زندگی اتفاق ہے…
اتفاق والی اس زندگی میں بہت سارے کام حسب اتفاق یا حسن اتفاق ہی سے انجام پاتے ہیں۔کبھی یوں بھی اتفاق ہوتا ہے کہ ہم جس بس کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں، وہ بس آتی نہیںاور جب ہمیںاس بس کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اٹھلاتی ہوئی گزرتی ہے اور بار بار گزرتی ہے۔ جب پیاز کی ضرورت نہیں ہوتی، پیاز فروش مسلسل گلی گلی آوازیں لگاتے پھرتے ہیں اور جس وقت پیاز کی پیاس ہوتی ہے ،اس وقت اتفاق سے کوئی نہیں پھٹکتا۔
حمید عادل
لفظ ’’ اتفاق‘‘ کے اتفاقاًکئی معنی ہیں ، مثلاً اتحاد ، موافقت،محبت اور ناگہانی واقعہ وغیرہ وغیرہ۔ فلم ’’ آدمی اور انسان‘‘ کا نہایت معروف نغمہ ہے ’’زندگی اتفاق ہے ،کل بھی اتفاق تھی، آج بھی اتفاق ہے ،زندگی اتفاق ہے… ‘‘ جی ہاں!زندگی اتفاق ہے اور اتفاق میں برکت ہے ،اتفاق نہ ہو تو پھر محبت نہ ہو ، محبت نہ ہو تو پھرہم میں ایک دوسرے کے لیے تڑپ نہ ہواور اگرہم میں ایک دوسرے کے لیے تڑپ نہ ہو تو پھر ہم خود تنہا تڑپ تڑپ کر مر جائیںاورآج کل یہی سب کچھ ہورہا ہے، لہٰذا ہم محفل میں بھی خود کو تنہا محسوس کرنے لگے ہیں …
ایسا زندگی میں بہت کم ہوتا ہے کہ جسے چاہا جائے وہ ہماری زندگی میں آجائے ،ہم میں سے بہت سارے محض یہ نغمہ گنگناتے رہ جاتے ہیں کہ ’’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے ‘‘
گر زندگی میں مل گئے پھر اتفاق سے
پوچھیں گے اپنا حال تری بے بسی سے ہم
ساحر لدھیانوی
لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ’’ آپ جیسا ‘‘جب ہماری زندگی میں آتا ہے تو پھر زندگی آباد ہونے کی بجائے برباد ہوجاتی ہے …ایک لطیفہ بڑا مشہور ہے کہ کوئی وزیر پاگل خانے کا دورہ کررہا تھا، اسے ایک پاگل کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ شبنم نامی کسی لڑکی سے محبت کرتا تھا، وہ اسے مل نہ سکی ،اس غم کی تاب نہ لاکر یہ پاگل ہوگیا…وزیر نے بڑے دکھ کا اظہار کیا اور آگے بڑھ گیا…اگلے پاگل کو دیکھ کروزیرنے استفسار کیا تواسے بتایا گیا کہ یہ وہ شخص ہے جس سے شبنم کی شادی ہوئی …ہے ناں بڑا ہی عجیب اتفاق …جسے شبنم نہ ملی وہ بھی پاگل ہوگیا اور جسے شبنم ملی وہ بھی پاگل ہوگیا …
اتفاق والی اس زندگی میں بہت سارے کام حسب اتفاق یا حسن اتفاق ہی سے انجام پاتے ہیں۔کبھی یوں بھی اتفاق ہوتا ہے کہ ہم جس بس کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں، وہ بس آتی نہیںاور جب ہمیںاس بس کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اٹھلاتی ہوئی گزرتی ہے اور بار بار گزرتی ہے۔ جب پیاز کی ضرورت نہیں ہوتی، پیاز فروش مسلسل گلی گلی آوازیں لگاتے پھرتے ہیں اور جس وقت پیاز کی پیاس ہوتی ہے ،اس وقت اتفاق سے کوئی نہیں پھٹکتا۔ ہماری کسی سے ملنے کی حسرت ہوتی ہے لیکن وہ نہیں ملتا اور جب اس سے ملاقات کاہمارے دل و دماغ میں تصور تک نہیں ہوتا، وہ ہمارے روبرو جیتی جاگتی تصویر بن کرآجاتا ہے۔ آئے دن اتفاق سے ہمارے ساتھ بھی اس طرح کے اتفاق ہوا کرتے ہیں۔ایک اتفاق کچھ یوں ہوا تھا کہ ہم نے ایک بار ’’طرفہ تماشا‘‘ کالم کے تحت ’’ پانی رے پانی‘‘ مضمون قلمبند کیا ،جس کا آخری پیراگراف کچھ یوںتھا:
’’دوستو!مانسون کے بادل خاصے شرارتی ہوا کرتے ہیں، جب جب ہم اپنے ساتھ برساتی رکھتے ہیں، پانی کی ایک بوند تک نہیں برستی لیکن جس دن بھی ہم برساتی گھر پر بھول جاتے ہیں، بادل جم کر برستے ہیں۔ ڈیئر مانسون ! اگر آپ کو ہمیں بھیگاکر مزہ آتا ہے تو پھر ہم جاریہ سال موسم برسات میں برساتی کے بغیر ہی دفتر آئیں گے اور جائیں گے…پلیز اب تو Mansoon,Come soon”‘‘
ہماری اسے حماقت کہیں یا پھر برسات کی شرارت کہ جس دن مذکورہ کالم شائع ہوا ، ہم دفتر سے گھر جانے کے لیے نکلے ہی تھے کہ زور دار برسات شروع ہوگئی۔ کافی دیر تک ہم بارش سے بچنے کے لیے سائبان تلے کھڑے رہے ، پھر ہم نے سوچا کہ جب خودہم نے برسات کو دعوت دی ہے کہ’’ ہم بھیگنے کے لیے تیار ہیں، تم چلے آؤ ‘‘تو پھر بھیگنے سے بھاگنا کیسا؟اس خیال کے آتے ہی ہم بھری برسات میں نکل پڑے۔ تیز ہواؤں کے ساتھ ساتھ برسات بھی بہت تیز ہورہی تھی ،چنانچہ کچھ ہی دیر میں ہم بری طرح بھیگ گئے، جیسے ہی ہم بھیگے ، برسات تھم گئی، ایسے جیسے یہ محض ہمیں بھیگانے کے لیے آئی ہو۔ہم من ہی من مسکرائے اور سوچنے لگے کہ برسات کو دعوت دینے والے کالم ہی کے دن زور دار بارش کا ہونا اور وہ بھی عین ہمارے دفتر سے نکلتے وقت وارد ہونا اور پھر ہمارے بھیگتے ہی اس کا تھم جانا، محض اتفاق نہیں بلکہ حسن اتفاق ہے۔ ہمارے ایک دوست نے ازراہ مزاح ریمارک کیا کہ آپ کو بھیگنے میں اس قدر جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے تھا ،آپ مزید رک جاتے تو شاید برسات کچھ دیر اور ہوتی ، برسات کچھ دیر اور ہوتی تو شاید موسم گرما کی حدت میں کچھ اور کمی ہوجاتی۔ہمیں ان کے یہ کلمات سن کر افسوس ہوا کہ واقعی ہمیں کچھ دیر اور رک جانا چاہیے تھالیکن گھر پہنچتے پہنچتے جب دوبارہ زور دار برسات ہوئی تو ہمارے دل سے وہ ملال جاتا رہا۔ دریں اثنا، ایک قاری نے ہمیں فون کرکے مبارکباد دے ڈالی کہ مبارک ہو ، مبارک ہو ،آپ کی تمنا پوری ہوگئی …
