حضرت قاضی سید شاہ غلام سرور بیابانی رفاعی القادریؒ
حضرت قاضی سید شاہ غلام سرور بیابانی رفاعی القادری رحمت اللہ علیہ قدس سرہ العزیز المعروف بہ حضرت فاروق پاشاہ صاحب قبلہ، سر زمین ہند کے نہایت ہی مشہور و معروف ولی اللہ ، قطب حضرت قاضی حافظ سید شاہ افضل بیابانی رفاعی القادری رحمت اللہ علیہ قدس سرہ العزیز قاضی پیٹ، قطب اقلیم ہند کے پر پوتے تھے۔
سید شجاعت اللہ حسینی بیابانی
حضرت قاضی سید شاہ غلام سرور بیابانی رفاعی القادری رحمت اللہ علیہ قدس سرہ العزیز المعروف بہ حضرت فاروق پاشاہ صاحب قبلہ، سر زمین ہند کے نہایت ہی مشہور و معروف ولی اللہ ، قطب حضرت قاضی حافظ سید شاہ افضل بیابانی رفاعی القادری رحمت اللہ علیہ قدس سرہ العزیز قاضی پیٹ، قطب اقلیم ہند کے پر پوتے تھے۔ آپ کی پیدائش بتاریخ 16 جون 1939 عیسوی (22 ربیع الثانی 1358 ہجری )بمقام بھونگیر (ضلع نلگنڈہ ریاست حیدرآباد ) میں ہوئی۔ آپکی ابتدائی تعلیم والد محترم حضرت قاضی ابو محمد سید شاہ غلام افضل بیابانی رفاعی القادری رحمت اللہ علیہ المعروف بہ مرشد میاں قبلہ کی زیر نگرانی ہوئی جو قرآن مجید، حدیث، اسلامی آداب ، اسلامی تاریخ اور فقہ پر مشتمل تھی ۔
اسکے علاوہ آپ نے حضرت سیّدمحمد مرتضی قادری المعروف بہ برکات پاشاہ رحمت اللہ علیہ ، موظف کمشنر نیلور مونسپل کارپوریشن و شریک نائب ایڈیٹر اردو انسائکلو پیڈیا اور دیگر قابل ترین علماءسے بھی رہنمائی حاصل فرمائی ۔ آپ بچپن سے ہی پنچوقتہ نماز، تلاوت قرآن اور ذکر اللہ کے پابند تھے جو آپکے والد کی تربیت کا نتیجہ تھی۔آپ سختی سے اسلامی شریعت ، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم، اسلامی آداب پر کاربند تھے۔ آپ تہجد بپابندی ادا فرایا کرتے تھے۔ انوار العلوم کالج حیدر آباد میں دوران تعلیم آپکے روم میٹس جب سنیما دیکھنے جاتے تب آپ کمرے پر ہی اپنے آبا و اجداد کی طرح نماز تہجد اور اذکار میں مصروف رہتے تھے۔آپ ہمیشہ با وضو رہا کرتے تھے ۔ آپکے والد محترم نے آپکو خلافت سے سرفراز فرمایا ، علم و حکمت سکھایا ، اسرار و رموز سمجھائے اور اپنا جاء نشین مقرر فرمایا۔ آپنے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے 1966 میں گراجویشن مکمل فرمایا۔ دوران تعلیم آپ انوار العلوم کالج کی میگزین کے اردو حصہ کے مدیر اور طلباء کی تنظیم کے رہنماء رہے۔ آپ کو اردو زبان و اردو ادب سے کافی دلچسپی تھی۔ آپ دینی کتب کےمطالعہ کے نہایت شوخین تھے۔
آپکا دیوان خانہ ہر قسم کی کتب کا دارالمطالعہ تھا جس میں ہزارہا کتب رکھے ہوے تھے جن میں قرآن، تفسیر قرآن، احادیث، قصص الانبیاء، اسلامی تاریخ، تذکرۃ اولیاء اللہ ، بزرگان دین کے ملفوظات ، صوفی ازم،اسلامی فقہ ، حمدیہ کلام، نعتیہ کلام، منقبتی کلام ، غزلیات، مثنوی، مرثیہ،ڈئیری ، پولٹری،سیری کلچر اور شیپ فارمنگ ،ترقی و تجارت کے اصول کی کتب بڑے قرینے سے رکھے ہوئے تھے۔ انکے علاوہ مختلف قسم کے مجلّے، جریدے، سیمینار اور کانفرنسس کے پیپرز اور ڈکشنریزبھی اس میں رکھے ہوے تھے۔بتاریخ 5 جولائی 1976 آپکے والد مالک حقیقی سے جاملے۔ آپ درگاہ شریف حضرت قاضی حافظ سید شاہ افضل بیابانی رفاعی القادری رحمت اللہ علیہ قاضی پیٹ کا سجادہ نشین مقررہوئے۔
