بچّے

پطرس بخاری
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ بچوں کی کئی قسمیں ہیں مثلاً بلی کے بچے‘ فاختہ کے بچے وغیرہ مگر میری مراد صرف انسان کے بچو ں سے ہے جن کی ظاہر اً تو کئی قسمیں ہیں۔ کوئی پیارا بچہ ہے اور کوئی ننھا بچہ ہے‘ کوئی پھول سا بچہ ہے اور کوئی چاند سا بچہ ہے لیکن یہ سب اس وقت تک کی باتیں ہیں جب تک برخوردار پنگوڑ سے میں سویا پڑا ہے۔ جہاں بیدار ہونے پر بچے کے پانچوں حواس کام کرنے لگے، بچے نے ان سب خطابات سے بے نیاز ہوکر ایک الارم کلاک کی شکل اختیار کرلی۔
یہ جو میں نے اوپر لکھا ہے کہ بیدار ہونے پر بچے کے پانچوں حواس کام کرنے لگ جاتے ہیں، یہ میں نے حکماءکے تجربات کی بنا پر لکھا ہے ورنہ حاشا وکلا میں اس بات کا قابل نہیں۔
کہتے ہیں بچہ سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے لیکن مجھے آج تک سوائے اس کی قوت ناطقہ کے اور کسی قوت کا ثبوت نہیں ملا‘ کئی دفعہ ایسا اتفاق ہوا ہے کہ روتا ہوا بچہ میرے حوالے کردیا گیا ہے کہ ذرا سے چپ کرانا۔ میںنے جناب اس بچے کے سامنے گانے گائے ہیں‘ شعر پڑھے ہیں‘ ناچ ناچے ہیں‘ تالیاں بجائی ہیں‘ گھٹنوں کے بل چل کر گھوڑے کی نقلیں تاری ہیں‘ بھیڑ بکری کی سی آواز نکالی ہیں‘ سر کے بل کھڑے ہوکر ہوا میں بائیسکل چلانے کے نمونے پیش کئے ہیں۔ لیکن مجال جو اس بچے کی یکسوئی میں ذرا بھی فرق آیا ہو یا جس سُر پر اس نے شروع کیا تھا اس سے ذرا بھی نیچے اترا ہو اور خدا جانے ایسا بچہ دیکھتا ہے۔ اور سنتا ہے تو کس وقت؟
بچے کی زندگی کا شاید ہی کوئی لمحہ ایسا گزرتا ہو جب اس کے لیے کسی نہ کسی قسم کا شور ضروری نہ ہو۔ اکثر اوقات تو وہ خود ہی سامعہ نوازسی کرتے رہتے ہیں۔ ورنہ یہ فرض ان کے لواحقین پر عائد ہوتا ہے۔ ان کو سلانا ہو تو لوری دیجئے۔ ہنسانا ہو تو مہمل سے فقرے بے معنی سے بے معنی منہ بناکر بلند سے بلند آواز میں ان کے سامنے دہرائےے اور کچھ نہ ہو تو شغل بے کاری کے طورپر ان کے ہاتھ میں ایک جھنجنا دے دیجئے۔ یہ جھنجنا بھی کم بخت کسی بے کار کی ایسی ایجاد ہے کہ کیا عرض کروں یعنی ذرا سا آپ ہلا دیجئے لڑھکا چلا جاتا ہے اور جب تک دم میں دم ہے، اس میں سے ایک ایسی بے سُری‘ کرخت آواز متواتر نکلتی رہتی ہے کہ دنیا میں شاید اس کی مثال محال ہے اور جو آپ نے ممتایا ”باپتا“ کے جوش میں آکر برخوردار کو ایک عدد وہ ربڑ کی گڑیا منگوادی جس میں ایک بہت ہی تیز آواز کی سیٹی لگی ہوتی ہے تو بس پھر خدا حافظ۔ اس سے بڑھ کر میری صحت کے لیے مضر چیز دنیا میں اور کوئی نہیں سوائے شاید اس ربڑ کے تھیلے کے جس کے منہ پر ایک سیٹی دار نالی لگی ہوئی ہے اور جس میں منہ سے ہوا بھری جاتی ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو والدین کہلاتے ہیں‘ بد قسمت ہیں تو وہ بے چارے جو قدرت کی طرف سے اس ڈیوٹی پر مقرر ہوئے ہیں کہ جب کسی عزیز یا دوست کے بچے کو دیکھیں تو ایسے موقع پر ان کے ذاتی جذبات کچھ ہی کیوں نہ ہوں وہ یہ ضرور کہیں کہ کیا پیارا بچہ ہے۔
میرے ساتھ کے گھر ایک مرزا صاحب رہتے ہیں۔ خدا کے فضل سے چھ بچوں کے والد ہیں۔ بڑے بچے کی عمر نو سال ہے۔بہت شریف آدمی ہیں۔ ان کے بچے بھی بے چارے بہت ہی بے زبان ہیں۔ جب ان میں سے ایک روتا ہے تو باقی کے سب چپکے بیٹھے سنتے رہتے ہیں۔ جب وہ روتے روتے تھک جاتا ہے ہے تو ان کا دوسرا برخوردار شروع ہوجاتا ہے وہ ہار جاتا ہے تو تیسرے کی باری آتی ہے۔ رات کی ڈیوٹی والے بچے الگ ہیں۔ ان کا سُر ذرا باریک ہے۔ آپ انگلیاں چٹخوا کر‘ سر کی کھال میں تیل جھسواکر کانوں میں روئی دے کر لحاف میں سر لپیٹ کر سوئےے‘ ایک لمحے کے اندر آپ کو جگا کے اٹھا کے بٹھانہ دیں تو میرا ذمہ۔
انہی مرزا صاحب کے گھر پر جب میں جاتا ہوں تو ایک ایک بچے کو بلا کر پیار کرتا ہوں۔ اب آپ ہی بتائےے میں کیا کروں۔ کئی دفعہ دل میں آیا مرزا صاحب سے کہوں حضرت آپ کی ان نغمہ سرائیوں نے میری زندگی حرام کردی ہے نہ دن کو کام کرسکتا ہوں نہ رات کو سوسکتا ہوں۔ لیکن یہ میں کہنے ہی کو ہوتا ہوں کہ ان کا ایک بچہ کمرے میں آجاتا ہے اور مرزا صاحب ایک والدانہ تبسم سے کہتے ہیں ”اختر بیٹا! ان کو سلام کرو‘ سلام کرو بیٹا۔ اس کا نام اختر ہے صاحب بڑا اچھا بیٹا ہے کبھی ضد نہیں کرتا‘ کبھی نہیں روتا‘ کبھی ماں کو دق نہیںکرتا۔“میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ وہی نالائق ہے جورات کے دو بجے گلا پھاڑ پھاڑ کے روتا ہے۔ مرزا صاحب قبلہ تو شاید اپنے خراٹوں کے زور شور میں کچھ نہیں سنتے‘ بدبختی ہماری ہوتی ہے لیکن کہتا یہی ہوں کہ ”یہاں آﺅ بیٹا‘ گھٹنے پر بٹھا کر اس کا منہ بھی چومتا ہوں۔
خدا جانے آج کل کے بچے کس قسم کے بچے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہم بقر عید کو تھوڑا سارولیا کرتے تھے اور کبھی کبھار کوئی مہمان آنکلا تو نمونے کے طور پر تھوڑی سی ضد کرلی!
(کیونکہ ایسے موقع پر ضدکار آمد ہوا کرتی تھی) لیکن یہ کہ چوبیس گھنٹے متواتر روتے رہیں، ایسی مشق ہم نے کبھی بہم نہ پہنچائی تھی۔
٭٭٭