بارش کی یہ کہانی محض اتفاق ہے اور اس طرح کے حسین اتفاق زندگی کے ہر موڑ پر ہوا کرتے ہیں، جوبلاشبہ زندگی کو دلکشی عطا کرتے ہیںلیکن کچھ نادان ’’ اتفاق ‘‘ ہی پر اکتفا کر بیٹھتے ہیں ،جب چمن بیگ نے پہلی بار ’’ زندگی اتفاق ہے ‘‘ والا نغمہ سنا تو انہیں اس نغمے سے اس قدر اتفاق ہوگیا تھاکہ وہ ایک عرصے تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے کہ جب زندگی خود اتفاق ہے تو پھر مجھے عرق ریزی کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ سب کچھ اتفاق سے ہوجائے گا۔جو لوگ محض ’’ اتفاق‘‘ پر یقین رکھتے ہیں ، وہ اتفاق سے ترقی بھی نہیں کرتے ہیں،اس پس منظر میںانور شعور نے کیا خوب کہا ہے:
اتفاق اپنی جگہ ،خوش قسمتی اپنی جگہ
خود بناتا ہے جہاں میں آدمی اپنی جگہ
یہ کیسا اتفاق سے کہ آج خودہم میں اتفاق باقی نہیں رہاہے،اتفاق کی جگہ ہمارے دلو ں میں نفاق نے گھر کر لیا ہے۔ہندوستان میں کچھ طاقتیں ایسی ابھر آئی ہیں جو اتحاد و اتفاق کو تہس نہس کرنے کے درپے ہیں اور چاہتی ہیں کہ نتشار کے ذریعے ملک پر حکومت کی جائے …ان کے ہاں وطن پرستی، غداری ہوگئی ہے اور غداری کو وطن پرستی گردانا جا رہا ہے …لیکن یہ طاقتیں شاید بھول گئی ہیں کہ یہ وہ ملک ہے جہاں کے عوام نے’’ ڈیوائیڈ اینڈ رول ‘‘ کے حامی انگریزوں کو نہیں بخشا تو یہ کس کھیت کی مولی ہیں؟
ہم نے بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ باپ مرتے مرتے اپنے لڑکوںکونصیحت کرتا ہے کہ اتفاق میں بڑی طاقت ہے۔خاکسار نے معروف مزاح نگار ابن انشا کی تقلید کرتے ہوئے اس سنجیدہ کہانی کوپرمزاح بنانے کی حقیر سی کوشش کی ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک بڑے میاں، بیوی کی مار جھیلتے جھیلتے بیمار ہوگئے تو موت انہیںمعنی خیز اشارے کرنے لگی کہ’’ چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو…‘‘ بڑے میاں نے بھی بے ساختہ نعرہ مارا ’’ ہم ہیں تیار چلو‘‘ وہ بے انتہا خوش تھے کہ اب ظالم بیوی سے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی لیکن مرنے سے پہلے وہ یہ سوچ سوچ کر مرے جارہے تھے کہ ان کے بعد ان کے پانچ عدد بیٹے کہیں آپس میں لڑ لڑکر نہ مرجائیں۔ دراصل وہ کبھی کسی بات پرآپس میں اتفاق نہیں کرتے ، ہمیشہ ایک دوسرے کی بات ہی نہیں ایک دوسرے کو تک مارنے کاٹنے تیار رہا کرتے تھے۔ اگر کوئی بھائی کہتا کہ یہ گلاس آدھا خالی ہے تو دوسرا فوراً کہتا :غلط، یہ آدھا بھرا ہوا ہے اور پھر بات منٹوں میں بگڑ جاتی…
