرت مولانا حکیم سید شاہ ابوالعابد اعظم علی صوفی اعظم درویش حسنی حسینی قادری صاحب قبلہ مجمع السلاسل قدس اللہ باسرارہ نے ایک دن ارشاد فرمایا کہ ہمارے پیرو مرشد والد ماجد سیدالسادات امام العارفین شیخ المشائخ حضرت مولانا سید شاہ ابولاعظم سجاد علی صوفی معز درویش حسنی حسینی قادری مجمع السلاسلؒ روایت فرماتے تھے کہ ایک دفعہ جب حضرت برہنہ شاہ صاحب کے روبرو سلطانی لشکر گذر رہا تھا تو حضرت اپنے کسی ایک مرید کا کپڑا فوراً زیب بدن فرمائے بعد مرور لشکر پھر جسم سے علیحدہ کرکے جس کا کپڑا اسی کو سرفراز فرمائے۔ مرید صاحب پارچہ نے عرض کیا کہ پیر و مرشد آپ مدام برہنہ رہتے ہیں مگر لشکر شاہی کی آمد پر لباس زیب بدن فرمانے کی کیا وجہ ہے! حضرت نے اس مرید کے سر کو اپنے بغل میں کچھ دیر رکھ کر چھوڑ دیااور فرمایا کہ آدمیوں سے شرمانا ۔ جانوروں سے حیا کی کیا ضرورت ہے۔ مرید صاحب موصوف بعد روایت فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت نے میرا سر بغل میں رکھا اس وقت لشکر سلطانی میں جس کو میں دیکھتا وہ یا تو بندر ہے یا کتا ہے یا بکری ہے یا سور ہے مگر صرف یہ دو حضرات (یعنی حضرت شاہ یوسف صاحب قادری اور حضرت شریف صاحب قادریؒ) کہ آدمی کی صورت پر نظر آرہے ہیں۔ ؎
ایک بینی و دو گوش نہیں معنی انساں
انسان جنہیں کہتے ہیں وہ لوگ جدا ہیں
حضرت خواجہ سید حسن برہنہ شاہ ؒنے ۱۶؍جمادی الاولیٰ ۱۰۶۴ھ م 1653ء وصال حق فرمایا۔ آپ کی عقیدت و محبت سے مخلوق خدا کے دل اس وقت بھی لبریز تھے جب آپ جسمانی طور پر اُن کے درمیان موجود رہ کر دعاؤں سے نوازا کرتے اور اب جبکہ آپ کے وصال کو کچھ کم (۴۰۰) سال گذر چکے ہیں اس کے باوجود آپ کا روحانی فیضان مسلسل جاری ہے۔ عوام و خواص آپ کے در پر حاضر ہوکر فیضاب ہوا کرتے ہیں۔
آپ کی سیرت و حالات کو یوں تو قدیم و جدیددور کے مختلف سیرت نگارانِ اولیاء اللہ نے اپنی کتابوں میں شامل کیا ہے لیکن سب نے اختصار سے کام لیا تاہم مفصل اور نہایت خوبصورت انداز میں سال گذشتہ ۳۷۸ سالہ عرس شریف کے موقع پر آپ کا ایک حسین تذکرہ بنام ’’تذکرئہ سراج المجذوبین ‘‘حضرت سید خواجہ حسن برہنہ شاہؒ منظر عام پر آیا جس کو موجودہ صدر نشین تولیتی انتظامی کمیٹی درگاہ شریف حضرت برہنہ شاہؒ محب گرامی قدر مولانا قاضی ابواللیث محمد غضنفر علی قریشی قادری المعروف بہ اسد ثنائی صاحب نے بڑی عرق ریزی سے تحقیق کرکے ترتیب دیا اور ’’الانصار پبلی کیشنز‘‘ کے تحت (جس کے وہ بانی بھی ہیں) نہایت دلآویز اور دیدہ زیب طباعت و نفیس کتابت اور خوشنما جاذب نظر ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا جس کو ایک اہم دستاویز کہا جاسکتا ہے کیونکہ مختلف کتب میں چیدہ چیدہ پھیلے ہوئے تفصیلات کوموصوف نے یکجا کرتے ہوئے بڑے سلیقے سے ترتیب دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مفتی اعظم حضرت علامہ مفتی محمد عظیم الدین قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقریظ، ڈاکٹر ظہیر احمد باقوی راہی فدائی کا اہم امور پر مشتمل پیش لفظ، فصیح البیان مولانا شاہ محمد فصیح الدین نظامی کے قلم خوش رقم سے ’’عظیم شخصیت۔ تاریخ ساز کتاب کے زیر عنوان الفاظ کی جادوگری’ پروفیسر محمد عبدالحمید اکبر کے مختصر مگر جامع تاثرات و نیز صدر مفتی جامعہ نظامیہ مولانا مفتی سید ضیاء الدین نقشبندی صاحب شیخ الفقہ جامعہ نظامیہ و بانی ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر کے مضمون ’’شہسوار میدان تجرید۔ حضرت برہنہ شاہؒ ‘‘کی وجہ سے کتاب بہت ہی وقیع ہوگئی ہے جس میں مفتی صاحب نے مختلف امور پر مختصراً لیکن لفظ ’’برہنہ‘‘ کی لفظی تحقیق اور تاریخی جائزہ لیتے ہوئے مفصلاًنہایت اچھوتا اور نادر زاویہ نگاہ پیش کیا ہے جو چشم کشا ہے۔
مصنف کتاب جناب اسد ثنائی صاحب نے اپنی شاعرانہ ادیبانہ اور میدان طباعت میں مشہور ماہرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے قرآنی آیات ‘احادیث کی روایات‘انبیاء کے واقعات ‘اولیاء کی کرامات‘ مختلف کتب کے حوالہ جات و اقتباسات ‘اردو وفارسی زبان کے منتخبہ اشعار، اور چیدہ الفاظ کے درمیان سیرت حضرت برہنہ شاہؒ کی مختلف کتب میں بکھرے ہوئے موتیوں کو ایک حسین مالا میں پرویا ہے اور تحقیقی مزاج کے حامل ہونے کے باعث ہر وہ شخصیت جس کا ذکر کتاب میںخواہ کسی عنوان سے ہو قوسین میں نام کے ساتھ سن وفات بھی دیا ہے جو رہروان میدان تحقیق کے لیے کام کی چیز ہے۔ آخر میں یہی کہا جاسکتا ہے اس کتاب کا مطالعہ موضوع سے متعلق اب تک کی ساری کتابوں سے قاری کو بے نیاز کردیتا ہے۔
درگاہ شریف حضرت برہنہ شاہؒ کی تولیتی کمیٹی کے صدر ہونے کی حیثیت سے اپنے رفقاء کار کے ساتھ درگاہ شریف سے جو فلاحی تعلیمی دینی، رفاہی، ادبی خدمات کا تسلسل قاضی اسدثنائی صاحب نے جاری رکھا ہے اس کی تفصیلات بھی کتاب میں دی گئی ہیں جو قابل تحسین ہی نہیں قابل دیدبلکہ قابل تقلید بھی ہیں۔
اس طرح حضرت سید خواجہ حسن برہنہ شاہؒ کے فیضان کی الگ الگ علیحدہ علیحدہ جہتیں پورے علاقہ کوآج بھی مستنیر کررہی ہیں۔ دعاء ہے کہ رب قدیر اپنے اولیاء کرام کی روحانی و عرفانی برکات سے اُمت کو بہرہ ور ہونے کی توفیق بخشے اور علمی، فکری اعتقادی و سماجی ومعاشرتی بے راہ روی سے افراد اُمت کو محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم(مضمون کی تیاری میں کتب ذیل سے استفادہ کیا گیا: مشکوٰۃ النبوۃ ‘ تاریخ گلزار آصفیہ ‘محبوب ذی المنن تذکرہ اولیائے دکن‘ تذکرہ اولیائے حیدرآباد ‘ تاریخ خورشید جاہی ‘دکن کے دو ولی ‘ تذکرہ سراج المجذوبین وغیرہ )
٭٭٭