سوال:- ایک جامع مسجد شہر کے وسطی گنجان علاقہ میں واقع ہے ، اس کے اِرد گرد بہت کم مسلمان آباد ہیں ، بفضل خدا نماز جمعہ میں ایسے مصلیوں کی کثرت ہوتی ہے ، جن کا تعلق اِرد گرد کے اسکولس ، کالجس ، بینکس اور کاروباری اداروں و دُکانات سے ہے ، انتظامی کمیٹی مسجد کو مدارس خصوصاً مشن اسکولس سے اطلاعات ملیں کہ ایسے مسلمان بچے جو نماز جمعہ کے لئے مسجد مذکور آتے ہیں ، وہ دوپہر کے لنچ اور جماعتوں میں بروقت حاضری سے قاصر ہوتے ہیں اور اس کوشش میں کہ اوقات کی پابندی کریں ، فٹ پاتھ اور سڑکوں پر بھاگتے ہوئے نظر آتے ہیں جس سے حادثات کا اندیشہ رہتا ہے ، اس پس منظر میں نماز جمعہ کے پیش امام صاحب سے بارہا خواہش کی گئی کہ وہ فرض نماز میں ضم سورہ کرتے ہوئے چھوٹی سورتیں سنائیں ؛ لیکن انھوںنے عمل سے گریز کیا۔
چنانچہ مسئلہ مسجد کی انتظامی کمیٹی میں غور کیا گیا اور ان سے مذکورہ خواہش کی گئی ، جب انھوںنے عمل آوری سے گریز کیا تو انھیں کمیٹی میں شرکت کی دعوت دی گئی ، باوجود ممبرس کمیٹی کی متفقہ رائے کے وہ پھر اپنے ہی طورطریقہ پر قائم رہے ، ایک دفعہ تو انھوںنے کمیٹی کے نائب صدر کے توجہ دلانے پر یہ تک کہہ دیا کہ امام کو کسی طرح پابند نہیں کیا جاسکتا ، اس کا ذکر بھی بیجانہ ہوگا کہ اس علاقہ کی دیگر مساجد میں مذکورہ ماحول کا خیال رکھا جاتا ہے ، جس سے واضح ہوتا ہے کہ مصلی اس طرح کی حکمت عملی سے خوش ہیں ، از راہ ِکرم مسئلہ مذکور میں رہنمائی فرماکر ممنون فرمائیں۔ (افتخار احمد، ٹولی چوکی)
جواب :- نماز میں اسی قدر قراء ت کرنا بہتر ہے ، جو مصلیوں کے لئے دشواری کا باعث نہ بنے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں بعض دفعہ لمبی قرا ء ت کرنا چاہتا ہوں ؛ لیکن نماز میں شامل خواتین اور بچوں کی وجہ سے نماز مختصر کردیتا ہوں ، فجر کی نماز میں خاص طورپر طویل قراء ت کا حکم ہے ؛ لیکن ایک موقع پر سفر کی حالت میں آپ نے نماز فجر میں سورۂ فلق اور سورۂ ناس کے پڑھنے پر اکتفا کیا ؛ تاکہ ہمراہیوں کو دشواری نہ ہو ، حضرت معاذ ابن جبلؓ فقہاء صحابہ میں ہیں ، وہ طویل قراء ت کرتے تھے ، جب بعض زراعت اور محنت و مزدوری کرنے والے صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی طویل قراء ت اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی دشواریوں کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو ہلکی نماز پڑھنے کا حکم دیا ؛ بلکہ آپ نے خفگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا تم لوگوں کو دین سے متنفر کردینا چاہتے ہو ؟ –
اس لئے نماز میں مقتدیوں کے حالات کی رعایت کرنا مسنون ہے اور جس موقع پر جس خاص سورت یا قرآن کی جس خاص مقدار کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ اہتمام فرمایا ہے ، یا اس پر پسندیدگی کا اظہار کیا ہے ، مقتدیوں کے مصالح کے تحت اس کو چھوڑا بھی جاسکتا ہے ، آپ نے نماز میں اختصار کے لئے جو مصلحتیں ذکر کی ہیں ، وہ اہم ہیں ، کالجوں اور اسکولوں کے طلبہ کا رشتہ مسجدوں سے مضبوط کرنا چاہئے ، ایسا عمل نہ کرنا چاہئے کہ وہ مسجد میں آنے سے گریز کرنے لگیں ، اسی طرح بچوں کو حادثات سے بچانا بھی ایک اسلامی اور انسانی فریضہ ہے اور اگر ایسی باتوں میں شدت کی وجہ سے کوئی حادثہ ہوگیا تو اس سے مسجد کی اور دینی اعمال کی بھی بدنامی ہوتی ہے ؛ اس لئے امام صاحب کو چاہئے کہ مصالح کی رعایت کرتے ہوئے نماز جمعہ میں اپنی قراء ت کو مختصر کریں ، یقینا طویل یا بقدرِ سنت قراء ت کے پیچھے ان کا جذبۂ اخلاص ہی کار فرما ہوگا ؛ اس لئے ان کو نرمی سے اور ان کا احترام برقرار رکھتے ہوئے سمجھایا جائے کہ وہ ان مصلحتوں کی وجہ سے بقدر فرض قراء ت پر اکتفاء کرلیں ، کہ یہ بھی اُسوۂ نبوی ہے اور انشاء اللہ اس کی وجہ سے بھی ان کو اجر حاصل ہوگا۔