شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ ایک آفاقی شخصیت
چودھوی صدی ہجری کے مجدد وعظیم مصلح قوم شیخ الاسلام حضرت امام ابوالبرکات محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ قدس سرہ العزیز بانی جامعہ نظامیہ وبانی دائرۃ المعارف کا شمار ایسی نابغہ روزگار ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے علم وفضل، اخلاص وللہیت، صلاحیت اور صالحیت سے جنوبی ہند کے علاقہ کومینارہ علم وعرفان بنا دیا ، آپ کا بل (افغانستان) کی معزز ترین ہستی حضرت شیخ شہاب الدین علی فرخ شاہ کا بلی فار وقیؒ کے خاندان کے چشم و چراغ تھے۔
مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
(شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ)
چودھوی صدی ہجری کے مجدد وعظیم مصلح قوم شیخ الاسلام حضرت امام ابوالبرکات محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ قدس سرہ العزیز بانی جامعہ نظامیہ وبانی دائرۃ المعارف کا شمار ایسی نابغہ روزگار ہستیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے علم وفضل، اخلاص وللہیت، صلاحیت اور صالحیت سے جنوبی ہند کے علاقہ کومینارہ علم وعرفان بنا دیا ، آپ کا بل (افغانستان) کی معزز ترین ہستی حضرت شیخ شہاب الدین علی فرخ شاہ کا بلی فار وقیؒ کے خاندان کے چشم و چراغ تھے، اور آپ کا سلسلہ نسب ۳۹ واسطوں سے خلیفہ دوم حضرت سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جاملتا ہے۔ مجددالف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی فاروقی ؒ (1564ء۔1624ء) اور حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر رحمۃ اللہ علیھما جیسے میدانِ علم وعمل کے شہوار بھی اسی سلسلۃ الذھب سے تعلق رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ حضرات شریعت اور طریقت ، علم وعمل کا حسین امتزا ج ثابت ہوئے۔
حضرت انوار اللہ فارقی ؒ نے (4 ربیع الثانی 1264ھ) حضرت ابومحمد شجاع الدین فاروقی کے خانوادے میں بمقام ناندیڑ آنکھیں کھولیں (ولادت ہوئی)۔ علوم وفنون کے جواہر پارے انہوں نے حضرت علامہ عبد اللہ یمنیؒ، حضرت علامہ فیاض الدین اورنگ آبادیؒ، حضرت علامہ عبدالحلیم فرنگی محلی،ؒ حضرت علامہ عبدالحئی فرنگی محلیؒ، شیخ العرب والعجم، حضرت علامہ شاہ امداد اللہ مہاجر مکیؒ، حضرت قاضی ابو محمد شجاع الدین الفاروقیؒ( تلمیذ حضرت کرامت علی دہلویؒ) جیسے ارباب سے علم و فضل حاصل کئے اور اپنی فطری ذہانت، طبعی فطانت، خدا داد صلاحیت سے ان کو اس انداز سے تراشا کہ ان کی دینی اسلامی علمی وعملی کرنوں سے سارا عالم روشن اور منور ہو گیا۔
حضرت شیخ الاسلام علم وفضل، زہد و ورع، حلم وانکساری، فراست و تدبر، جیسے جواہر حیات سے مزین ہونے کی وجہ سے عوام اور سلطنت آصفیہ کے آخری تاجدار نواب میر عثمان علی خاں آصف سابع دونوں کے ہاں یکساں مقبول اور ممتاز مقام کے حامل تھے چنانچہ آصف سابع اور آصف سادس بوجہ رشتہ تلمذ کے آپ کے نہ صرف قدرداں و مداح تھے بلکہ اصول سلطنت، تدبیرِ مملکت، نظم ونسق عامہ، اصلاح معاشرہ کی تدابیر، محکمہ امور مذہبی کی تنظیم جدید، شرعی قوانین و احکام کے نفاذ کے ہر موقع پر آپ سے صلاح ومشورہ لیتے اور اس پر عمل آوری کیلئے دل و جان سے کوشش کرتے تھے۔