اس جلیل القدر عہدے کی ذمہّ داری بڑی خوش اسلوبی سے تقریبا 32 سال 6 ماہ سنبھالی۔ ہر دن کئی راہ راست کے متالاشی آپکے دست حق پرست پر شرف بیعت حاصل کرتے تھے اسطرح کم و بیش ایک لاکھ لوگ آپکے مرید ہونے کا شرف حاصل کئے جو پوری دنیا میں پھیلے ہوے ہیں۔ اسکے علاوہ آپکے معتقدین لاکھوں میں ہیں۔ آندھرا پرادیش ریاستی وقف بورڈ نے آپکو صدر قاضی ضلع ورنگل مقرر کیا۔ آپکو آندھرا پرادیش قاضی اسو سیشن کا نائب صدر چنا گیا۔ چونکہ آپ علوم فقہ کے ماہر تھے خاندانی جھگڑوں کو شریعت کی روشنی میں معتبر گواہوں کی موجودگی میں حل فرمایا کرتے تھے۔کئی جوڑے بذریعہ طلاق علحیدگی اختیار کرنے کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے لیکن آپ افہام و تفہیم ، روحانی تصرف اور نیک ہدایت کے ذریعہ اس سے انہیں باز رکھتے تھے۔ اسکے بعد وہ علحیدگی کا ارادہ ترک کرکے ایک خوشگوار و پر سکون زندگی گذارتے۔
آپ ایک اچھے تاجر و محنتی اور ایماندارصنعت کار تھے چنانچہ آپنے 1973 میں بمقام حسن پرتی ضلع ورنگل جئے کسان فرٹیلایزر فیکٹری قائم فرمائی۔ اس کی پیداوار نہ صرف سارے ہندوستان بلکہ دیگر ممالک کو برآمد کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ آپ قاضی پیٹ میں ایک ڈئیری فارم قائم کئے تھے جسکی پیداوارقاضی پیٹ، ہنمکنڈہ اور ورنگل میں فروخت ہوتی تھی۔ آندھرا پرادیش حکومت نے آپکو ریاستی وقف بورڈ کا معزز رکن پانچ سال (1983-1988) کے لئے مقرر کیا جس کو آپ نے بڑی عمدگی سے نبھایا ۔ آپ مریدوں اور عقیدت مندوں کے تعاون سے غریب طلباء، یتیموں، مساکین، بیواؤں اور مسافروں کی ضروری مدد فرمایا کرتے اور غریب لڑکیوں کی شادی میں مدد دیا کرتے تھے۔ آپ اکثر واعظ و نصیحت کی محافل کا انعقاد فرماتے اور واعظ کے بعد شرکاء محفل کے لئے طعام کا اہتمام فرماتے تھے۔
بمقام چھتّہ بازار حیدر آباد ہر ماہ محفل وعظ و نصیحت کا انعقاد عمل میں لایا جس کا سلسلہ تقریبا 18سال بڑی پابندی سے چلا۔ آپ رشتہ داروں ، عقیدت مندوں، فقراء اور عام لوگوں کے ساتھ مل بیٹھ کر سادگی سے کھانا کھایا کرتے تھے۔ہر روز آپ کے پاس مختلف گاؤں، شہروں، پڑوسی ریاستوں، خلیجی ممالک اور مغربی ممالک سے عقیدتمند آتے تو آپ انہیں ضرور کھانا کھلاتے تھے۔ یہاں تک کہ بعض غریب مریدین کو واپس جانے کا کرایا اور دوران سفر کھانا کھانے کے لئے کچھ رقم بھی عنایت فرماتے۔ علاقہ میں امن و آمان او ر قومی یکجہتی برقرار رکھنے کے لئے آپ جلسوں کا انعقاد فرمایا کرتے اور ان میں عقیدتمندوں (ہندو، مسلمان ، کرسچن اور سکھ)، سماجی کارکنان، تجار، دانشوران، سیاسی رہنماؤن، پروفیسرس ، ضلعی و پولس عہدیداروں اور منسٹرس کو مدعو فرمایا کرتے تھے۔ ملک میں امن و آمان کے لئے دعا فرمایا کرتے تھے۔ آپ کا یہ ایقان تھا کہ امن و آمان ہی میں ملک کی ترقی اور سماجی بھلائی پوشیدہ ہے۔
