مُکرّم تبریز
سانحہ ‘سُقوطِ حیدرآباد‘ کو ہم مسلمان کبھی بھلا نہیں سکتے یہ ہندوستانی تاریخ پر لگا ایسا داغ ہے جو کسی صورت مٹ نہیں سکتا جسمیں ہزاروں مسلمان شہریوں کو جانی و مالی نقصان کیساتھ عصمتیں بھی گنوانی پڑیں اور اتنا سب ہونے کے 75سال بعد بھی ہندوستانی مسلمانوں کو بہت بڑے چیلنج کا سامنا ہے، آئے دن کسی نہ کسی بہانے اپنے آپکو محب وطن اور اپنی قومی یکجہتی کا اظہار کرنا پڑتا ہے حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کے حکومت اس واقعہ پر پشیماں ہوتی اسکے برعکس ووٹوں کے حصول کے مقصد کے تحت سیاسی جماعتیں ہر سال 17؍ستمبر کو مختلف پروگرامز منعقد کرتی ہیں اور فسطائی طاقتیں اس کوشش میں رہتی ہیں کہ یہ ظلم کا سلسلہ چلتا رہے اسی لئے ہر سال ہمارے زخموں کو تازہ کیا جاتا ہے وہیں دوسری طرف ہم اپنی معصومیت و بےگناہی ثابت کرنے میں کوئی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔ کچھ عرصے سے ہم بھی اپنی حب الوطنی ثابت کرنے اس مخصوص دن مختلف ریالیوں کا اہتمام کررہے ہیں، ہم سب بخوبی سمجھتے ہیں کے اسکا اصل مقصد کیا ہے اور ایسا کرنا ہم کیوں ضروری سمجھ رہے ہیں۔ اسی موضوع پر ہم آج یہاں مختصراً تبصرہ کرینگے کے کن حالات سے ریاست حیدرآباد گزری اور یہاں حاکم کی حیثیت سے رہنے والی قوم کو دوسرے درجہ کا شہری کیسے بنایا جارہا ہے اور ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰة دیں گے، معرُوف کا حکم دیں گے اور مُنکَر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ (سوره الحج41)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اقتدار ملنے پر مومنوں کی نشاندہی دو باتوں کے ذریعہ کی ہے ایک تو نماز قائم کرنا اور زکوة ادا کرنا اور دوسری بات نیکی کا حکم دینا اور گمراہی سے روکنا ہے۔ علماء نے نماز قائم کرنے سے متعلق کہا ھیکہ اس سے مراد کل دین کا نفاذ ہے۔ ہم اس وضاحت سے یہ اخذ کرتے ہیں کے مسلمان جب اللہ کی مدد سے حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں تو اسلئے نہیں کے اسکے ذریعہ سے دنیا کی مال و دولت اپنے لئے یا اپنے خاندان قبیلے کے حاصل کریں اسکے برخلاف یہ مقام اسلئے لیا جائے تا کہ اللہ کی حکمرانی اور اسکا نظام قائم ہوسکے۔
مندرجہ بالا آیت کو دیکھیں تو اسکا عملی نمونہ رسول اللہ کی حیات میں ملے گا کہ کس طرح آپﷺ نے مکّہ میں اللہ کے دین کے نفاذ کی کوشش کی اور بالآخر قبیلہ اوس و خزرج کی نصرت سے مدینہ میں کامل طور سے اسکا نفاذ کرتے ہوئے پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد ڈالی۔ یہ ریاست سوره حج کی اس آیت کی مکمل عکاسی کرتی تھی، جہاں آپﷺ نے معروف و منکر کے نفاذ کی فرضیت کیساتھ سماجی نظام بتاے، دوسرے خطوں کیلئے والی و قاضی مقرر کرتے ہوئے عدلیہ قائم کیا، خارجی تعلقات بناے، معاشی نظام جسکے تحت حرام اور حلال کا فرق بتایا اور بلاسودی معاملات متعارف کئے اسلامی ٹیکس زکوة، خراج ور عشر سے متعلق احکام بتائے بلکہ ٹیکس وصول کنندہ جنہیں عمال کہا جاتا ہے انکا بھی تقرر کیا۔
امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اس بات کی نشاندہی کی ہیکہ صرف سلطان (خلیفہ) کو ہی اختیار ھیکہ وہ اپنے اقتدار و حکم کا استعمال کرتے ہوئے معروف کا حکم دے اور منکر کو ختم کرے اور یہ حدود کے نفاذ کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔
جب مکّہ میں رسول اللہﷺ اور صحابہ پر ظلم و زیادتی کی حدیں پار ہوگئیں اسکے آگے آپﷺ پر طائف کا دن سب سے زیادہ تکلیف دہ رہا اور آخر کار اللہ کی نصرت سے مدینہ کی ریاست قائم ہونے کے ساتھ ہی ایک کے بعد دیگرے جنگیں ہوئیں جن میں قابل ذکر بدر، احد، خندق، موتہ وغیرہ جنگ خندق کے موقع پر تو رسول اللہ اور انکی جماعت نے پیٹ پر پتھر باندھ کر میدان جنگ میں اتر آے۔ یہاںیہ سمجھنا چاہئے کہ صحابہ کی تربیت جو مکّہ میں شروع ہوئی تھی مدینہ میں بھی اسکا سلسلہ برقرار رہا جسمیں قدم قدم پر مسلمانوں پر واضح کیا جارہا تھا کے وسائل کی کمی ہونے کے بعد بھی ہمیں استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور یہ سارے مصائب و قربانی نہ صرف دین پر چلنے پر تھیں بلکہ اللہ کے حکم سے انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر اسلام کے نور میں لانے کیلئے بھی تھیں تاکہ امت وسط ہونے کے ناطے زمین پر مچے فساد کو ختم کرکر انصاف قائم کرسکیں۔ بقول علامہ اقبال
قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے
دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان
آپﷺ اور صحابہ اپنے عمل سے آنے والی امت کو اسلام کا مقصد و بصیرت دے رہے تھے کے حالات کتنے بھی سخت ہوں اور ذرائع کتنے ہی محدود کیوں نہ ہوں اور سامنے کوئی واضح حل یا راستہ نظر نہ آتا ہو ان سب کے باوجود بھی ہمکو اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی کرنا اور اس دین کو ساری انسانیت تک پہنچانا ہے۔ آپﷺ کی موجودگی میں سارے عرب میں دین قائم ہوگیا اور اسکے بعد صحابہ نے بھی نئے خطّوں میں اسلام کے نور کو پھیلایا۔ اسی سلسلے میں حضرت ربیع بن عامر کا ایک مشہور جواب ہے جبکہ ان سے ایران کے کمانڈر رستم نے ایران تک فوج لیکر آنے سے متعلق سوال کیا، حضرت ربیع بن عامر نے جواب میں کہا کہ ہم یہاں انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نکال کر انسانوں کے خالق کی غلامی میں شامل کرنے آئے ہیں۔
یہی وہ بصیرت و مقصد حیات تھا جسکے تحت رسول اللہ اور صحابہ نے انتھک محنتیں کیں، اسکے بعد بھی نسل در نسل اس واضح مقصد کی بنا اسلام کا نور عرب سے نکل کر شام، عراق، شمال افریقی ممالک، اندلس اور پھر قسطنطنیہ تک پھیل گیا۔ اس دوران میں امت نے کافی اتار چڑھاؤ دیکھے اور ہندوستان میں بھی سب سے پہلے محمد بن قاسم اور پھر کئی اور حکمرانوں کے ذریعہ اسلام پہنچا۔
