دوست
شوکت تھانوی
کمبختی کی بھی متعدد قسمیں ہوتی ہیں اور کمبخت بھی مختلف اقسام کے ہوتے ہیں مگر آج تک ہماری سمجھ میں یہ نہ آیا کہ ہم کس قسم کے کمبخت ہیں۔بہر حال ہیں ضرور اور یہ بھی طے ہے کہ کسی سخت مہلک قسم کے کمبخت ہیں۔ ہمارے خیال میں سب سے زیادہ خطرناک قسم کمبختی کی خوش اخلاقی ہے اور اتفاق سے اپنے خاندان بھر میں صرف ہم ہی خوش اخلاق ہیں۔ ہمارا خوش اخلاق ہونا ہمارے واسطے بلائے جان ہے بعض اوقات تو اس خوش اخلاقی سے تنگ آکر خودکشی کرلینے کو دل چاہتا ہے، مگر یہ سوچ کر کہ یہ بھی ایک قسم کا ایثار اور خوش اخلاقی ہوگی چپ ہوجاتے ہیں۔ خداگواہ ہے کہ ہم نے متعدد بار یہ بھی کوشش کی کہ ہم کسی طرح بہت بد اخلاق بد دماغ اور حد سے زیادہ کھرے آدمی بن جائیں، لیکن جب ہم نے اس عمل کا نتیجہ دیکھا کہ لوگ ہم کو خوش اخلاق کے علاوہ صاف گو اور سچا بھی سمجھنے لگے۔گویا ہماری کمبختی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ آخر کار مجبور ہو کر ہم نے گوشہ نشینی کی ٹھانی ہے، وائے قسمت کہ اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ دو ہی روز چھپ کر گھر میں بیٹھے تھے کہ اہلیہ صاحبہ نے اپنی بے تکی بکواس اور بھدّے القفات سے ہمارے دماغ کو تقریباً آگرہ یا بریلی کے لیے موزوں کردیا۔ اور ہم مجبوراً گھرسے باہر نکلے‘ باہر آنا تھا کہ پھر ہماری خوش اخلاقی اپنی بھیانک شکل لیے ہم کونظر آئی اور ہم کانپ گئے۔ بات اصل میں یہ ہے کہ خوش اخلاقی ایک قسم کا جوہر انسانی ہے لیکن جب حد سے بڑھ جائے تو بلائے ناگہانی ہونے میں ذرا بھی شک نہیں رہتا۔لوگ اس سے اتفاق کریں یا نہ کریں لیکن یہ ہمارا ذاتی تجربہ ہے کہ اگر ہماری طرح کسی کا اخلاق وسیع ہو کر خدانہ خواستہ اس کا دائرہ احباب بھی وسیع کردے تو اس شخص کو یاتو پھیپھڑے کی دق ہوتی ہے یا تھوڑے ہی دنوں میں دماغ خراب ہوجاتا ہے اور اگر اتفاق سے وہ شخص غیرت دار ہوا تو خودکشی کرکے مرجاتا ہے۔ مگر ہم اس کو کیا کریں کہ ہم کو ان تینوں باتوں میں سے ابتک کوئی بات نہیں ہوئی۔ دو تین مرتبہ ”ایکس رے“ میں پھیپھڑے کی تصویر نکلوائی مگر پھیپھڑے بالکل صاف نکلے بلغم تو نکلتا نہیں صرف تھوک جو بہت کوشش کے ساتھ کھنکھار کر نکالا جاتا ہے۔ امتحان کرایا مگر دق کے جراثیم نہ نکلے غرضکہ سوائے خوش اخلاقی کے اور کسی قسم کی بیماری بظاہر پیدا نہیں ہوئی۔ اب رہا دماغ کا سوال ہمارے خیال میں ہمارا دماغ ابھی تک صحیح ہے ورنہ ہمارے تمام دوست جو آج ہماری خوش اخلاقی اور مروّت کی تعریف کرتے ہیں، ایک ایک ڈھیلا کھا کر ہم کو کب کے صبر کرچکے ہوتے لیکن دماغ کی خرابی غالباً شروع ہے اس لئے کہ ہمارے چار دوست ہیں الامان والحفیظ چار دوست ہیں چار یعنی ایک دو‘ تین ‘ چار‘ ان چاروں سے جب ہم علحدہ علحدہ ملتے ہیں تو ہماری کیفیت ہر مرتبہ نئی ہوتی ہے۔ مثلاً مرزا سے جب کبھی ملاقات ہوتی ہے تو ہمارا دل چاہتا ہے کہ کپڑے پھاڑ کر بھاگ جائیں۔ درماجب کبھی آجاتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے گناہوں کی سزا ہم کو دنیا ہی میں مل گئی ہے۔ اب خدا کے یہاں کا جھگڑا باقی نہیں رہا۔ ظفر سے کبھی مدبھیڑ ہوجاتی ہے تو تھوڑی دیر کے بعد دماغ چکرا کر ہم پر غشی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور خدانخواستہ جب کبھی احسن سے ملاقات ہوجاتی ہے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم گویا دنیا میں نہیں ہیں بلکہ دوزخ کے داروغہ کے سامنے کھڑے کانپ رہے ہیں۔ مگر لطف یہ ہے کہ ان چاروں ملاقاتوں میں ہماری خوش اخلاقی کا مستقل مزاج ہونا ہمارے دوستوں کی عادتوں کی ہمت افزائی کردیتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب ملازم ہم کو خبر دیتا ہے کہ فلاں صاحب تشریف لائے ہیں تو ہم دل ہی میں آنے والے صاحب کو خوب گالیاں دیتے ہیں ،ان کے مرنے کی گڑگڑا کر دعا مانگتے ہیں۔ اور مری ہوئی چال سے بالاخانہ سے اُتر کر اپنے ڈرائنگ روم میں آتے ہیں۔ یہاں آتے ہی ہمارے لبوں میں ایک کھنچاﺅ شروع ہوجاتا ہے اور نتھنے پھول جاتے ہیں ۔ہمارے ہونٹ برابر دو حصوں میں تقسیم ہوکر آدھے پورب کی طرف کھنچ جاتے ہیں اور آدھے پچھم کی طرف۔ گویا اس طرح ہم زبردستی تبسم کی کیفیت پیدا کرتے ہیں اور جیسے ہی تشریف لانے والے صاحب کا سامنا ہوتا ہے بہت تپاک سے اُن کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
”ارے بھائی آج عید کا چاند کدھر نکلا، کہاں کا راستہ بھول گئے“ ،آنکھیں ترس گئیں ترے دیدار کے لیے“ وغیرہ وغیرہ مگر ان کمبختوں کو ہم اپنا دل کس طرح دکھائیں کہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں اس سے ہمارے دل کی کیفیت بالکل متضاد ہے اور ہمارا دل یہی کہہ رہا ہے کہ یہ کمبخت اس وقت کہاں آمرا۔ خدا اس سے سمجھے، ہم کس مزے میں نظم کہہ رہے تھے۔ تیسرے بند کا چوتھا مصرع ذہن میں آیا ہی تھا کہ آپ نے آکر سب ستیاناس کردیا۔ دل کی کیفیت خواہ کچھ بھی ہو مگر چہرے پر بدستور مسکراہٹ اور خوش اخلاقی کی تمام شانیں موجود ہیں۔ اس دورنگی کی کیفیت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوران سردرد اور اختلاج شروع ہوجاتا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس انتظار کی کشمکش شروع ہوجاتی ہے کہ یہ حضرت کب تشریف لے جائیں گے۔
پرسوں رات کو وہ بارہ بجے تک شطرنج کھیلتے رہے جب بارہ بجے وہ تشریف لے گئے تو ہم ہارے تھکے بستر پر آئے مگر ان کے پیدا کیے ہوئے درد سر نے سونے نہ دیا۔ معلوم نہیں کس وقت آنکھ لگ گئی۔ آنکھ لگتے ہی خوفناک دوستوں کے خواب دیکھنا شروع کردئےے گویا سونے میں بھی خون خشک ہوتا رہا۔ بمشکل دو گھنٹے اس کیفیت میں گزرے ہوں گے کہ بیوی صاحبہ کی لخت جگر یعنی اُن کی بہت شوق سے پالی ہوئی بلی نے ہمارا منہ چاٹنا شروع کردیا۔ معلوم نہیں اس بلی کو اس میں کیا لطف آتا ہے ،سورج نکلتے ہی ہم کو جگانا شروع کردیتی ہے اور اگر تھوڑی دیر اُس کے چاٹنے کی پروانہ کریں تو وہ ہمارا منہ اس قدر صاف کردے کہ پھر منہ دھونے کی ضرورت نہ پڑے غرضکہ ہم بیدار ہوگئے چا‘ پی اور ”نیرنگ خیال عید نمبر“ کے لئے افسانہ لکھنے بیٹھ گئے۔ بمشکل چھ سات سطریں لکھی ہونگی کہ کان کے پردے ”جناب شوکت صاحب“ کی گرجتی ہوئی آواز سے ہل گئے۔ جی میں آیا کہ اپنی بوٹیاں اپنے دانتوں سے نوچ ڈالیں۔ مگر کیا کرتے آخر نشستگاہ میں گئے۔
