صدیق کپن کو ملی ضمانت‘ کہیں سے بھی راحت کی خبر نہیں ہے
امید ہے مہناز کپن جلد اپنے صحافی والد سے مل سکیں گی۔ ہائوسنگ سوسائٹی کے لوگ اس خبر پر بھی بحث نہیں کریں گے اور واٹس ایپ گروپ میں کرتویہ پتھ کی تصاویر شیئر ہورہی ہوں گی جیسے کبھی سڑک دیکھی ہی نہ ہو۔ صدیق کپن عتیق الرحمن، مسعود احمد اور عالم پر امن بگاڑنے کا الزام متھرا کی عدالت میں خارج ہوگیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ پولیس چھ ماہ میں تحقیقات مکمل کرنے میں ناکام رہی۔ یو پی پولیس نے اپریل 2021 میں 5ہزار صفحات کی چارج شیٹ دائر کی تھی۔ کپن کو کووڈ بھی ہوا تھا۔ تب کیرالا کے چیف منسٹر نے یو پی کے چیف منسٹر کو مکتوب تحریر کیا تھا کہ اچھے اسپتال میں علاج ہو۔ کیرالا کے ارکان پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو مکتوب تحریر کیا تھا کہ اس کے علاج کے لیے فوری سماعت ہو۔ کپن کی بیوی ریحانہ کپن نے بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا کہ کپن کو بستر سے باندھ دیا گیا ہے۔ وہ بیت الخلاء نہیں جاسکتے اور کھانا نہیں کھاسکتے۔ انہیں کئی طرح کی بیماریاں ہیں۔ پھر انہیں ایمس لایا گیا لیکن وہاں سے جلد ہی یو پی لے جایا گیا۔ خاندان والوں کو اسپتال میں ملنے نہیں دیا گیا اور علاج پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ واپس لے جایا گیا۔ یہ خاندان کا الزام تھا۔

رویش کمار
سپریم کورٹ نے کیرالا کے صحافی صدیق کپن کو مشروط ضمانت عطا کرنے کا فیصلہ کیا۔ چیف جسٹس یو یو للت، ایس رویندر بھٹ اور جسٹس پی ایس نرسمہا کی بنچ میں آج کپن کی ضمانت پر سماعت ہورہی تھی۔ صدیق کپن5؍ اکتوبر2020 کو گرفتار کیے گئے تھے جب یو پی کے ہاتھرس میں دلت لڑکی کا عصمت ریزی کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ صدیق کپن کے ساتھ عتیق الرحمن، مسعود احمد اور عالم کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ کپن کے خلاف یو اے پی اے قانون کے تحت کیس درج کیا گیا تھا۔ ان پر الزام عائد ہوا کہ نظم و ضبط کو بگاڑنے کے لیے ہاتھرس جارہے تھے۔ دو سال سے صدیق کپن جیل میں ہیں۔ کپن کی کہانی ضمانت ملنے کی کہانی نہیں ہے بلکہ ان اذیتیوں کی کہانی ہے جس سے کپن کا خاندان دو سال سے گزررہا ہے۔ بغیر اسے جانے آپ اس ضمانت کے احکام کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتے۔
اس دوران گزشتہ سال 18؍ جون کو کپن کی ماں خدیجہ کٹی چل بسیں۔ وہ طویل عرصہ سے بیمار تھیں اور بیٹے کے گھر آنے کی راہ دیکھتی رہیں۔ فروری 2021 میں سپریم کورٹ نے کپن کو پانچ دنوں کی ضمانت دی تاکہ وہ اپنی بیمار ماں سے مل سکیں۔ قبل ازیں جنوری2021 میں ویڈیو کال سے ماں کو دیکھنے کی اجازت ملی تھی تب وہ بستر پر بیمار پڑی تھیں۔ میڈیا رپورٹ میں شائع ہوا کہ بیمار ماں اپنے بیٹے کی آواز کو نہ سن سکیں اور نہ اسکرین کی طرف دیکھ سکیں، اتنی بیمار تھیں۔ بعد میں سپریم کورٹ نے انسانی بنیاد پر کپن کو ماں سے ملنے کی اجازت دی مگر میڈیا، سوشل میڈیا یا عوام سے بات کرنے پر پابندی رہی۔ کپن کو یو پی پولیس کے افسروں کے ساتھ کیرالا بھیجا گیا تھا۔ افسروں کو گھر کے باہر پہرہ دینے کی اجازت تھی مگر کپن جب ماں سے ملاقات کے لیے اندر جائیں تب ساتھ میں جانے سے منع کیا گیا تھا۔ یو پی حکومت کی طرف سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا تھا کہ کپن اس موقع کا فائدہ اٹھا کر اپنے لیے جٹانے کی کوشش کریں گے، اس لیے عدالت نے پابندیاں لگائی تھیں۔ سبل نے عدالت میں کہا تھا کہ ڈاکٹروں کے مطابق کپن کی ماں دو یا تین دن سے زیادہ شاید نہ جی پائیں۔ مہتا نے اس وقت کہا تھا کہ کپن کی ماں فون پر اپنے بیٹے کو پہچا ن نہیں پاتی ہیں اور ایمرجنسی کا ماحول بنایا جارہاہے۔ جسٹس بوبڑے نے جواب میں کہا تھا کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ ہم ایک ماں کی بات کررہے ہیں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ کوئی آدمی چاہے وہ کوئی بھی ہو اپنی ماں کی حالت کے بارے میں جھوٹ بولے گا۔ 18؍ جون 2021 کو کپن کی ماں کا دیہانت ہوگیا۔
صدیق کپن اپنی درخواستوں میں کہتے رہے کہ میں صحافی ہوں۔ میں نے پریس کونسل آف انڈیا کے مقررہ دائرے سے تجاوز کرکے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے۔ میں بے قصور ہوں۔ ان کے ساتھ عتیق الرحمن، مسعود احمد اور عالم بھی جیل میں بند ہیں۔ اس سال 15 اگست کو ان کی بیٹی مہناز کپپن کا ویڈیو سامنے آیا تھا جس میں 9سال کی مہناز کہہ رہی ہیں کہ وہ ایک صحافی کی بیٹی ہیں جنہیں جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔
امید ہے مہناز کپن جلد اپنے صحافی والد سے مل سکیں گی۔ ہائوسنگ سوسائٹی کے لوگ اس خبر پر بھی بحث نہیں کریں گے اور واٹس ایپ گروپ میں کرتویہ پتھ کی تصاویر شیئر ہورہی ہوں گی جیسے کبھی سڑک دیکھی ہی نہ ہو۔ صدیق کپن عتیق الرحمن، مسعود احمد اور عالم پر امن بگاڑنے کا الزام متھرا کی عدالت میں خارج ہوگیا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ پولیس چھ ماہ میں تحقیقات مکمل کرنے میں ناکام رہی۔ یو پی پولیس نے اپریل 2021 میں 5ہزار صفحات کی چارج شیٹ دائر کی تھی۔ کپن کو کووڈ بھی ہوا تھا۔ تب کیرالا کے چیف منسٹر نے یو پی کے چیف منسٹر کو مکتوب تحریر کیا تھا کہ اچھے اسپتال میں علاج ہو۔ کیرالا کے ارکان پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو مکتوب تحریر کیا تھا کہ اس کے علاج کے لیے فوری سماعت ہو۔ کپن کی بیوی ریحانہ کپن نے بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھا تھا کہ کپن کو بستر سے باندھ دیا گیا ہے۔ وہ بیت الخلاء نہیں جاسکتے اور کھانا نہیں کھاسکتے۔ انہیں کئی طرح کی بیماریاں ہیں۔ پھر انہیں ایمس لایا گیا لیکن وہاں سے جلد ہی یو پی لے جایا گیا۔ خاندان والوں کو اسپتال میں ملنے نہیں دیا گیا اور علاج پورا بھی نہیں ہوا تھا کہ واپس لے جایا گیا۔ یہ خاندان کا الزام تھا۔