حیدرآباد کی تاریخ دیکھیں تو جب شمالی ہندوستان میں مغلیہ سلطنت عروج پر تھی اور دکن میں سارے مسلمان حکمران منتشر تھے، اورنگزیب نے ایک ایک کر کر چھوٹی مملکتیں ختم کیں اور بالآخر1687میں قطب شاہی سلطنت کا خاتمہ کر کے پورے دکن کو مغلیہ سلطنت میں شامل کردیا۔ 1707 میں اورنگزیب کے انتقال کے بعد حکومت متزلزل ہونے لگی تب ہی نظام اول میر قمر الدین علی خان نے خود مختاری کا اعلان کیا اور انکے انتقال کے وقت اسکے حدود بڑے وسیع تھے۔ 1759 کے بعد سے انگریز ان علاقوں کو آصف جاہی حکومت سے معاہدہ کے تحت لیتے گئے اور یہ تیقن دیا کہ ضرورت پڑنے پر نظام کو فوجی مدد دینگے ایسے ہی شرائط پر سب سے پہلے سمندری راستے والا علاقہ مچھلی پٹنم اور نظام پٹنم انگریزوں کے حوالے کیا گیا اور آگے چل کر سریکاکلم، راجمندری، ایلور، گنٹور، کڑپہ، کرنول، بیجاپور، بھدراچلم، برار وغیرہ بھی گئے۔ سمندری راستے کا کٹ جانا اس سلطنت کو ہمیشہ کیلئے باہر کی دنیا سے بےربط کردیا کیونکہ اب کوئی سمندری راستہ بچا نہیں تھا اور اس سے بڑھ کر دفاع کیلئے نظام کا اپنی فوج کے بجاے انگریزوں پر تکیہ کرنا اور خارجی امور میں انگریزوں کو ثالث تسلیم کرنے سے یہ ریاست پوری طرح بےبس ہوگئی۔ ٹیپو سلطان نے جو اسوقت انگریزوں کے سامنے مرد مجاہد کی طرح ڈٹے ہوئے تھے، چاہا کہ نظام اگر ساتھ دیں تو انگریزوں کا تسلط ختم کیا جاسکتا ہے مگر انگریزوں کی لالچ کی بنا پر نظام نے انگریزوں کا ساتھ دینے میں اپنا فائدہ سمجھا۔ انگریزوں سے معاہدہ کی رو سے نظام کوئی خاص فوج نہیں رکھینگے اور نظام کی ریاست کا انگریز اپنی فوجی صلاحیتوں سے حفاظت کرینگے اور ریاست کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرینگے مگر ایسا ہوا نہیں۔ اس معاہدہ کیساتھ ہی نظام حکومت کی خود مختاری ختم ہوگئی۔ بنا کسی تنقید کے اگر ہم دیکھیںیہ وہ دور تھا جب مسلمانوں میں اسلامی فکر کے زوال کی ابتداء ہوئی اور ہم مسلمان حالات کو پیش نظر رکھ کر لائحہ عمل بنارہے تھے اسکے برعکس ہونا تو یہ چاہئے تھا کے اسلام کو مدنظر رکھے ہوتے توحالات تبدیل کرتے۔
جیسے کے ہم نے دیکھا کے فکری زوال تو شروع ہوچکا تھا اور نظام ہفتم کے دور میں اسکے اثرات نمایاں ہونے لگے اور ہم حالات کو ہی بنیاد بناکر آگے بڑھتے رہے پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی جسمیں انگریز مسلمان خلیفہ کے خلاف لڑرہے تھے اس میں بھی نظام نے انگریزوں کی دل کھول کر مالی مدد کی جسکے بدلے انھیںیار وفادار اور ہزاگزالٹڈ ہائینس کے القاب سے نوازا گیا۔ اسی زمانے میں آزادی کی تحریک جڑ پکڑ چکی تھی اور دوسری جنگ عظیم 1945کے بعد انگریزوں کا اثر متاثر ہوگیا اور وہ اپنے نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنے کے قابل نہ رہے اسی لئے تقسیم کے بعد ہندوستان کی آزادی کا اعلان کردیا گیا اور ریاستوں کو اختیار دیا گیا کے ہندوستان یا پاکستان سے الحاق کرلیں۔ اس دور میں بیشتر مسلمان ہندوستان کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو سمجھنے سے قاصر تھے اور بعض نے انگریزوں سے اتحاد کو دو برائیوں میں سے چھوٹی برائی کو ترجیح دینا سمجھا تو کچھ نے وقت کے حساب سے اسکو صحیح سمجھا۔ آج بھی لوگ انگریزوں سے اتحاد کے فیصلے کو درست سمجھتے ہیں لیکن حقیقت یہی ھیکہ اسی اتحاد کی وجہ سے حیدرآباد کا زوال ہوا۔