حضرت شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی ؒ فضیلت جنگ بانی جامعہ نظامیہ نے اپنی ساری زندگی قوم و ملت کی خدمت کے لئے وقف کر دی، حضرت شیخ الاسلام کے تجدیدی واصلاحی کارناموں سے قوم وملت کو سہارا ملا آپ کی رہنمائی میں آصف سابع نے علم دوستی، علم پروری، رعایا کی فلاح و بہبودی کے وہ رفاہی کارہائے نمایاں انجام دئے جسکی وجہ سے دکن کے علاقے کو پورے برصغیر میں ایک اعلیٰ اور نمایاں مقام حاصل ہوا ۔
حضرت شیخ الاسلام امام محمد انواراللہ فاروقیؒ مشاہیر عالم کی نظر میں:
شیخ العرب والعجم حضرت شاہ امداداللہ مہاجرمکی علیہ الرحمہ نے شیخ الاسلام کی مایہ ناز تصنیف انوار احمدی میں تقریظ جو تحریر کی ہے اس سے آپ کی علمی، روحانی مقام کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ حضرت مہاجر مکی ؒ تحریر فرماتے ہیں: ’’ان دنوںایک عجیب وغریب کتاب لا جواب مسمی بانوار احمدی مصنفہ حضرت علامہء زماں وفریددوراں ،عالم با عمل وفاضل بے بدل ،جامع علوم ظاہری وباطنی عارف باللہ مولوی محمد انوار اللہ حنفی وچشتی سلمہ اللہ تعالی فقیر کی نظر سے گزری اور بلسان حق تر جمان مصنف علامہ اول سے آخر تک بغور سنی تو اس کتاب کے ہر ہر مسئلہ کی تحقیق محققانہ میں تائید ربانی پائی گئی کہ اس کا ایک ایک جملہ اور فقرہ امداد مذہب اور مشرب اہل حق کی کر رہا ہے اور حق کی طرف بلاتا ہے۔‘‘
اسی طرح جامع علوم نقلیہ وعقلیہ حضرت علامہ عبد الحی فرنگی محلی لکھنوی ؒ نے اپنی کتاب ’’ حل المغلق فی بحث المجھول المطلق ‘‘ میں زمانہ طالب علمی ہی میں حضرت شیخ الاسلام کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے:’’ الفتھاحین قرأۃ الذکي المتوقد المولوي الحافظ محمد انوار اللہ بن المولوي شجاع الدین الحیدرآبادی۔‘‘ ترجمہ:اس کتاب کو میں نے اس وقت تحریر کیا جب کہ انتہائی ذہین وفطین مولوی حافظ محمد انوار اللہ ولد مولوی شجاع الدین حیدرآبادی زیر تعلیم تھے۔
بقول حضرت مولانا مفتی رکن الدین صاحب(مفتی اول جامعہ نظامیہ) : جب ہندوستان میں مرزا غلام احمد قادیانی نے تدریجاً ادعاء نبوت کی طرف قدم بڑھایا تو مسلمانوں نے مخالفت شروع کی، مباحثے ہوئے، مضامین لکھے گئے۔ حیدرآباد میں غالبا مولانا علیہ الرحمہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے مذہب قادیانی کے رد میں قلم اٹھا یا اور افادۃ الافہام کے دو حصے اور انوار الحق جیسی کتابیں لکھ کر شائع فرمادیں لیکن ان میں کسی کا جواب بھی مرز اصاحب یا ان کے اتباع (پیروکاروں )میں کسی سے نہیں ہو سکا۔ غرض ان حصوں کے دیکھنے سے مذہب قادیانی کی اصل تصویر دکھائی دیتی ہے۔ رو قادیا نیت کرنے والے ان کتب کی مدد سے بے نیاز نہیں ہو سکتے۔
کتاب کی غیر معمولی اہمیت اور افادیت کا اندازہ اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولا نا شاہ احمد رضا خان صاحب فاضل بریلوی کے ان الفاظ سے لگایا جاسکتا ہے۔’’کل تصانیف گرامی کا شوق ہے، اگر بہ قیمت ملتی ہوں، قیمت سے اطلاع بخشی جائے، دو جلد قادیانی مخذول کے چند صفحات دیکھے تھے، ایک صاحب سے ان کی تعریف کی وہ لے گئے۔‘‘ (مکتوبات اعلیٰ حضرت) الحمد للہ روزنامہ اخبار منصف کو یہ شرف حاصل ہوا کہ اشاعت دین کی خاطر ہر ہفتہ دینی صفحہ میں افادۃ الافہام کا جستہ جستہ حصہ تقریباً دو سال سے شائع ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ ان کے اس عمل کو قبول فرمائے اور انہیں اجر جمیل عطا فرمائے۔
اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خاں آصف جاہ سابع نے حضرت شیخ الاسلام علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد تعزیت پیش کرتے ہوئے ان الفاظ میں حضرت کی شخصیت کو سراہا: ’’مولوی محمد انوار اللہ خان بہادر فضیلت جنگ بہادر (علیہ الرحمہ) اس ملک کے مشائخ عظام میں سے ایک عالم باعمل اور فاضل اجل تھے اور اپنے تقدس و تورع و ایثار نفس وغیرہ خوبیوں کی وجہ سے عامتہ المسلمین کی نظروں میں بڑی وقعت رکھتے تھے۔
وہ والد مرحوم اور میرے نیز میرے دو بچوں کے استاد بھی تھے اور ترویج علوم دینیہ کے لئے مدرسہ نظامیہ قائم کیا تھا جہاں اکثر ممالک بعیدہ سے طالبان علوم دینیہ آکر فیوض معارف و عوارف سے متمتع ہوتے ہیں، مولوی صاحب کو میں نے اپنی تخت نشینی کے بعد ناظم امور مذہبی اور صدر الصدور مقرر کیا تھا اور مظفر جنگ کے انتقال پر معین المہامی اور امور مذہبی کے عہدہ جلیلہ پر مامور کیا، مولوی صاحب نے سررشتہ امور مذہبی میں جو اصلاحات شروع کیں وہ قابل قدر ہیں اگر وہ تکمیل کو پہنچائی جائیں تو یہ سررشتہ خاطر خواہ ترقی کر سکے گا۔ بلحاظ ان فیوضات کے مولوی صاحب موصوف کی وفات سے ملک اور قوم کو نقصان عظیم پہونچا اور مجھ کو نہ صرف ان وجوہ سے بلکہ تلمذ کے خاص تعلق کے باعث مولوی صاحب مرحوم کی جدائی کا سخت افسوس ہے۔ ‘‘
رئیس القلم حضرت علامہ ارشد القادریؒ ناظم جامعہ حضرت نظام الدین دہلی جنرل سیکریٹری ورلڈ اسلامک مشن: جامعہ نظامیہ اپنے عظیم المرتبت بانی شیخ الاسلام مولانا حافظ شاہ محمد انوار اللہ صاحب نور اللہ مرقدہ کی نسبت سے ایک باوقار دار العلوم اور ایک عظیم مرکز علم وفن کی حیثیت سے سارے اقطاع ہند میں جانا پہچانا جاتا ہے۔ جامعہ میں حاضری کے موقع پر وہاں کے اساتذہ نے از راہ علمی قدر دانی حضرت شیخ الاسلام کی چند گرانقدر تصنیفات بھی مجھے عنایت فرمائیں۔ جن میں مقاصد الاسلام اور انوار احمدی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
انوار احمدی کا مطالعہ کر کے میں حضرت فاضل مصنف کے تبحر علمی، وسعت مطالعہ، ذہنی استحضار، قوت تحقیق، ذہانت و نکتہ رسی اور بالخصوص ان کے جذبہ حب رسول اور حمایت مذہب اہل سنت کی قابل قدر خصوصیات سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔
سجادگان والاشان کی تربیت: حضرت شیخ الاسلام مولانا محمد انوار اللہ فاروقیؒ، خانقاہی نظام میں اصلاحی کوششوں کے ساتھ ساتھ اولیائے کرام کے جانشینوں کو بھی زیور علم و عرفان سے آراستہ دیکھنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں مولانا قطب معین الدین انصاری لکھتے ہیں: ’’مفتی، قاضی، محتسب اور سجادہ نشین کے گھر سے کم از کم ایک لڑکا مدرسہ نظامیہ میں شریک ہو جائے۔ مولانا نے درگاہ حضرت خواجہ بندہ نواز علیہ الرحمہ گلبرگہ شریف کے سجادہ نشین حضرت سید شاہ حسین صاحب اور روضہ شیخ کے سجادہ نشین تاج پاشاہ کو صدارت عالیہ کی زیر نگرانی تعلیم علوم ظاہری سے بہرہ ور کیا۔ تاج پاشاہ سجادہ نشین روضئہ شیخ کو مدرسہ نظامیہ کے دار الاقامہ خاص میں رکھ کر تعلیم دلوائے۔‘‘
عقائد و نظریات کی اصلاح: حضرت شیخ الاسلام انوار اللہ فاروقی ؒکے دور میں نجدیت اور قادیانیت کے نظریات بھی ابھر رہے تھے اور یہ مسلمانوں میں عظمت رسول اور ختم نبوت جیسے بنیادی عقائد پر اپنا اثر ڈال رہے تھے، جس سے اہل اسلام کا ایک طبقہ اس گمراہی کے زیر اثر آتا جارہا تھا، شیخ الاسلام نے اہل اسلام کو اس گمراہی سے بچانے کے لئے گراں قدرکتابیں لکھیں جن میں کتاب وسنت کی روشنی میں اہل سنت وجماعت کے عقائد ونظریات کو پیش کیا، اس طرح مسلمانوں پر شیخ الاسلامؒ کا یہ احسانِ عظیم رہا۔ عقائد و نظریات کی اصلاح میں مولانا کی کتابیں، انوار احمدی، افادۃ الافہام (دو حصے)، مقاصد الاسلام (گیارہ حصے)، انوار الحق، کتاب العقل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
