سیاستمضامین

بھارت جوڑو بمقابلہ بھارت توڑوآنجناب کے ذمہ دار ٹھہرا انتخاب

جس قوم یا گروہ میں جب علم کی کمی اور جہالت کی فراوانی ہوجاتی ہے اور بیجا سوڈا واٹر طرزکی جذباتیت کے اتھا سمندر کے مالک بن بیٹھتے ہیں تب ان کے سرپر یا کان کے قریب جب تک دھماکے نہیں ہوتے ہیں وہ مست قلندر پھنّے باز خان بنے پھرتے ہیں۔جواحوال بھاجپائی ریاست اتر پردیش میں ملت بھگت رہی ہے اس کا کوئی پرتؤ پڑوسی غیر بھاجپائی ریاست کے(بابر بہ عیش کوش) مسلمانوں میں نظر نہیں آتا ہے۔ان مہلک اور غیر مطلوب صفات اور انفرادی و اجتماعی طرز عمل کی پختگی پر اگر دو چار صدیاں بھی بطور وراثت ٹنگی ہوئی ہوں تب ان نیند کے ماتوں کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔دورِحاضر کے جعفر و صادق کی جانب سے پیٹھ پیچھے نہیں دو بدو گھاؤں کے باوجود مسلمانوں میں اندھ بھکتی اپنے عروج پر ہے۔جب کہ دوسری جانب دیس کے درد رکھنے والے فکر مند لوگ اور دانشمند ہانکے پکارے کہہ رہے ہیں کہ 2024کا الکشن ملک کی سیکولر و جمہوریت کا آخری و انتم پڑاؤ ہے۔ تاہم ملک گیر مسلم ملت کا جو حال چال ہے وہ سینہ کوبی کے لیے کافی ہے۔

ظفر عاقل

جس فکر نظریہ جماعت ادارہ انجمن یا سیاسی پارٹی سے آپ متعلق ہوں یہ طے ہے کہ ملک کی موجودہ تشویشناک صورتحال ضرور بے چینی سے دوچار ضرور کررہی ہوگی۔فہم و خیال میں اگر دس سال قبل کا بھارت لایا جائے تب ایک بہت بڑی تبدیلی کھلے صاف شفاف آسمان کی طرح ہر ایک پر واضح ہے۔ہاں یہ الگ بات ہے جو اندھ بھکت ہے وہ بھگتّے ہوئے بھی برداشت کرنے کی تکلیف سے گزر ضرور رہے ہیں کیونکہ ملک میں چاہے زندگی گزارنے کے لیے اقل ترین دھن اور سادھن چاہیے یا پرسکون ماحول جس میں رات کی میٹھی نیند مئیسر ہویا اپنی آل اولاد کے لیے بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں کی آسانی سے فراہمی کا معاملہ ہو۔۔۔ بے حد کھٹائی میں پڑ چکا ہے۔ملک کا شہری ضرور چاہے گا کہ دیس میں امن چین کی زندگی کے مواقع میسر ہوں ‘دیس کی ہمہ رخی ترقی ہو اور اس کے فوائد دیس کے ہر شہری کو حاصل ہوں۔اس کے برعکس نام نہادترقی کے نام پر دیس میں سماجی نابرابری کی کھائی گہری ہوتی جارہی ہے۔کسی کے پاس سب کچھ ہے اور کوئی دو وقت کی روزی روٹی کو بِلک رہا ہے ۔80کروڑ جنتا 5کیلو اناج کے لیے حکومت کی طرف ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوچکی ہے یا کردی گئی ہے۔عام جنتا کو متاثر اور بدحال کرنے والی مہنگائی اور بے روزگاری اور ٹریڈ و انڈسٹری کی تباہی نے لوگوں کے روزگار چھین لیے ہیں اور آٹے نمک دودھ دہی اور خوردنی تیل بھی عام جنتا کی استطاعت سے باہر ہوتے جارہے ہیں ۔رسوئی گیس اور پٹرول نے ریکارڈ توڑ بے رحمی کے منازل طے کرکے ہر ایک کو لاچار کردیا ہے۔