مذہبنکاح

مسنون نکاح، اہمیت اور تقاضے

اللہ تعالیٰ نےنکاح کاجو اسلامی نظام ہم سب کو عطا فرمایا ہے وہ بہت ہی متوازن اورمعتدل ہے۔اس میں ہر ہر پہلو کی رعایت رکھی گئی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو آسان نکاح کی ترغیب دلائی اور خود عملی نمونہ پیش فرمایا۔

حافظ طیب عبد السلام قاسمی
رکن اساسی وفاق العلماء تلنگانہ

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

اللہ تعالیٰ نےنکاح کاجو اسلامی نظام ہم سب کو عطا فرمایا ہے وہ بہت ہی متوازن اورمعتدل ہے۔اس میں ہر ہر پہلو کی رعایت رکھی گئی ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو آسان نکاح کی ترغیب دلائی اور خود عملی نمونہ پیش فرمایا،قرآن مجید میں ہے ’’رسول صلی اللہ علیہ وسلم اُن پرسے وہ بوجھ اتارتے ہیں جو اُن پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتے ہیں جن میں وہ جگڑے ہوئے تھے‘‘(اعراف ۵۷) رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام رسم ورواج کو مٹادیاتھا،لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے نکاح جیسے بابرکت عمل کواپنے خواہشات کے تابع بنالیا۔

اسلام میں شادی یعنی نکاح بہت آسان اور کم خرچ عمل ہے۔لیکن امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ دین سے دوری،خواہشات کی پیروی،غیروں کی اندھی تقلید،دکھاوا،عیش پرستی،دنیاداری کے نتیجہ میں جہاں بہت سے احکام الٰہی کوپس پشت کیاہے وہیں نکاح جیسے بامقصد عمل کوبھی اپنے خواہشات کے تابع کرکے غلط مثال قائم کرچکا ہے۔ جب کہ اسلام میں نکاح عبادت ہے۔حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت اور ایک دوسری جگہ آدھا ایمان قرار دیا، لیکن اِدھر مسلم معاشرے کو لا مذہبیت، فیشن پرستی، ریاکاری، فضول خرچی، عیش و عشرت نے دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر بالکل کھوکھلا کر دیا ہے۔ اب ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔بے مقصد زندگی گذارنے کے نتیجہ میں ہمارے اعمال نے شبیہ کو بہت زیادہ نقصان پہچایا ہے۔ شادی بیاہ کا معاملہ تو اس قدر غلط راہ پر چل پڑا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔

پستی کا کوئی حد سے گذرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
(الطاف حسین حالی)

پھر سب سے خطرناک پہلویہ ہے کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں اُسے اچھا جانتے ہیں۔ رشتے ناطے سے منگنی تک ہم غلط کو بھی صحیح سمجھ کررہے ہیں۔ اسلام میں ابتدا سے ہی عام تھا کہ ’’لڑکے والے، لڑکی کے والدین کو شادی کی نیت سے پیغام بھجوا تے تھے۔ آپسی گفتگو اور مشورے سے رشتے طے ہو جاتے تھے‘‘۔آج کل شادی کا یہ پہلا مرحلہ ہی بڑا خطرناک ہو چکا ہے۔ایک تو لڑکی کا ہر طرح سے امتحان لیا جاتا ہے۔ دوسرے ماں باپ کی دولت کا بھی اندازہ لگایا جاتا ہے۔ رنگ، قد، خوبصورتی، تعلیم، عمر، نوکری جیسے پیمانوں پر لڑکی کو پرکھا جاتا ہے۔ لڑکے والے، ایک انداز ے کے مطابق کم از کم 10-12 لڑکیوں کو تو ضرور فیل کرتے ہیں۔ اس دیکھنے دکھانے میں مہمان نوازی اور آؤ بھگت پر آنے والا صرفہ بھی خاصا ہوتا ہے۔ ان سب سے باربار گذرنے کے بعد جب کوئی لڑکی پسند آجاتی ہے تو پھر آگے کا معاملہ، منگنی میںسو ڈیڑھ سو افراد کی دعوت، دعوت بھی کوئی معمولی دعوت نہیں۔