دو سال میں بھی یہ کیس اپنے انجام پر نہیں پہنچا۔ کووڈ کے دوران کپن کی بیوی ریحانہ کپن نے جس طرح کے الزامات عائد کیے، وہ اتنے معمولی نہیں تھے ورنہ ریحانہ کپن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو مکتوب تحریر نہیں کرتیں۔ کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹ نے بھی سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی اور کہا کہ 28؍ اپریل2021 کو سپریم کورٹ نے ہدایت دی تھی کہ کپن کو ٹھیک ہونے کے بعد اسپتال سے ڈسچارج کیا جائے گا لیکن کووڈ پازیٹیو ہونے کے باوجود بھی انہیں اسپتال سے نکال کر جیل بھیج دیا گیا۔6؍ مئی 2021 کی نصف شب کو اسپتال سے چھٹی دے کر کپن کو ایمس سے متھرا جیل بھیجا گیا۔ کپن کی لڑائی ان کی بیوی اور کیرالا کے سینکڑوں صحافیوں نے متحد ہو کر لڑی ہے۔
ریحانہ کپن کو اپنے شوہر صدیق کپن کے کام پر اتنا اعتاد تھا اور اس کے تئیں احترام تھا کہ صدیق کا مقدمہ لڑتے لڑتے صحافی بن گئیں۔ دو دن پہلے نیوز منٹ میں ان کا انٹرویو شائع ہوا ہے کہ صدیق کا کیس لڑنے کے لیے ان کے پاس وکیل اور صحافی بننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیس کیا ہوتا ہے مقدمہ کی سماعت کے مرحلے کیا ہوتے ہیں ریحانہ یہ سب سمجھنے لگیں۔ ایڈیٹرس گلڈ نے بھی کپن کے ساتھ اسپتال میں ہوئی ناانصافی پر بیان جاری کیا تھا۔ ساتھ کئی لوگوں نے دیا مگر کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹ شروع سے ہی اپنے صحافی ساتھی کے ساتھ کھڑی رہی۔ کپن اسی یونین کے دہلی یونٹ کے سکریٹری ہیں۔ کیرالا کے سو سے زائد صحافی، فوٹوگرافر مل کر جدوجہد کرنے لگے۔ گرفتاری کے دن ہی صحافیوں نے وکیل کپل سبل سے رابطہ کیا تھا۔ سبل اور وکیل ہریش بیرین کی مدد سے مقدمہ لڑنا شروع کیا۔ ان کی پہل پر سپریم کورٹ نے یو پی پولیس کو نوٹس دیا کہ کپن محفوظ رہے۔ شوگر کے مریض کپن کے علاج کے لیے بھی احکام جاری ہوئے۔ اس کیس کا مقدمہ لکھنو کی خصوصی عدالت میں چلے گا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ آج کپن بری نہیں ہوئے، مشروط ضمانت ملی ہے لیکن یہ کیس اتنا معمولی نہیں ہے، اس طرح کی گرفتاریوں پر تمام مثالیں آپ کے سامنے ہیں کہ کیسے فرضی طریقے سے این ایس اے لگاکر ڈاکٹر کفیل خان کو مہینوں جیل میں رکھا گیا۔ یو اے پی اے، این ایس اے اور غداری کی دفعہ 124A لگاکر اوآز اٹھانے والوں کو اذیتیں دی گئیں۔ آپ کپن، کفیل خان، اکھل گوگوئی، دشا روی ان سب معاملوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرسکتے ہیں۔ اکھل گوگوئی کو 12؍ ستمبر2019 کو گرفتار کیا تھا۔