خود کشیوں کے بڑھتے گراف سے اندازہ ہوتا جارہا ہے کہ لوگ کتنے مایوس لیکن مجبور ہوچکے ہیں۔ کسان اندولن نے زراعت کی بدحالی کو سامنے لادیا ہے اور اس کو سال بھر سات سو جانوں کی آہوتی دے کر دیش کی راجدھانی کے دروازے پر الٹا لٹک جانا پڑا تبھی تین کالے قانون واپس لینے پر حکومت مجبور ہوئی تھی لیکن ہنوز اقل ترین قیمت کا معاملہ اور وعدہ ابھی تک لٹکا ہوا ہے۔
اس دوران آٹھ برسوں میںملک کے چال چرتر کو چرمراکر رکھ دیا گیا ہے۔گنگا جمنی بھائی چارہ کا یہ وطن جو دنیا بھر کے لیے ایک مثال بنا اپنے ستر سال بڑی شان اور فخر سے پیش کرتا رہا ہے ؛اب ملک پر نفرت وتعصب اور قتل و غارتگری کا دور دورہ ہے؛ لوگ مآب لنچنگ کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے پر تلے ہوئے ہیں اور اس سے نسبت وَپرچار سے شرمندہ ہونے کی بجائے فخر محسوس کرنے لگے ہیں۔موٹے طور پر ان تبدیلیوں کو تین الگ الگ پہلوؤں سے جانچا جاسکتا ہے۔
(1) سب سے پہلے۔۔۔ جو تبدیلی در آئی ہے اس کو مالی معاشی معیشتی ا ور اقتصادی طور پر جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔
(2) اس کے بعدملک میں سماجی معاشرتی اور عمرانی پہلوؤں پر غور کرناچاہیے کہ اس تانے بانے میں کیا کچھ تبدیلی آچکی ہے یا لادی گئی ہے۔
(3) اور اسی طرح سیاسی تبدیلی کے کیا لچھن ہیں اورطرز اقتدار و حکومت میںکونسے قبلے کی طرف ملک منہ پھیر دیا ہے ۔دیس سے پریم رکھنے والے ان تبدیلیوں کو لوگ تنتر بچانے کی آخری کڑی اور موقع سے تشبیہ دیتے ہیں جہاں پر ملک کافیڈرل ڈھانچہ خطرات کی زد میں ہیں؛نڈّانے کہا کہ بھوش میں ریاستی پارٹیوں کی گنجائش ختم ہوجائے گی۔دوسری جانب دیس کا مذہبی غیر جانبدارانہ کردار داؤپر لگ چکا ہے؛نام بدلنے کی دیوانگی کا جنون خنّاس بنا ہوا ہے۔سابقہ کی ہر بہتری اور ترقی کو بدنام کیا جارہا ہے۔
ملک کی معاشی و اقتصادی تباہی کی داستان کا حرف اوّل تو اس وقت لکھ دیا گیا جب من کی بات کا اچانک جھماکہ ذہن کے باہر آکرظالم لوشن کا مطالبہ کرنے لگا اوراس خنّاس یعنی نوٹ بندی کو بڑی آؤبھگت اور چاؤ سے گلے لگا یا گیا۔جو مقاصد نوٹ بندی کے بتائے گئے اور جو وقت ٹائم فریم پرائم منسٹر نے مانگا اس میں کوئی بیان کردہ فائدہ سامنے آیا اور نہ ہی ہنوز وہ شرمندہ تعبیر ہوسکا ہے ۔البتہ جو کچھ ہوا وہ یہ کہ سیاسی پارٹیوں کے دھن اور عام غریب جنتا کی بچت پر گھات لگائی گئی اور نتیجہ یہ ہوا کہ اب صرف بھاجپا ہی وہ واحد سیاسی پارٹی ہے جس کے خزانے کا حلق منہ تک بھرا ہوا ہے اورجس کے دم پر غیر بھاجپا حکومتوں کو بے دم کرنے میںدم بہ دم ‘قدم قدم کامیاب ہوتی جارہی ہے اس کی حالیہ زندہ مثال مہاراشٹرا کی ٹھاکرے سرکار کو ٹھوکروں میں لادینا بتایا جاتا ہے۔