دیکھتے کیا ہیں کہ جناب مرزا صاحب تشریف فرما ہیں۔ ہم نے عادت کے موافق آداب تسلیمات اور خوش آمد کی بوچھار شروع کردی مگر ڈر معلوم ہورہا تھا کہ کہیں مرزا صاحب نے اگر باتیں شروع کردیں تو کل ہی ختم ہوں گی۔ ان حضرت کی باتوںکا سلسلہ جس قدر وسیع ہوتا ہے، اسی قدر مہمل اور بے معنی ہوتا ہے۔ اگر لکھنو¿ سے شروع کریں گے تو بلامبالغہ چین‘ جاپان‘ امریکہ‘ افریقہ غرضکہ تمام دنیا میں گھوم پھر کر اگر بس چلے گا تو آسمان تک پہنچ جائیں گے اور ان کی گفتگو میں مبتدا اور خبر کا کہیں پتہ نہیں چلے گا۔ غرضکہ ہم مرزا صاحب کے پاس بیٹھ گئے اور رات کے جاگنے کا قصہ اس لیے کہہ دیا کہ شاید ہم پر رحم فرمائیں۔ لیکن سچ ہے ”دہی ہوتا ہے جو قسمت کا لکھا ہوتا ہے“ فرمانے لگے:
”بھائی شوکت بخدا تم سے مل کر تمام کلفت دور ہوجاتی ہے، وہ انسان بھی کس قدر خوش قسمت ہے جس کو تم سے دوست ملیں۔ بخداتم ہمہ سفت موصوف ہو، انسان میں اگر وہ صفات نہیں ہیں جو تم میں ہیں تو پھر اس کا انسان ہونا یا حیوان ہونا بالکل یکساں ہے۔ ایک تم ہو اور ایک ورما ہیں زمین و آسمان کا فرق ہے اور ورما پر کیا منحصر ہے ان کے بڑے بھائی بھی عجیب آدمی ہیں جہاں ان کی شادی ہوئی ہے وہ لوگ بڑے رئیس ہیں مگر ویسے ہی کمبخت نیت کے خراب اور بھائی یہ تو کچھ غریب ہی کو خدا نے شرف بخشا ہے کہ اس کا دل غنی ہوتا ہے۔ امیروں پر تو خدا کی مار ہے جتنا روپیہ ان کے پاس ہوگا، اسی قدر ہوس میں زیادتی ہوگی۔ ایک ایک پیسہ پر جان جاتی ہے۔ چمڑی جائے دمڑی نہ جائے۔ اب اُس روز تم بائیسکوپ گئے ہم سب ساتھ تھے۔ مگر اپنی ہمت دیکھ ایک احسن کو دیکھو لکھ پتی ہے، مگر ٹکٹ تم ہی نے سب کا خریدا ، بھئی واللہ کیا تماشا اس دن ہوا ہے۔ غضب خدا کا ٹانگ برابر کا چھوکرا جیکی کوگن اور وہ وہ کمال دکھائے ہیں کہ ہمار ے باپ بھی نہ کرسکتے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم ہندوستانیوں میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اب دیکھو یہ لڑکا اتنا مالدار ہے کہ اس کو روپیہ رکھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی ہوگی اور ایک یہی کیا امریکہ والوں پر تو روپیہ کی بارش ہورہی ہے۔ فورڈ کو دیکھئے غضب خدا کا روپیہ کی کوئی حد بھی ہے میں کہتا ہوں کہ میں اس قدر روپیہ دیکھ لوں جس قدر فورڈ کے پاس ہے تو میرا تو شاید دیکھ کر دم نکل جائے۔ بھئی ہم تو مرکر ایک ارمان لے جائیں گے کہ ہم نے امریکہ نہیں دیکھا۔ دل تو چاہتا ہے کہ لندن کی بھی سیر کریں مگر امریکہ پر تو میں فدا ہوں ،لندن میں ایک بات ہے کہ وہ ایک ایسے حکمراں کا پایہ¿ تخت ہے جس کی سلطنت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا۔ اور ہر سمندر اس کی سلطنت کے ساحلوں سے ٹکراتی ہے۔ اللہ اکبر کس قدر وسیع سلطنت انگریزوں کی بھی ہے اور واقعی بعض وقت تو میں یہ سوچتا ہوں کہ یہ انگریزوں کی قوم بن کس طرح گئی؟ خدا کی تمام رحمتیں بس ان ہی پر نازل ہوتی ہیں مگر یار سنا ہے اب پھر جنگ ہونے والی ہے۔ ایک لڑائی تو تمام دنیا کو چوپٹ کر گئی اب دوسری دیکھئے کیا حشر بپا کرتی ہے۔ خدا اپنی پناہ میں رکھے۔
یہاں تک تو مرزا صاحب کی گفتگو کو ہم نے سنا مگر اب ہمارا دماغ چکرانے لگا اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ مرزا صاحب نے اس کے بعد کیا کیا باتیں کیں، تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ہم ”ہوں“ ”ہاں صاحب“ ”بجا ہے“ کرتے رہے مگر ایک لفظ بھی دماغ میں رکھنے کے قابل نہ رہے، آپ خود انصاف فرمائےے کہ ہمارا دماغ کس طرح صحیح رہ سکتا ہے کہ ہماری ثنا و صفت سے گفتگو شروع ہوتی ہے۔ جبکی کوگن کا ذکر آتا ہے امریکہ کا قصہ بیان ہوتا ہے۔ لندن پہنچتے ہیں۔ نئی جنگ پر طبع آزمائی کرتے ہیں اور بعد میں نہ معلوم کہاں کہاں کے ذکر ہوئے ہوں گے ،کانوں سے آواز سن رہے تھے اور آنکھوں سے مرزا صاحب کے لبوں کی جنبش دیکھ رہے تھے۔ مگر یہ بتانے سے قطعاً معذور ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے۔
غرضکہ پورے دو گھنٹہ بیٹھ کر اس لیے چلے گئے کہ کھانے کا وقت آگیا تھا۔ ورنہ نہ جاتے۔ ان کے جانے کے بعد ہمارے دونوں ہاتھ خودبخود ہمارے سر پر آگئے اور ہم نے سردبانا شروع کیا تسکین نہ ہوئی تو منہ دھوکر بالوں کو بھی ترکیا اور انذورا لگا کر بال درست کئے مگر اب بھی ہم اپنے قابو میں نہ تھے، خیر اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ ہم باہر سے اُٹھ کر گھر میں آئے اور کھانا کھا کر چپ خاموش چارپائی پر لیٹ گئے ۔اب بتائےے کہ جس غریب کو اتنا سنایا گیا ہو اور جو اس قدر تھک چکا ہو وہ بیوی صاحبہ کے سوالات کا جواب کس طرح دے سکتا ہے اور سوال بھی ایک دو نہیں لاکھوں سوال کیوں طبیعت کیسی ہے کیوں لیٹ گئے خیر اس قسم کے سوالوں کا جواب تو بہت آسان ہے مگر یہ سوال کہ مرزا سے کیا کیا باتیں ہوئیں۔ رہے سہے ہوش و حواس کو بھی کھودیتا ہے۔ اور فانی کا مصرع یاد آتا ہے۔ ”زندگی نام ہے مرمر کے جیئے جانے کا“
اگر یہیں پر بس ہوجائے تو شکایت نہیں۔ واللہ ہم بڑے ضبط کے آدمی ہیں۔ مگر اس کو کیا کیا جائے کہ خادمہ آکر کہتی ہے کہ ظفر صاحب آئے ہیں۔ خدا گواہ ہے کہ جی چاہتا ہے کہ خادمہ سے لپٹ کر خوب چیخ چیخ کر روئیں۔ اپنا سردے ماریں۔ کوٹھے پر سے پھاند پڑیں۔ مگر نہیں خدا شاید ہمارے صبر کو آزمانا چاہتا ہے۔ ہم نہایت سکوت کے ساتھ اُٹھتے ہیں اور باہر جاکر ظفر کے پاس بیٹھتے ہیں۔ ہماری خوبی قسمت ہے کہ ظفر کو خدانے شاعر پیدا کیا ہے اور شاعر بھی ایسا جو نہایت بھیانک طریقے سے اپنا کلام پڑھ کر یہ سمجھتا ہو کہ میں بہت خوش گلوں ہوں اور شاید ظفر کو سوائے ہمارے کوئی شخص کلام سنانے داد لینے کو نہیں ملتا ہم یہ سب کچھ جانتے ہیں مگر پھر بھی ہم کمبخت کے منہ سے نکل گیا کہ ”بھائی ظفر کہو مزاج کیسے ہیں“ بس پھر کیا تھا کہنے لگے:۔