ان پر 2009 کے معاملے میں این ایس اے لگادیا گیا۔ دیڑھ سال سے زائد عرصہ تک جیل میں رہنے کے بعد جون 2021 میں اکھل گوگوئی کو این آئی اے عدالت نے رہا کردیا۔ این آئی اے عدالت کے جج پرانجل داس نے اپنے فیصلے میںکہا کہ ریکارڈ پر جو دستاویز پیش کیے گئے ہیں اور جن پر بحث ہوئی ہے، میں غور و خوص کرکے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان سبھی ثبوتوں کی بنیاد پر نہیں کہا جاسکتا کہ ہندوستان کے اتحاد، سالمیت اور اقتدار اعلیٰ کو خطرہ پہنچانے کے ارادے سے دہشت گرد کارروائی کی گئی یا لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کے ارادے سے دہشت گرد کارروائی کی گئی۔ اس لیے اکھل گوگوئی کے خلاف الزامات وضع کرنے کا کوئی کیس نہیں بنتا ہے۔ اکھل گوگوئی کے علاوہ جگجیت گوہین اور بھوپین گوگوئی بھی بری کردیے گئے۔
سب آپ کے سامنے ہے۔ فرضی بنیاد پر ایسی دفعات عائد کی جاتی ہیں کہ لوگوں کو دو دو سال جیل میں ڈال دیا جائے اور اس کی اطلاع آپ تک نہ پہنچے، بحث نہ ہو، اس کے لیے سو انتظام کیے جاتے ہیں۔ اس لیے صدیق کپن کی مشروط ضمانت کا حکم صرف ایک کیس کا حکم نہیں ہے مگر یہ بھی کہنا ضروری ہے کہ تمام کیس میں ضمانت ملتی جارہی تھی لیکن ان سب کے بعد بھی کپن کی طرف بحث کرنے والوں کی توجہ نہیں جارہی تھی۔ کپن کا اندھیرا کسی کو نظر نہیں آرہا تھا۔
کیوں کہ ہر شام گودی میڈیا کے ذریعہ ملک کو شام ساڑھے سات بجے کا ایسا مصنوعی اُجالا دکھایا جاتا ہے ، یہ کرتویہ پتھ ہے۔ ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ نام بدل دینے سے نوآباد کاری دور کی ذہنیت سے نجات ملی ہے۔ ایک نچلے متوسط طبقے کا ملک شام کے وقت شاندار سجاوٹ کرتا ہے تا کہ نوآبادکاری ذہنیت سے نجات کی راست نشریات ہوسکے۔ تقریر ہوسکے۔ اگر یہ نوآبادیاتی ذہنیت سے نجات ہے تب پھر سوال کرنے، مظاہروں میں حصہ لینے، صحافت کرنے پر غداری سے لے کر دہشت گردی کی دفعات میں جیل میں سڑادینے کی ذہنیت کیا انگریزی حکومت کی ذہنیت نہیں ہے؟ ڈرانے دھمکانے کی اقتدار کی یہ ذہنیت آج بھی ہے اور عوام کو سڑک کا نام بدل کر تیقن دیا جاتا ہے کہ نوآبادکاری ذہنیت سے آزادی کا دن ہے۔ اس ذہنیت سے اسی وقت آزادی مل گئی جب لاکھوں ہندوستانیوںنے انگریزی کپڑوں کی ہولی جلادی تھی اور کھادی پہن لیا تھا۔ آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ سڑک کا نام بدل دینے سے نوآبادیاتی ذہنیت سے نجات ملتی ہے یا ان دفعات کو ختم کردینے سے جسے انگریز اس لیے لائے تھے کہ کوئی ہندوستانی ‘ بھارت ماتا کی جئے تک نہ بول سکے۔ طرح طرح کی اطلاعات کے سپاہیوں کے جیل میں ڈال کر آپ شہریوں کے لیے ایک اندھیرا پتھ بنایا جارہا ہے وہ دکھائی نہ دے اس لیے اس طرح کے کرتویہ پتھ سجایا جارہا ہے۔ یہاں آئے تو سیلفی ضرور لیں۔
