تبدیلی مذہب کے سخت قوانین کا نشانہ بین المذاہب جوڑے یا مسلمان؟

نیاز فاروقی
ہندوستان میں ایک مذہبی تنظیم نے مذہب کی تبدیلی سے متعلق بنائے گئے حالیہ قوانین کو سپریم کورٹ میں اس بنیاد پر چیلنج کیا ہے کہ یہ مذہب کی آزادی اور فرد کی ’پرائیویسی‘ میں مداخلت کے مترادف ہیں۔ اس درخواست میں ملک کی پانچ ریاستوں میں بنائے گئے ایسے قوانین کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مذہب تبدیل کرنا ہندوستان میں طویل عرصے سے حساس مسئلہ رہا ہے۔ اگرچہ ہندوستانی آئین ہر فرد کو ضمیر کی آزادی اور مذہب پر عمل اور تبلیغ کا حق دیتا ہے لیکن بہت سی ریاستوں نے ایسے قوانین نافذ کیے ہیں جن کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ لوگوں کے بنیادی حقوق پر حملہ ہے۔ جمعیت علمائے ہند کی جانب سے دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’ان قوانین کو بین المذاہب جوڑوں کو ہراساں کرنے اور انھیں مجرمانہ مقدمات میں پھنسانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘ جن قوانین کو جمعیت نے چیلنج کیا ہے ان کا مقصد بظاہر مذہب کی آزادی کو آسان بنانا ہے تاکہ غلط بیانی، زبردستی، غیر ضروری اثر و رسوخ، جبر، رغبت یا دھوکہ دہی کی بنیاد پر کی گئی مذہب کی تبدیلی پر نظر رکھی جا سکے۔ لیکن ان قوانین کے کئی متنازع حصوں کے مطابق مذہب تبدیل کرنے کا ارادہ رکھنے والے شخص کو اور تبدیل کرانے والے مذہبی پیشوا پر لازمی ہے کہ وہ مذہب تبدیل کرنے سے پہلے ضلع مجسٹریٹ کو آگاہ کریں۔ یہ قوانین مذہب تبدیل کرنے والوں کے رشتہ داروں کو بھی ان کے خلاف شکایت درج کرنے کی اجازت دیتے ہیں، جس کا استعمال اکثر والدین یا قدامت پسند مذہبی تنظمیں ان شادی شدہ جوڑوں کے خلاف کرتی ہیں جن میں میاں اور بیوی کا تعلق علیحدہ علیحدہ مذاہب سے ہو۔ ہندوستان کی کم سے کم 10 ریاستوں میں تبدیلی مذہب مخالف قوانین پہلے سے موجود ہیں یا حال میں متعارف کرائے گئے ہیں۔ تبدیلی مذہب مخالف قوانین کو پہلی بار 1960 کی دہائی میں عدالتوں میں چیلنج کیا گیا تھا جب ریاست اوڑیسہ نے اس طرح کا ایک قانون متعارف کروایا تھا۔ لیکن ججوں نے اس طرح کے مختلف مقدمات میں مختلف بنیادوں پر متضاد خیالات کا اظہار کیا ہے۔ جمعیت کی درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ یہ قوانین فرد کی پرائیویسی کے منافی ہیں۔ یہ اس بات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں کہ ان قوانین کی وجہ سے زیادہ مشکلات کا سامنا مسلمانوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
روزنامہ ہندوستان ٹائمز نے جنوری 2021 میں رپورٹ کیا تھا کہ اتر پردیش میں تبدیلی مذہب سے متعلق قانون کے نافذ ہونے کے بعد سے 16 ایف آئی آر درج ہوئیں جن میں کل 86 متاثرین میں سے 79 مسلمان تھے جن پر عورتوں کو پھنسانے اور اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنے کا الزام تھا۔ ان میں سے کئی قوانین پہلے سے ہی عدالتوں میں چیلنج کیے جا چکے ہیں۔ مثلاً نومبر 2022 میں مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ کسی شخص کو دوسرا مذہب اختیار کرنے سے پہلے انتظامیہ کو مطلع کرنے کی شرط بنیادی طور پرغیر آئینی ہے۔ تاہم مدھیہ پردیش کی ریاستی حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی ہے، جس کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے دو جنوری کو کہا کہ مذہبی تبدیلی کے ہر معاملے کو غیر قانونی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس مقدمے کی مزید سماعت سات فروری کو ہوگی۔
سیاسی محرکات؟