کچھ عرصہ آپ اسلامیہ کالج ورنگل کے معزز معتمد رہے۔ آپ نے حفظ قرآن مجید کے لئے احاطہ درگاہ شریف قاضی پیٹھ میں مدرسہ افضلیہ کا قیام عمل میں لایا جس کے طلبہ کے لئے رہائش اور طعام مفت فراہم کیا جاتا ۔صوفیا کرام کی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے آپ نے احاطہ درگاہ شریف اور حیدرآباد میں شاہ افضل ایجوکیشن سنٹرس کا قیام عمل میں لایا جہاں ہر ماہ محافل وعظ و نصیحت، تقاریر، سمینار، کانفرنس، تربیتی کلاسس، ختم غوثیہ، ذکر اللہ، حمد، نعت، قصیدہ ، درود شریف وغیرہ بہ پابندی منعقد ہوا کرتے تھے۔ جسمیں مریدوں اور عقیدتمندوں کی ایک کثیر تعداد شریک ہوا کرتی تھی۔ اسکے علاوہ تلنگانہ کے مختلف شہروں میں بھی دینی تربیتی محافل میں وعظ فرماتے جس میں آپ قرآن، حدیث ، فقہ کے مسائل ،تصوف اور اسلامی آداب سکھلاتے۔
ان محافل میں کئی لوگ گناہوں سے توبہ کرتے ، آپ سے بیعت کرتے اور آئندہ صراط مستقیم پر چلنے کا عظم کرتے تھے۔ آپ کم و بیش ایک لاکھ لوگوں کو شرف بیعت سے سرفراز فرمایا مگر صرف 15 صوفی منش معززین ہی کو خرقہ خلافت سے سرفراز فرمایا۔آپ کے مریدین بر صغیر ، خلیجی ممالک اور مغربی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان محافل میں نہ صرف عام لوگ بلکہ علماء و مشائخ اور دانشور بھی شریک ہوا کرتے۔ آپ کی ذات اس مقدس خاندان سے تعلق رکھتی ہے جو بے غرض سماجی اور دینی خدمات کے لئے کافی شہرت رکھتی ہے۔چنانچہ آپ نے بھی پوری توجہ اور تمام تر قوت سے سماجی اور دینی خدمات انجام دیں اور مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور صوفی تعلیمات کے لئے آپنے آپکو وقف کردیا۔ آپ نے عامتہ المسلمین اور خصوصاً مریدوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کتاب فیضان افضل نہایت ہی سلیس اردو میں تحریر فرمائی جو16 اولیاء اللہ کی سوانح حیات، کرامت اور تعلیمات پر مشتمل ہے جو ایک نعمت سے کم نہیں۔
اس مبارک و متبرک کتاب کا بہ زبان انگریزی ترجمہ کرنے کی سعادت سید شجاعت اللہ حسینی نے حاصل کی اسکی رسم اجراء 27 صفر 2017 کو کل ہند صوفی کانفرنس میں بہ دست حضرت سید شاہ غلام افضل بیابانی صاحب المعروف بہ حضرت خسرو پاشاہ سجادہ نشین عمل میں آیا۔
وعظ میں اکثر آپ والدین کی اطاعت و فرما برداری کی ہدایت فرماتے۔بیوی ،بچوں ،رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ساتھ نیک سلوک کی تلقین فرماتے۔عقیدتمندوں سے کہتے کہ رشتہ داروں اور غرباء کو کھانا کھلاؤ۔
کامل ایسے تو بہت کم نظر آئے ساقی
سب کہاں ہوتے ہیں آنکھوں سے پلانے والے
یہ دیکھا گیا کہ آپکی دعا فوراً شرف مقبولیت کو پہنچتی۔آپ مریدوں اور عقیدتمندوں کا روحانی علاج بھی فرماتے جس سے وہ فوراً شفایاب ہوجاتے۔
آپ اپنے بڑے فرزند حضرت ابوالخیر سید شاہ غلام افضل بیابانی المعروف بہ حضرت خسرو پاشاہ فاضل جامعہ نظامیہ کو بتاریخ 27 صفر 1409 ہجری مطابق 9 اکٹوبر 1988 بموقع عرس شریف ہندوستان کی بڑی بارگاہوں کےسجادگان، علماء کرام، مشائخین کرام اور مریدین کی موجودگی میں اپنا جاء نشین مقرر فرمایا۔
آج سے 13 سال قبل 3محرم الحرام 1430 مطابق یکم جنوری 2009بروز جمعرات بمقام حیدرآباد مختصر سی علالت کے بعد آپ داعی اجل کو لبیک کہے۔ بتاریخ 4محرم بعد نماز جمعہ احاطہ درگاہ شریف قاضی پیٹ آپکو صوفیاء، مشائخ ، علماء کرام ، مریدوں اور عقیدت مندوں کی موجودگی میں بہ دیدہ نم سپرد لحد کیا گیا۔
٭٭٭