صدیق کپن کی ضمانت کی خبر بتاتی ہے کہ اقتدار کی نوآبادکاری ذہنیت آج بھی برقرار ہے اور آج بھی صحافی سے لے کر سماجی کارکن اس ذہنیت کے شکار ہورہے ہیں۔ ورنہ کرتویہ پتھ کو آزادی کی علامت بتانے سے پہلے غداری کی دفعہ ختم کردی جاتی۔ حکومت اگر اس ذہنیت سے نجات کے تئیں ایماندار ہوتی تو فرضی طریقے سے این ایس اے لگانے کی بات پر افسوس ظاہر کرتی۔ اسی 4؍ اگست کو جب ہم نے پرائم ٹائم میں کپن کے کیس کو کوور کیا تھا تب کوئی امید نہیں تھی کہ ضمانت بھی ملے گی، اب بھی کپن کے ساتھ گرفتار ہوئے عتیق الرحمن اور باقی ساتھیوں کی ضمانت باقی ہے۔ آج کی سماعت میں یو پی حکومت کی طرف سے مہیش جیٹھ ملانی ضمانت کی مخالفت کررہے تھے۔ اپنے حلف نامے میں یو پی حکومت نے کہا کہ کپن کے انتہاپسند تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں جس کا ایک ملک دشمن ایجنڈا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ کپن کی طرف سے بحث کرتے ہوئے کپل سبل نے کہا کہ پی ایف آئی کوئی ممنوعہ یا دہشت گردی تنظیم نہیں ہے۔ وہ اکتوبر 2020 سے جیل میں ہیں۔ وہ صحافی ہیں اور ہاتھرس کے واقعہ کی کورکرنے کے لیے جارہے تھے۔
چیف جسٹس نے یو پی سرکار سے پوچھا کہ کیا کپن کے پاس سے کوئی بم ملا ہے؟ کوئی ایسا مواد ملا جس سے لگتا ہو کہ وہ سازش رچ رہا تھا تب یو پی اے حکومت کے وکیل مہیش جیٹھ ملانی نے کہا کہ کپن کے پاس سے کوئی بم نہیں ملا۔ اس کی کار سے کچھ لٹریچر ملا ہے۔ اس پر کپل سبل نے کہا کہ لٹریچر تھا کہ ہاتھرس کی متاثرہ کو انصاف دلانا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کپن دو سال سے جیل میں ہے۔ لگ رہا ہے کہ ابھی معاملہ الزامات وضع کرنے کے مرحلے میں نہیں پہنچا ہے۔ تب عدالت نے کہا کہ ہم کپن کو ضمانت دے دیں گے۔ کچھ شرطیں لگائیں گے کہ کپن مقامی پولیس کی حدود میں ہی رہیں گے۔ سبل نے کہا کہ وہ کیرلا کے ہیں۔ دہلی میں کام کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کپن دہلی میں 6مہینے رہیں گے اور بعد میں کیرالا جاسکیں گے۔ پاسپورٹ سرنڈر کریں گے اور ہر ٹرائل پر خود یا وکیل کے ذریعہ پیش ہوں گے۔چیف جسٹس نے جب پوچھا کہ ہر کسی کو اظہار خیال کی آزادی ہے۔ کپن دکھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہاتھرس کی متاثرہ کو انصاف ملنا چاہیے اور ان کی آواز اٹھانا چاہتے ہیں۔ کیا یہ قانون کی نگاہ میں جرم ہے؟ دی وائر نے لکھا کہ اس سوال پر یو پی حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
یہ وہ کیس ہے جس میں کسی کو ضمانت ملی ہے تو ایسے ہی نہ جانے کتنے کیسس میں ضمانت کا انتظار ہے اور نہ جانے کتنے ایسے لوگ اس طرح سے جیل میں ڈالے جانے والے ہیں۔