”بھائی پرسوں سے ایک منٹ کو بھی اگر سویا ہوں تو قسم لے لو کل مشاعرہ تھا۔ پرسوں مجھ کو مصرع طرح دیا گیا۔ میں نے پرسوں دن بھر کوئی فکر نہ کی رات کو شعر کہنا شروع کئے زمین اس قدر فرسودہ اور پامال کہ شعر ہی نہیں نکلتے خیر رات بھر غزل کہی اور کل دن بھر گھوڑ دوڑ میں رہے۔ رات کو مشاعرہ میں گئے۔ بھئی اس کو خودستائی نہ سمجھنا امر واقعہ بیان کرتا ہوں کہ جس وقت پڑھنے بیٹھتا ہوں چھت اُڑ گئی۔ داد دیتے دیتے لوگوں کی آوازیں پڑگئیں اور میں پڑھتے پڑھتے تھک گیا۔ ایک ایک شعر کو دس دس بارہ بارہ مرتبہ پڑھایا گیا اور پھر بھی لوگوں کو سیری نہیں ہوتی تھی۔ اس مرتبہ غزل اس قدر کامیاب رہی کہ مجھ کو خود تعجب ہے۔ غرضکہ غزل حاصل مشاعرہ سمجھی گئی۔ مگر بھائی بات تو یہ ہے کہ جب تک تم ایسے سخن نواس کو غزل نہ سنادی جائے محنت ٹھکانے نہیں لگتی۔ سنو یار مطلع عرض ہے……..“
ہمارے ظفر صاحب کی عادت ہے کہ دو مرتبہ ہر مصرع کو پڑھتے ہیں اور پھر دو مرتبہ پورے شعر کو پڑھتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ سننے والا ”مکرر ارشاد“ ضرور کہے۔ ہم بھی سبحان اللہ واہ واہ ماشاءاللہ مکرر ارشاد‘ غضب کا کہہ دیا ہے۔ کہتے رہے اور پورے پورے ایک گھنٹہ کے بعد ان کے پندرہ شعر ختم ہوئے۔ اس کے بعد غزل کی تعریف پھر سے کرنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ مگر واہ رے ہم اس مشکل کو بھی آسان کیا۔ ظفر میں جہاں سب خرابیاں ہیں یہ بات اچھی ہے کہ غزل سنانے کے بعد پھر نہیں ٹکتے فوراً چلے جاتے ہیں مگر اپنے ساتھ ہماری تمام یکسوئی کو بھی لے جاتے ہیں اور ان کے جانے کے بعد ایک گھنٹہ تک ہمارے کانوں میں ان کے پھٹے ہوئے بانس کی نغمہ سرائی گونجاکرتی ہے۔
ابھی پروگرام تین بجے تک پہنچا ہے اور ساڑھے تین بجے احسن اور ورما آکر بیٹھ بجے تک کم از کم اور زیادہ سے زیادہ بارہ بجے تک شطرنج ضرور کھیلتے ہیں۔ بارہ بجے جب ہم سوتے ہیں تو اکثر سوتے میں کہا کرتے ہیں ”شئے بچے“ رخ اردب میں وغیرہ وغیرہ اور ہماری بیوی کو یہ سُن کر بھی بجائے رحم آنے کے کہ ’یہ کمبخت دن بھر کا تھکا ہوا خواب میں بھی یہی دیکھ رہا ہے ہم کو چھیڑنے کی سوجھتی ہے جگا کر پوچھتی ہیں کیا بک رہے تھے۔
اب تو ہم اس زندگی سے تنگ آگئے ہیں۔ حکیم یوسف حسن صاحب لکھنو¿ آکر‘ وعدہ لے گئے تھے کہ عید نمبر کے لئے فسانہ ضرور بھیجیں گے مگر حکیم صاحب کو کیا معلوم کہ ہم زندہ ہیں یا مرنے کے بعد والے عذابوں میں ابھی سے مبتلا ہیں۔ حکیم صاحب دعا کیجئے کہ یا تو ہمارے یہ دوست ہم پر احسان کرجائیں یا ہماراخاتمہ بالخیر ہوجائے، لیکن اگر ہماری خوش اخلاقی نے اللہ میاں کے یہاں بھی دوست پیدا کرلیے تو پھر کیا ہوگا
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
٭٭٭