دیس کی اوسط اور ابتدائی درجہ کی صنعتیں پوری طرح سے بربادہوگئیں ؛جب کہ کامیابی کارپوریٹ انڈسٹری کو بے محابہ ہوا ہے اور دو چار کارپوریٹ دنیا بھر میں دولت کے ماسٹرس بن کر سامنے آچکے ہیں ۔یہی حال غلط جی یس ٹی کا ہے۔بیروزگاری کا گذشتہ 45سال میں سب سے زیادہ برا حال ہے۔مہنگائی اور قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں لوگوں کی قوت خرید متاثر ہوچکی ہے ۔کروڑہا کروڑکی کشکول فوج تیار کردی گئی جس پر احسان جتا کر ووٹ مانگا گیا اور جس کی خیرات پر یوپی جیتا گیا ۔سماجی و معاشی نابرابری کا بول بالاہے امیر امیر تر اور غریب بدحال و بیحال وَکنگال ہوچکا ہے۔RBIکے ریزرو پر کئی ایک شب خون مارے گئے ہیں۔کالا بازاری اور بھرشٹا چار اپنی انتہا کو ہے اور اب تو بھاجپا کی سرکاریں بھی اس کا شکار ہیں۔ملک بھر میں ایجی ٹیشن چل رہے ہیں لیکن میڈیا اس کو دبائے ہوئے ہے۔کنٹراکٹ نوکریوں نے مستقبل کو غیر مستقل بنا ڈالا ہے۔ملک کی ہر ایک چیز کے دام بڑھ چکے ہیں اور کوئی کنٹرول سامنے نظر نہیں آرہا ہے۔مہنگائی کھیت کھلیان کا چھٹّا سانڈ بن چکی ہے۔اور بے روزگاری گھر سے بھاگی ناری کے سمّان دربدر ٹھوکریں کھارہی ہے کہ کوئی ترس کھانے کو تیار نہیںہے۔
سماجی معاشی اور عمرانی تنگ دستیاں الگ جان کا لاگو بن چکی ہیں۔لوگوں میں محبت کی بجائے نفرت کا بول بالا ہے سیاسی مفادات کے نام پر نفرت و منافرت کو بڑھاوا دینا پہلا اورآخری کارگر ہتیار بن چکا ہے؛اس دیو کا واحد بھکت اور پجاری بھاجپا ہے جسکا کو کوئی ثانی نہیں ہے۔دلت طبقوں کا استحصال جاری ہے اور وہ ابھی بھی سماجی انصاف کو ترس رہے ہیں۔ مسلمانوں کو دوم درجے کا شہری بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی ہے۔بلڈوزر انصاف کابڑا منصف بن چکا ہے؛ بیشتراس کا استعمال سبق سکھانے اور مسلمانوں کی ہمتیں پست کرنے میں صرف ہونے لگی ہیں۔ڈاکٹر کفیل کے بعددو سال سے دیش دروہی دفعات لگا کراپنے دو ساتھیوں سمیت داخل زنداں کردیے گئے کیرالا کے نیوز پورٹل صحافی صدیق کپن کی ضمانت کے لیے پھر سے سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی ہے۔عمر خالد جیسے کتنے سماجی جہد کار جیلوں میں ٹھونسے ہوئے ہیں۔ذکیہ جعفری کی مدد کرنے والی انسانی حقوق کے لیے لڑنے والی تیستا سیتلواد کو بھی جیل کی ہوا کھانی پڑی ہے اور سپریم کورٹ کو ہی مداخلت کرنی پڑی۔