لڑکے اس کے والدین، قریبی عزیزواقارب کی خدمت میں پیسوں کے علاوہ زیور،گھڑی، کپڑے جیسے تحفے تحائف بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقاریب میں اسراف وفضول خرچی دن بدن بڑھتے ہی جارہی ہے ’’مسلم معاشرہ میں شادی کے موقع پر دولت کے مظاہرے نے غریب اور متوسط خاندانوں کی شادی کو مسئلہ لاینحل بنا دیا ہے۔جس شان وشوکت کے لئے لاکھوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں اس میںکئی غریب لڑکیوں کی شادیاں انجام دی جاسکتی ہیں۔مال دار افراد کے علاوہ متوسط طبقہ کے لوگ بھی فضول خرچی کے عادی ہوچکے ہیں۔

دولت مند اسراف کا مظاہرہ کرکے غربت کا مذاق اڑاتے ہیں،آتش بازی،بینڈ باجوں کی گونج سنائی دیتی ہے تو سوچئے ان لڑکیوں پر کیا گذرتی ہوگی جن کے والدین بے غیرت نوجوانوں کےظالمانہ مطالبات پورے کرنے سے قاصر رہتے ہیں‘‘(خطبہ استقبالیہ بہ ضمن :مسنون نکاح مہم)ظلم کی انتہاء یہ بھی ہے کہ بعض لوگ صرف نکاح مسجد میںکرتے ہیں،باقی سارے کام وہی انجام دیتے ہیں جن کا ابھی ذکر ہوا،دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کودھوکا دیتےہیں،لیکن دوسری طرف مسلمانوں کا ایک طبقہ نکاح کی اس سنت کو سادگی سے شادی خانوں میں اور کچھ لوگ سنت کے عین مطابق مسجدوں میں کررہےہیں۔یہ خوش آئند بات ہے،سادگی سے نکاح اور مسجد میں نکاح کا انعقاد باعث برکت ہےحدیث شریف میں ہے ’’اعلنوا ھذا النکاح،واجعلوہ فی المساجد(ترمذی) لیکن مسجد میں نکاح کے موقع پرمساجد کا احترام ملحوظ رکھاجانا بھی بے حد ضروری ہے۔

آج امت مسلمہ پرفتن دورسے گذر رہی ہے،ایک طرف اسلام دشمن طاقتیں اسلام کومٹانےکی سازشیں کررہے۔ مسلمانوں کی جان ،مال،عزت آبرو،تہذیب ،شعائر اسلام الغرض ہر چیزکو نشانہ بنایا جارہا ہے۔دوسری طرف امت مسلمہ کا ایک بڑا طبقہ خود غرضی ،مادیت اورفریب دنیا کے جال میں پھنستا جارہا ہے۔اِس وقت امت مسلمہ کے ہر باشعور فرد کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی بھر پور سعی کرے ،اصلاح معاشرہ کا فریضہ ہر ایک کا ہے۔ورنہ اللہ تعالی کی نارضگی ہمارے حصہ میں آئے گی اور سماج میں برائیوں کو دیکھ کر خاموش تماشائی بنے کے نتیجہ میں خدا نخواستہ دنیا وآخرت کے غذا بات میں مبتلا ہوجائیں گے، اللہ تعالی ہمیں اس وبال سے بچائے آمین۔ اس لئے ہم میں ہر ایک اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ ماں باب،دادا دادی،نانا نانی، تایا، چچا، پھوپو، ماموں، خالہ، بھائی بہن سب پر ذمہ داری ہے کہ نکاح کے موقع پرمسنون نکاح کی کوشش کریں،قرآن مجید میں ہے ائے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو دوزخ کے عذاب سے بچائو(سورۃالتحریم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’کلکم راع وکلکم مسئوول عن رعیتہ‘‘تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے،اور تم میں سے ہرایک سے اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا۔(بخاری)مسلم معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ نکاح مسنون طریقہ سے کریں۔لوگوں کو خبر دار کیا جائے کہ کامیابی اور نجات اِسی اسلامی نظام نکاح کو اپنانے میں ہے۔رسم ورواج کے راستے پر چلوگے تو بے برکتی ہے،پریشانیاں ہیں،دقتوں کا سامنا ہے،اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کا ذریعہ ہے۔ معاشرہ میں بااثر لوگ بالخصوص علماء وعالمات،قاضی صاحبان،أئمہ کرام، مشائخین کے علاوہ عمائدین ملت اسلامیہ اس برائی کے خاتمہ میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں،ایسی شادیوں کا بائکاٹ کریں،وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ان برائیوں کی حوصلہ شکنی میں اپنا اہم کردار ادا کریں۔
٭٭٭