تقدیرکےقاضی کایہ فتویٰ ہےازل سے
ہےجر م ضعیفی کی سزامرگِ مفاجات
انگریز ہندوستان سے جاتے ہوئے جمہوریت و سیکولرزم کا سبق پڑھا کر گئے جس کے ذریعہ اکثریت کی رائے پر ہی حکومت و قانون بنیں گے اور مذہب کا حکومت میں کوئی دخل نہیں ہوگا، اسی کیساتھ اب کہیں بھی مسلم حکمرانی ہونا ناممکن ہوگیا۔ ان ہی نئے افکار کی بنا پر ہندوستانی سیاستدانوں کو یہ بالکل بھی پسند نہیں تھا کہ کوئی مسلم خود مختار ریاست ہندوستان کے بیچ رہے، اسی کو لیکر ابتداء میں نظام نے حیدرآباد کو خود مختار رکھنے کی کوششیں کیں اور اس ضمن میں ایک سال تک بات چیت بھی جاری رہی اور آخر کار 17ستمبر 1948ءکو ہندوستان نے آپریشن پولو نام سے فوجی کاروائی کرتے ہوئے صرف چار دن میں ریاست حیدرآباد کو ہندوستان میں ضم کرلیا جبکہ حیدرآباد کی فوجی طاقت ہندوستان کے مقابل بہت کمزور تھی، ریاست حیدرآباد نے بھی اندرونی سازشوں اور کئی دوسری وجوہات کی بنا بالآخر ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت سمجھی اور یوں عوام کو ہندوستانی فوج اور شرپسندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جسکی وجہ سے تقریباْ دو لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ آپریشن پولو کے بعد سندرلال کمیٹی کی رپورٹ آئی اسکے مطابق تقریبا 26000سے 40000 ہرزار لوگ ہلاک ہوئے جن کا تعلق موجودہ کرناٹک اور مہاراشٹرا کے اضلاع سے تھا۔
ان تمام حکمت عملی اور اسکے نتائج جو موجودہ حالات کی شکل میں ہمارے سامنے ہے اس میں ہمیں دیکھنایہ ھیکہ ان سب میں ہمارے لئے کیا سبق ہے۔ سب سے پہلے دین کیساتھ سمجھوتہ کرنا دوسری ہماری شناخت کا کھونا اور تیسری بصیرت کا بالکل بھی نہ ہونا کتنا نقصاندہ ثابت ہوتا ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ، یہ آپس ہی میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی پھر انہی میں ہے، یقیناً اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کر دیتا ہے (المائدہ۵۱)
اس آیت کے ذریعہ سے ہمکو جو اصول بتایا گیا ہے ہم نے اسمیں حالات کو بنیاد بناکر سمجھوتہ کرلیا اور آج بھی یہ سمجھوتہ چھوٹی چھوٹی مسلم ریاستیں کررہی ہیں اور پہ در پہ بے عزت ہوتے رہتے ہیں۔ انگریزوں کے جانے کے بعد ہمکو ایک نئی شناخت ‘اقلیت‘ دی گئی جو باہر سے آئی ہوئی قوم ہے اور اب کوئی طاقت نہیں رکھتی جسکو ہمنے بھی قبول کرلیا، اور اب ہمارا کام بس یہ ہوکر رہ گیا ھیکہ ملک کے تئیں اپنی وفاداری ثابت کرتے رہیں اور اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے رہیں۔ (سلسلہ صفحہ۶)