ایک نظریہ اورایک پارٹی کی حکومت کے لیے عملاًایڑی چوٹی کا زور لگا یا جارہا ہے ۔حکومت مخالف فرد اور پارٹیوں کے پیچھے آئی ٹی ‘ای ڈی اور سی بی آئی جیسے ناجانے کتنے طوطے لگا دیے گئے ہیں۔ایک طرح کی غیر معلنہ ایمرجنسی ملک بھر میں لاگو محسوس ہوتی ہے۔جہاں حکومت کے خلاف اظہار پر پر کتر دیے جاتے ہیں۔ملک کا فیڈرل ڈھانچہ بجائے خوداپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کر رہا ہے۔خوف اور دہشت کا یہ عالم ہے کہ اپوزیشن کے قائدین بھاجپا میں شمولیت اختیار کیے بغیر اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں۔بھاجپا اور آریس یس کی پالیسیوں سے دیس میں پھوٹ کا خطرہ بتایا جانے لگا ہے۔غیر بھاجپا ریاستیں فنڈ اور امداد کو ترس رہی ہیں۔بتایا جاتا ہے کہ دیس کو کارپوریٹ اپنی مرضی سے چلانے لگے ہیں۔اور اقتدار کارپوریٹ کا سہولت کار بن چکا ہے۔چند ایک کے ہاتھوں میں دیس کی سرکاری سمپتی دیدی جارہی ہے۔ ہر چیز برائے فروخت بنا دی گئی ہے۔
یہی تمام وجوہات ہیں جن کی وجہ سے کانگریس پارٹی نے اپنے اودئے پور کے اجلاس میں بھارت جوڑو یاترا کا فیصلہ لیا ہے ۔اور طے کیا کہ کنیا کماری تا کشمیر 3570Kmکی مسافت 150دنوں میں (ہر دن کم وبیش 20-25km)طئے کی جائے گی۔بارہ ریاستوں اور دو مرکز انتظام علاقوں سے پیدل یاترا کا اہتمام کیا جاکر لوگوں سے راست ملک کے مذکورہ کوائف پر گفتگو کی جائے گی اور حقیقتوں کا بیان کیا جائے گاکہ اگر اس آخری موقع کو کھو دیا گیا تو پھرگنگا سوکھ کر سڑک بن جائے گی جس پر ڈکٹیٹروں کی سواری سرپٹ دوڑا کرے گی یعنی نقصان کی تلافی ممکن نہ ہوگی۔ہفتوں غور کے بعد کانگریس نے اپنی اس بھارت جوڑو یاترا کو اپنے جھنڈے کی بجائے ترنگا کے زیر سایہ نکالنا اور دیس کے تمام ہی غیر کانگریسی اور غیر بھاجپا قوتوں کی مدد لینے کا فیصلہ بھی کیا کہ ڈوبتے اس جہاز کو روکنا خود کانگریس کے بس کا بھی نہیں رہا ہے چنانچہ دو سو سے زاید سیول سوسائٹز اور فرد وَ اداروں نے کانگریس کی اس یاترا کے سنگ جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔چنانچہ 6Sep22کو اس کا آغاز کنیا کماری کے آخری زمینی حد سے اس کا آغازہوا اور 7Sep22کو پیدل یاترا کا پہلاتاریخی قدم رکھا گیا اور گیارہ تاریخ کے بعد وہ کیرالا میں داخل ہوگی۔قیام و طعام لوہے کے کنٹینرس میں ہوگا۔اور مستقل یاتری 117ہونگے ماباقی ملک کے کونے گوشوں سے ملتے بچھڑتے رہیں گے وغیرہ۔
بھارت جوڑو یاترا دو پارٹیوں کے بیچ لڑائی نہیں ہے بلکہ دو نظریات کے بیچ کا گھماسان ہے کیونکہ بھگوا فکر اور بھاجپا نے ملک کی ساری ایجنسیز اور غیر جانبدار اداروں پر عملا قبضہ کرلیا ہے اس کے ذہن و فکر کے افراد کو وہاں پر لا بٹھا دیا گیا ہے اور میڈیا چاہے پرنٹ ہو کہ الکٹرانک وہ حزب اختلاف کے ساتھ ہونے کی بجائے مخالفت میں حدور کو پار کرگیا ہے؛ایوان قانون سازوں میں اپوزیشن کی آواز غیر سنی اور دبا دی گئی ہے اور کوئی راہ وَروزن بچا نہیں رہ گیا ہے اس لیے عوام سے لراست رابطہ کے علاوہ کوئی راہ کھلی نہیں اور بچی ہوئی نہیں ہے۔