ان قوانین کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فرد کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور درحقیقت میں یہ سیاسی نوعیت کے ہیں۔ اگرچہ ہندوستان میں دلت اکثر اجتماعی طور پر مذہب بدلنے کا اعلان کرتے ہیں لیکن تقریباً 30,000 بالغوں کے سروے کی بنیاد پر 2020 کے پیو ریسرچ سینٹر کے سروے کے مطابق بہت کم ہندوستانی ایسے ہیں جنھوں نے بچپن سے اب تک مذہب تبدیل کیا ہے۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ ’ان بالغوں میں سے جو کہتے ہیں کہ ان کی پرورش ہندو کے طور پر ہوئی ہے 99 فیصد اب بھی خود کو ہندو کے طور پر شناخت کرتے ہیں۔ مسلمان کے طور پر پرورش پانے والوں میں سے 97 فیصد اب بھی جوانی میں مسلمان کے طور پر اپنی شناخت کرتے ہیں اور جن کی پرورش مسیحیوں کے طور پر ہوئی تھی، 94 فیصد اب بھی مسیحی ہیں۔‘سپریم کورٹ کی سینئر وکیل ورندا گروور کا، جنھوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ریاست اتر پردیش کے تبدیلء مذہب سے متعلق قانون کو چیلنج کیا ہے، کا کہنا ہے کہ یہ قوانین ’اس دائرہ کار کو بہت وسیع اور مبہم بناتے ہیں جو کہ دھوکہ دہی اور زبردستی تبدیلی مذہب کے الزام کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ریاست کی مشینری کو طاقت دیتے ہیں کہ وہ تعین کریں کہ آیا تبدیلی مذہب قانونی ہے یا نہیں۔ یا (ایک بین المذہب) شادی قانونی طور پر صحیح ہے یا نہیں۔‘
انصاف کے فطری نظام کا تقاضا ہے کہ استغاثہ اپنا مقدمہ ثابت کرے لیکن یہ قوانین ہندوستان میں لاگو انسداد دہشت گردی کے قوانین کی طرح مذہب تبدیل کرنے والے شخص سے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی امید رکھتے ہیں۔ یہ قوانین عام لوگوں کے لیے اپنی مرضی سے بھی مذہب تبدیل کرنے کو مشکل بناتے ہیں۔ اگرچہ یہ قانون مذہب کے نظریے سے غیر جانبدار نظر آتے ہیں، لیکن حال میں ان کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ ہندو دائیں بازو کا دعویٰ ہے کہ مسلمان مرد منظم انداز میں ’لو جہاد‘ میں ملوث ہیں جس کے تحت وہ ہندو عورتوں کو محبت کا جھانسا دے کر شادی کر لیتے ہیں۔
گروور کہتی ہیں کہ ’اب یہ قوانین مذہب تبدیل کرنے والے شخص پر یہ ثابت کرنے کی ذمے داری عائد کرتے ہیں کہ یہ دھوکہ دہی یا جبری تبدیلی نہیں ہے۔ میں اگر مذہب تبدیل کرنا چاہتی ہوں تو یہ میری ذاتی پسند ہے لیکن اب اس میں ریاستی مشینری کی طرف سے بے جا مداخلت ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ جس طریقے سے ان قوانین کا مسودہ تیار کیا گیا ہے اس کا مقصد نہ صرف مذہب کی تبدیلی میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے بلکہ پورے عمل کو مکمل طور پر ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔
ناقدین کے مطابق یہ قوانین غیر متناسب طور پر خواتین پر اثر انداز ہوں گے، جن کی زندگیوں کو کنٹرول کرنا ان کا مقصد ہے۔ گروور کہتی ہیں ’وہ اس لیے کہ ان قوانین میں یہ فرض کیا جا رہا ہے کہ کوئی بھی عورت جو مذہب تبدیل کر رہی ہے، چاہے وہ شادی کے لیے ہو یا کسی اور وجہ سے، اسے زبردستی یا دھوکہ دہی سے ایسا کرایا جا رہا ہے۔‘ قانونی مسائل پر رپورٹ کرنے والے ’لائیو لا‘ نامی ویب پورٹل سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق جج دیپک گپتا نے دسمبر 2022 میں کہا تھا کہ ’میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ قوانین اصل وجوہات سے زیادہ سیاسی وجوہات کی بنا پر آرہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’حکومت کو یہ جاننے کی کیا ضرورت ہے آپ کا یا میرا مذہب کیا ہے۔‘
گروور ان کے موقف سے اتفاق کرتی ہیں، ’یہ خالص اور سادہ طورپر سیاست ہے جہاں آپ ایک مخصوص کمیونیٹی کو مسلسل دشمن کی طرح پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اور پھر اس میں ریاست ایک نام نہاد ’سیویئر‘ کے طور پر مداخلت کرتی ہے۔ یہ صرف سیاسی ایجنڈا ہے، اور کچھ نہیں۔‘