ہم چار فیصد ریزرویشن ملنے پر خوش ہوئے اور بارہ فیصد کی کوشش میں جٹ گئے یہ سوچ کر کے اس سے ہمارے حالات ابتر سے بہتر ہونگے۔ ہمارا اس دنیا میںیہ کام ہوگیا کہ اپنے مفاد اور تحفظ کے لئے کام کریں اسی کے اطراف ہماری زندگی اور سیاست گھومتی ہے کے کونسی سیاسی جماعت ہمکو تحفظ و حقوق دیگی۔ اس نئی شناخت کا فطری نتیجہ نکلا کے ہماری عبادت گاہوں، اوقاف کی جائدادوں کے تحفظ میں اپنی صلاحیتوں کو صرف کرنے میں لگ گئے اور اسکے آگے حجاب پر پابندی، بیف، اذان، نماز وغیرہ پر بھی سوالات کھڑے کردے گئے جس سے ہم مسائل میں اور گھر گئے۔ ہماری نئی شناخت میں ہم اتنے ڈوب گئے کہ اپنی کامل اسلامی شناخت اور مقصد سے پوری طرح غافل ہوگئے۔
زندہ کرسکتی ہےایران وعرب کوکیوں کر
یہ فرنگی مدنیت کہ جوہےخودلبِ گور
ہم مسلمانوں کا مقصد دنیا میں کچھ مال کمانا یا کچھ حاصل کرنا نہیں ہے، ہم یہاں نظام کے اچھے کاموں پر طنز یا تحقیر نہیں کرنا چاہتے پر ذرا سوچئے کے حالات ہمارے عمل کی بنیاد بنے تو کیا ہوتا ہے۔ نظام اس وقت کے امیر ترین آدمی ہونے کیساتھ انکی ریاست بھی مال اور وسائل کے لحاظ سے بھر پور تھی اس ریاست کا مدینہ کی ریاست سے تقابل کریں تو رسول اللہﷺ کی ریاست کے یہاں مال و دولت کے انبار نہیں تھے اور نہ ہی کوئی وسائل تھے مگر جو انکی ریاست کے پاس تھا وہ بصیرت و مقصد جسکا نتیجہیہ نکلا کے محض تیس سال کی قلیل مدت میں اسلام کا نور تین برا عظموں میں پھیل گیا۔ زیادہ اہم یہ ھیکہ ہمارے پاس بصیرت ہو یہاں پھر ایک بار وضاحت کرنا چاہونگا کے ہم یہاں کسی شخصیت کو طنز کا نشانہ بنانا نہیں چاہتے بلکہ فکری زوال ہمیں کہاں سے کہاں لاسکتی ہے بتانا مقصد ہے۔ صرف حیدرآباد ہی نہیںیہی فکری زوال اسپین، بغداد اور دوسری مملکتوں کے خاتمہ کا باعث بنا۔
آج ضرورت اس بات کی ھیکہ ہم اپنی توانائیوں و صلاحیتوں کو اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کے لئے لگائیں جو خالص رسول اللہ کے طریقہ پر ہونی چاہئے۔ اسی میں ہمیں رسول اللہﷺ و صحابہ والی بصیرت ملیگی اسی کے ساتھ ہمیں وہی شناخت اور فکر رکھنا ہوگا جو کسی بھی حال میں اسلامی اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے روکتی ہے۔ ہمیں آپ ﷺ کی اسی دعوت پر اپنی زندگیوں کو لگانا ہے۔
يَـٰٓأَيُّهَاٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱسْتَجِيبُوا۟ لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَٱعْلَمُوٓا۟ أَنَّ ٱللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ ٱلْمَرْءِ وَقَلْبِهِۦ وَأَنَّهُۥٓ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ، جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان آڑ بن جایا کرتا ہے اور بلاشبہ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے۔ (الانفال 24
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلب سلیم