انوار التمجید: ایک سو انچالیس (۱۳۹) صفحات پر مشتمل ہے، جس کو شیخ الاسلام انوار اللہ فاروقی نے فارسی زبان میں تصنیف کیا۔ جس میں آپ نے توحید کے مباحث بڑے دلنشین پیرائے میں جمع کئے ۔ اس کے علاوہ علم کی فضیلت میں کئی احادیث لکھی ہیں:
انوار التمجید پر حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی فارسی تقریظ کا اردو خلاصہ:فقیر اس کتاب کے مضامین سے بخوبی واقف ہوا اور بہت پسند کیا۔ حقیقت میں یہ کتاب طالبان صادق کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ شریعت پہلا مرتبہ ہے اور طریقت دوسرا۔ ان دونوں میں فرق کرنا خلاف مذہب حقہ ہے۔ ایمان کے دو جز ہیں۔ مومن دل سے تصدیق کرتا ہے اور اعضائے جوارح سے احکام شریعت بھی ادا کرتا ہے۔ یہی ایمان کامل ہے۔ مومن اپنے ارادے کو اللہ کے ارادے میں فنا کر دیتا ہے اور تسلیم و رضا کے مقام تک پہنچتا ہے۔یہ کتاب دلائل و براہین کے لحاظ سے ناقابل گرفت ہے۔ طالبات شریعت و طریقت کو مولوی انوار اللہ کافی ہیں۔ جو کوئی ان کے انوار کی روشنی میں سلوک طے کرے گا اللہ کی تائید سے وہ منزلِ مقصود تک پہنچے گا۔ (تحریر شدہ :فقیر امداد اللہ چشتی مکہ مکرمہ)
جامعہ نظامیہ، شیخ الاسلام انوار اللہ فاروقی ؒکی علمی زندگی کا ایک عظیم کارنامہ ہے جس کی علمی ضیاء پاشیوں سے جنوبی ہندکا خطہ خطہ جگمگانے لگا اور ناخوا ندگی کے بادل چھٹ گئے ، جامعہ نظامیہ کا تعلیمی نصاب جس میں ہر فن کی کتاب کو شامل کیا گیا ہے درس نظامی کہلاتا ہے، درس نظامی کی تکمیل کے بعد ہزار ہا علماء لائق فائق اور مشہور نام بھی ہوئے، متبحر علماء کی ایک جماعت جن میں بالخصوص حضرت مولانا نظام الدین لکھنوی بھی شامل تھے انہوں نے ایک خاص مقصد کے تحت اس نصاب کو ترتیب دیا تھا کیونکہ اس کی تکمیل کے بعد عموما طلبہ جامعیت آجاتی ہے، شیخ الاسلام انوار اللہ فاروقی ؒ نے بھی اسی خیال کے تحت درس نظامی کا انتخاب کیا تھا۔
بارگاہ نبوت میں بھی جامعہ نظامیہ کی مقبولیت کا اندازہ اس خواب سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۲۲ / ذی الحجہ (۱۳۲۱ھ) جامعہ کے جلسہ تقسیم اسناد جس میں مشاہیر علماء و مشائخ اور علم دوست اصحاب شریک تھے۔ مولانا عبد الصمد قندھاریؒ جو جامعہ کے ستائیس رکنی مجلس شوری کے رکن رکین تھے، اپنے دست مبارک سے اسناد تقسیم فرمارہے تھے۔ جلسے میں حضرت مولانا مفتی رکن الدین صاحب بھی موجود تھے۔ مولانا عبد الحق مصنف تفسیر حقانی نے فضیلت علم اور تعلیم علوم دینیہ کی ضرورت اور اہمیت پر تقریر فرمائی۔ اسی شب حضرت مولانا شرف الدین رو دولوی نے خواب میں دیکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، اور اسناد جامعہ کو اپنی دستخط خاص سے مزین و منور فرمانے کے لئے طلب فرمارہے ہیں۔ چنانچہ منتظم مدرسہ سندیں لے کر خدمت اقدس حاضر ہوئے۔ یہ خوشخبری تمام نظامیہ کے حقیقی وابستگان جامعہ نظامیہ کیلئے ہے کہ ان کی سعی بار گاہ رحمۃ للعالمین میں شرف قبولیت پاگئی۔
آج بھی بانی جامعہ کا فیض سارے عالم میں پھیلا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ بانی جامعہ کے مرقد پر رحمت باری برسائے آمین بجاہ سید المرسلینؐ۔