اور ان سے کے پیچھے سارے عالم کا کارپوریٹ ہے جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے ہر اچھی بری راہ کو زیر استعمال لانے جھجھکتانہیں ہے اور دیار ہند کی منڈی اس کے لیے بہت ساز گار ہے جب کہ یورپ اور مغرب اقتصادی گھن چکر کا شکار ہوچکے ہیں۔بھاجپا اور در پردہ کارپوریٹ نے جو دیس دیس واسیوں کی تباہی کا ذمہ دار ہے اس کو سدھار نے کے لیے عوامی ربط کی یاترا واحد علاج باقی رہ گیا ہے۔عوام کو دیس دھرم کے نام پر بانٹا جارہا ہے؛ایک مخصوص فکر اور وچار دھارا تھوپنے کی بالجبر کوشش کھلم کھلا ہونے لگی ہے؛ اور جنتا کے بیچ پیار محبت اور آپسی بھائی چارہ اور گنگا جمنی روابط ختم ہوتے جارہے ہیں ایک بہت بڑے چیلنج کے طور پر سامنے موجود ہے۔ہوسکتا ہے کانگریس کو اس یاترا سے فائدہ بھی پہنچے(اور وہ اٹھائے گی بھی) لیکن یہ ایک ثانوی اہمیت رکھتا ہے اور اصل موضوع نہیں ہے۔نئے جواہر لعل نے صحیح کہا ہے کہ یہ یاترا لوگوں کو سننے سمجھنے اور جاننے کے لیے ہے اور یہ اس کا بڑا پن ہے جب وہ کہتا ہے کہ وہ اس کو leadنہیں کررہا ہے بلکہ کانگریس کے ایک ورکر کی طرح اس یاترا کا حصہ ہے؛اور اس یاترا کے بعد وہ مزید دانشمند بن کر نکھرے گا۔دیس کا میڈیا اس کے کارپوریٹ مالکوں کے دباؤ میں ہے اور دیس کی سیاسی پارٹیاں اور کئی ایک قائد سرکار اور CBI/ED/ITوغیرہ کے دباؤ کو جھیل نہیں سکتے ہیںاور بھاجپا کے پالے میں جانے ہی میں عافیت سمجھتے ہیں تاکہ ان کا جیون سہل ہوجائے۔
پھپھولے چاہے دل کے ہوں کہ دماغ یا نظریات کے پھوٹتے ضرور ہیں۔اب یہ ظرف کی بات ہے کہ کون کتنا خود کو کم ظرف ثابت کرتا ہے۔بھاجپا اور اس کی میڈیا فوج اور اس کے قائدین ہلکے پن کا اظہار سے خود کو باز نہیں رکھ سکے ہیں ۔ٹی شرٹ اور کنٹینر کو بنیاد بنایا جارہا ہے۔پاکستان کی راہ دکھائی جارہی ہے؛کانگریس پارٹی صدارت کو بنیاد بنایا جارہا ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس یاترا نے مودی کو جاگرک کردیا ہے چنانچہ کئی ایک متوقع بازی گریاں سامنے آنے کی منتظر ہیں۔ایک طرف غلام آزاد اور دوسری طرف انّا کے غلام کیجریوال اپنی اپنی یاترا اور سرگرمیوں کا بازار گرم کرنے میں جٹ گئے ہیں۔جب کہ نتیش کی سنجیدہ سیاست بھی اپنا رنگ دکھا نے لگی ہے اور اپوزیشن اتحاد کی کوششیں تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔
نیم حکیم بن کر جو کوئی بھی آزادی کے بعد کے اتنے بڑے اور اہم ایونٹ "بھارت جوڑو یاترا”کو کانگریس بچاؤیاترا قرار دینے کی غلطی۔۔۔ بھول کر بھی کریگا وہ کانگریس کا ہی نہیں بلکہ دیس کا بھی ناقابل تلافی نقصان کربیٹھے گا۔اچھے بھلے شخص کو بھی دنیا بلکہ اس کے اپنے اور غیر دیوانہ پکارنے لگتے ہیں تب ایک حد کے بعد واقعی اس فرزانے سے بھی دیوانگی کا ہی صدور ہونے لگتا ہے راہول گاندھی کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے اور یہ واقعی راہول کاجگر ہے کہ وہ ان تمام کو انگیز کر گیا اور لوک سبھا میں خود راہول گاندھی نے اعتراف کیا کہ لوگ میڈیا اور خود اس ایوان کے ارکان اس کو کیا کہتے اور سمجھتے ہیں اور وہ ان تمام کو کتنے ہلکے میں لیتا ہے۔یہ تو وہ سیاسی منافق کانگریسی ہیں جو 23کے نام پر کانگریس ‘ گاندھی پریوار اور راہول و سونیا نیز پرینکا کے خلاف ہیں۔اوربظاہر کانگریسی نظر آنے والے اصلاًیہ اندر سے فسطائی ذہن رکھنے والے غیر سیکولر ہیں اوربرسر اقتدار کی کٹھ پتلیاں ہیں جو اقلیت مخالف ڈگر پر کانگریس کو لے جاتے رہے ہیں اور انہی کے مشوروں پر کانگریس نرم ہندو تؤ کے چنگل میں پھنستی اور اپنی زمین کو کھوتی رہی ہے۔ کانگریس کی یاترا بنا نے یا قراردینے سے معاملہ نریندر اور راہول کا بن جائے گا اور یہی مفادات حاصلہ چاہتے ہیں کانگریس کی قمیص میں موجود سوراخوں کی کہکشاں اور مخالفت میں ایک گھاک سیاستدان اور اس کا مہا گھاک معاون و مددگار ۔۔۔اور جس کی پس پشت ایک صد سالہ نظریاتی متحرک اور اقتدار سے لیس تحریک اور تنظیم۔۔۔ اور میڈیا کاڈوغلہ اور بکاؤ کردار ۔۔۔نیز ملک کے غیر جانبدار اداروں اور ایجنسیز کی کالے کرتوت ۔۔۔ظاہر ہے یہ سب جنگ شروع ہونے سے قبل ہی ہرادینے کے لیے کافی ہیں۔اس لیے اس یاترا کو ملک کے عوام کو مقابلہ پر لاکر ہی وقت کی لنکا کو سیاست کی آگ سے سدھا یا اور رام کیاجاسکتا ہے ۔
جس قوم یا گروہ میں جب علم کی کمی اور جہالت کی فراوانی ہوجاتی ہے اور بیجا سوڈا واٹر طرزکی جذباتیت کے اتھا سمندر کے مالک بن بیٹھتے ہیں تب ان کے سرپر یا کان کے قریب جب تک دھماکے نہیں ہوتے ہیں وہ مست قلندر پھنّے باز خان بنے پھرتے ہیں۔جواحوال بھاجپائی ریاست اتر پردیش میں ملت بھگت رہی ہے اس کا کوئی پرتؤ پڑوسی غیر بھاجپائی ریاست کے(بابر بہ عیش کوش) مسلمانوں میں نظر نہیں آتا ہے۔ان مہلک اور غیر مطلوب صفات اور انفرادی و اجتماعی طرز عمل کی پختگی پر اگر دو چار صدیاں بھی بطور وراثت ٹنگی ہوئی ہوں تب ان نیند کے ماتوں کا خدا ہی حافظ ہوتا ہے۔دورِحاضر کے جعفر و صادق کی جانب سے پیٹھ پیچھے نہیں دو بدو گھاؤں کے باوجود مسلمانوں میں اندھ بھکتی اپنے عروج پر ہے۔جب کہ دوسری جانب دیس کے درد رکھنے والے فکر مند لوگ اور دانشمند ہانکے پکارے کہہ رہے ہیں کہ 2024کا الکشن ملک کی سیکولر و جمہوریت کا آخری و انتم پڑاؤ ہے۔ تاہم ملک گیر مسلم ملت کا جو حال چال ہے وہ سینہ کوبی کے لیے کافی ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