بڑے میاں نے اپنے بیٹوں میں اتحاد و اتفاق کے پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے انہیں اپنے پاس بلایا اور کہا کہ سبھی ایک ایک لکڑی لاؤ۔ ایک نے کہا: لکڑی کا کیا کریں گے آپ؟دوسرے نے سرگوشی کی :بڑے میاں بڑے رنگیلے واقع ہوئے ہیں، لکڑی نہیں شایدلڑکی کہہ رہے ہیں ،عقد ثانی کا ارادہ ہوگا۔ تیسرے نہیں کہا : نہیں نہیں ! اب توخود ان کے ٹھنڈا ہونے کا وقت آگیا ہے ، ممکن ہے لکڑی جلا کرخود کو گرم کرنا چاہتے ہوں۔ چوتھے نے کہا :لکڑ ی کی بجائے ہیٹر نہیں چلے گاکیا؟ پانچویں نے کہا :بابا !لکڑی ببول کی، کیکر کی یا پھر نیم کی چاہیے ؟
باپ نے جھلا کرکہا: کم بختو! میں مررہا ہوں اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے ، لکڑی لاؤ لکڑی، چاہے کسی بھی درخت کی ہو۔
جب لکڑیاں لائی گئیں تو باپ نے کہا : اب ان لکڑیوں کا گھٹا باندھ دو۔جب بیٹوںنے لکڑیوں کا گھٹا باندھ دیا تو باپ نے کہا: اب اسے اپنے ہاتھوں سے توڑو۔سبھی نے کوشش کی لیکن ناکام رہے تو باپ نے کہا : اب اس گھٹے کو کھول دو اور لکڑی پر گھٹنے کا پورا زور ڈال کر لکڑی توڑو۔مرتے ہوئے باپ کا حکم تھا،بیٹوں نے آپس میںایک دوسرے کو دیکھا ،زیر لب کچھ بدبدائے اور پھر سبھی نے باپ کے کہے کے مطابق لکڑی پر گھٹنے کا خوب زور ڈالا ،لکڑیاں بہت مضبوط تھیں،لکڑیاں تو نہیں ٹوٹیں البتہ وہ اپنے اپنے گھٹنے کی ہڈیاں تڑوا بیٹھے۔ باپ نے پوچھا: میرے پیارے بچو! بتاؤ تو تم کس نتیجے پر پہنچے ہو؟ پانچوں بیٹوں نے ایک آواز میں کہا: لکڑیوں کا گھٹا توڑنا، مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے جبکہ علیحدہ علیحدہ لکڑی توڑنے کی حماقت میں گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔
بیٹوںکے جواب کو سن کر بڈھے نے اطمینان کا سانس لیا کہ چلو میرے بیٹوں نے کسی ایک بات پر تو اتفاق کیا اور وہ خوشی خوشی مر گیابلکہ مارے خوشی کے مرگیا…
آپ نے دو بیلوں اور شیر والی کہانی بھی سنی ہی ہوگی،جب بیلوں میں اتفاق ہوتا ہے تو وہ شیر کو دم دبا کر بھاگنے پرمجبورکردیتی ہیں لیکن جب وہ علیحدہ علیحدہ ہوجاتی ہیں تو شیر ان دونوں کو ڈھیر کردیتا ہے،افسوس!ہم بچپن میں سنی اِس کہانی کوبھی فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اب تو ہمیں یہ ڈر بھی نہیں رہا کہ عدم اتفاق کی بدولت کہیں ہم محض کہانی یا داستاں بن کر نہ رہ جائیں:
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
آج علامہ اقبال کا یہ پیام محض ہندوستان تک محدود نہیں رہاہے ، ہماری نا سمجھی اور اتفاق کے فقدان کی بدولت اسلام دشمن طاقتیں اتحادو اتفاق ہی سے ساری دنیا میںہم پر غالب آرہی ہیں۔اس کے باوجود ہم میں اتفاق پیدا ہونے کے دور دور تک آثار نظر نہیں آرہے ہیں ،آخر ہم کب اس حقیقت کو سمجھ پائیں گے کہ اتفاق میں ترقی اور نفاق میں تنزل ہے…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