طنز و مزاحمضامین

چھیننے والو دوسروں کی خوشی…

چند دن قبل ہم نے عجب منظردیکھا، مہاراشٹرا کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شنڈے مائیک پر کچھ کہہ رہے تھے،تب ہی ان کے پہلو میں بیٹھے نائب وزیراعلیٰ دیونندر فڈ نویس نے اچانک ایسے مائیک چھینا جیسے کوئی کسی کے منہ سے نوالہ چھینتاہے ، بیچارے شنڈے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ...یہ ہے تو چند سکنڈوں کا منظر ، لیکن ایک طویل درد بھری کہانی بیان کرتا ہے ۔ عہدے کی مناسبت سے فڈ نویس ، نائب وزیراعلیٰ ہیں ،انہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ وہ سرعام ریاست کے وزیراعلیٰ کو اس طرح ذلیل نہیںکرسکتے ہیں ۔ وہ غالباً دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ’’ وزیراعلیٰ نہ ہوکر بھی وزیراعلیٰ تو میں ہی ہوں ...‘‘فڈ نویس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ جب انہوں نے سنا کہ ایکناتھ شنڈے کو وزیراعلیٰ بنایا جارہا ہے تو ان کی آنکھوں میںآنسو آگئے تھے...یہ وہی دیویندر فڈ نویس ہیں جنہوں نے کچھ دن قبل ایکناتھ شنڈے اور دیویندر فڈ نویس کی جوڑی کے بارے میں کہا تھا ’’ چند حلقوں کی جانب سے یہ کہا جارہاہے کہ مہاراشٹرا میں سیاسی اتھل پتھل کے پیچھے ’’ای ڈی ‘‘ہے،بات درست ہے ،مہاراشٹرا میں ’’ای ڈی‘‘ کی ہی تو حکمرانی ہے ۔’’ای‘‘ فار ایکناتھ شنڈے اور’’ ڈی‘‘ فار فڈ نویس ...کسے پتا تھا ’’ ڈی‘‘بہت جلد ’’ ای ‘‘سے مائک چھین کر’’ای ڈی‘‘کی دھجیاں اڑائے گا۔ آج جد ھربھی دیکھیے ادھر چھیننا اور جھپٹنا ہی نظر آتا ہے ...گیس سلنڈرکی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے غریبوں کے چولہوں کو بجھایا ہے ،گویا کہ حکومت نے ان سے دو وقت کی روٹی چھینی ہے ۔ آج کوئی اقتدار چھیننا چاہتا ہے تو کوئی قرار چھیننا چاہتا ہے ، کوئی خواب چھیننا چاہتا ہے تو کوئی حق چھیننا چاہتا ہے ، کہیںنوجوانوں سے ملازمت چھینی جا رہی ہے تو کہیں کوئی غریب کے منہ سے نوالہ چھینا جارہا ہے ...کوئی کسی کی ہنسی چھیننے کے درپے ہے تو کوئی کسی کی خوشی چھیننا چاہتا ہے ۔ چھیننے والو دوسروں کی خوشی تم کبھی مسکرا نہیں سکتے کاظم جرولی لیکن اس کو کیا کیجیے کہ کام چور اور بے ضمیر حضرات چھیننے ہی پر یقین رکھتے ہیں ،فی زمانہ سیاست دانوں کوجیتنے سے زیادہ مزہ چھیننے پر آرہا ہے : یہ فیصلہ بھی مرے دست با کمال میں تھا جو چھیننے میں مزہ ہے وہ کب سوال میں تھا سلیم شاہد عشق میںایک دوسرے کا قرار اور چین چھین لینا تو عام بات ہے ،لیکن آج پیار کرنے والے ایک دوسرے کی دولت ہی پر کیا منحصر ہے عزت تک چھین رہے ہیں ۔ایک دور وہ بھی تھا کہ محبت میں عاشق حضرات اس قدر اندھے ہوجایا کرتے تھے کہ ’’ جدھر دیکھوں ، تیر ی تصویر نظر آتی ہے‘‘ کا نغمہ گنگناتے پھرا کرتے تھے اور آج نامراد عاشقوں کا یہ عالم ہے کہ دوسری کو دیکھیں تو پہلی بھول جاتے ہیں ۔کل یہ ہوتا تھا کہ جس عاشق کو معشوقہ ملتی وہ خوشی سے پاگل ہوجاتا اورجس کو نہیں ملتی وہ جدائی سے پاگل ہوجاتا یعنی عاشق کا پاگل ہونا لازمی تھا لیکن آج کسی کی محبت میں پاگل ہونے والے پر لوگ ہنسا کرتے ہیں ۔محبت جب دیوانگی کی تمام حدوں کو پار کرجاتی ہے تو پھرپیار کرنے والایہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ’’ تجھ پر میرا اختیار نہ سہی، حق جتانے کا مگر حق نہ چھیننا۔‘‘محبت میں دل دیا اور لیا جاتا ہے لیکن سنا ہے کہ کبھی دل چھین لیا بھی جاتا ہے : ہنسی ہنسی میں مرے دل کو چھیننے والے یہ انتقام محبت تھی دلبری تو نہ تھی اولاد علی رضوی پولیس چوکی پر ایک شخص کی تلاشی کے دوران جیب سے کالے رنگ کی ایک ڈبیا نکلی...پولیس والے نے وہ ڈبیا طلب کی تو بندے نے وہ ڈبیا دینے سے انکار کر دیا پولیس والے نے ڈبیا چھیننا چاہی تو بندے نے وہ ڈبیا مٹھی میں بھینچ لی اور ڈبیا دینے سے صاف انکار کر دیا۔پولیس والے کا شک اب یقین میں بدل چکا تھا کہ ڈبیا میں کوئی نشہ آور پاؤڈر ،چرس یا حشیش ہے۔پولیس انسپکٹر کو بلایا گیا اور اس شخص کو تھانے لے جایا گیا اس کے باوجود یہ شخص ڈبیا پولیس کے حوالے کرنے پر کسی طور راضی نہیں تھا۔ پولیس انسپکٹر نے پستول کنپٹی پر رکھا اور اس بندے سے وہ ڈبیا طلب کی لیکن سارا سٹاف یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بندے نے اب بھی ڈبیا دینے سے انکار کر دیا.... اب یہ چھوٹی سی ڈبیا ایک راز بن چکی تھی پولیس عہدہ داروں کی چھٹی حس پھڑک اٹھی تھی، اب وہ سوچ رہے تھے شاید ڈبیا میں کوئی قیمتی ہیرا ہو گا، بندے کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس سے وہ ڈبیا چھین لی گئی... پولیس والے بندے کو جیل میں بند کر کے ڈبیا لیکر باہر آئے اور اسے کھولا تو اندر دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ...ڈبیا کے اندر ایک نحیف سا لال بیگ تھا جو غالبا دم گھٹنے کی وجہ سے تقریباً مر ہی چکا تھا۔ پولیس انسپکٹر نے سخت لہجے میں پوچھا:’’ سچ سچ بتاؤ، تم نے یہ کیوں رکھا تھا جیب میں؟‘‘ اس شخص نے کہا:’’سر! یہ بیوی کو ڈرانے کے لیے ہے، جس نے میرا سکھ چین چھین لیا ہے ۔‘‘اور پھر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ خواتین کے گلے سے طلائی چین اور پرس چھننے کے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہی رہتے ہیں،ان میں سے ایک دلچسپ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک 70 سالہ بزرگ خاتون چور پر بھاری پڑ گئیں اور چور کو دم نہ ہونے کے باوجود دم دبا کربھاگناپڑا...وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ڈاکو نے خاتون سے بیاگ چھیننے کی حماقت کی تو خاتون نے بیاگ نہیں چھوڑا، بزرگ خاتون چھینا جھپٹی کے دوران منہ کے بل زمین پر گر گئیں لیکن بیاگ کو مضبوطی سے تھامے رکھا، ادھر چور بھی بیاگ چھیننے کی کوشش کرتا رہا....لیکن خاتون نے گرنے کے باوجود ہمت نہیں ہاری،بالآخر تھک ہار کر چور بیاگ چھینے بغیر الٹے پیر بھاگنے پر مجبور ہوگیا.... ہمیںچھیننے کا وہ دلچسپ واقعہ بھی یاد آرہا ہے جب سلمان خان نے 24 اپریل 2019 میں مبینہ طور پر ایک صحافی کا موبائل فون چھین لیاتھا...جو ان کی تصویر لینے کی کوشش کر رہا تھا۔بات اس حد تک پہنچی کہ مقامی عدالت نے صحافی کا فون چھیننے کے واقعے پر اداکار سلمان خان کو طلب کرلیا، جس پر سلمان خان نے ممبئی ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی کہ ان کے خلاف طلبی کا نوٹس خارج کیا جائے...اس کے بعد کیا ہوا ہم نہیں جانتے لیکن اس واقعے سے ہمیں یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ’’ اونچے لوگ‘‘ بھی چھیننے کو’’ اونچی پسند‘‘ سمجھتے ہیں ۔ ایک پڑوسی ملک کی پولیس کے بارے میں یہ لطیفے بڑامشہور ہے کہ اگر وہ ہرن کو بھی پکڑ لے تو وہ بھی خود کو ہاتھی قراردینا شروع کردے...اسی ملک کے ہونہار افسران نے ایک ایسے ’’ ملزم‘‘ کو پیش کیا جو سالانہ 21 کروڑ روپے ٹیکس جمع کرواتا ہے،لیکن اس پر چند ہزار روپیوںکا موبائل فون چھیننے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔جج صاحب نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:سالانہ 21 کروڑ روپے ٹیکس حکومتی خزانے میں جمع کروانے والے تاجر کے خلاف موبائل فون چھیننے کا مقدمہ پولیس کی کارکردگی اور سیاسی مقاصد میں استعمال ہونے کی بدترین مثال ہے۔‘‘ دوستو!موبائل کا ہوا میں لہراتے ہوئے سر راہ چلنا بڑا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے...صدقہ و خیرات کے تعلق سے کہا گیا ہے کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہیں ہونی چاہیے لیکن آج کل موبائل فون اس صفائی سے چرائے جارہے ہیں کہ ایک ہاتھ سے موبائل جارہا ہے تو دوسرے ہاتھ کو تو کیا صاحب موبائل کو تک خبر نہیں ہورہی ہے ....چمن بیگ کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا ،انہیں موبائل فون کے چھینے جانے کا اس وقت پتا چلا جب وہ ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے گھر پہنچے اور کسی کوکال کرنا چاہا ...اس جدید ٹیکنیک کو ہوا سے ہوا میں وار کرنا کہا جارہا ہے ۔ ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں کہ آدمی خود کو خود سے چھین لیتا ہے ...مشکوک حیدرآبادی نے اپنی قیمتی کار چوری ہوجانے کی رپورٹ لکھوا دی، پولیس نے فوری ایکشن لیتے ہوئے باریک بینی سے اپنے تمام تر تجربات کی روشنی میں مشکوک کو شامل تفتیش رکھا۔دوران تفتیش مشکوک کو یہ کہنا پڑاکہ مجھ سے کوئی گاڑی چھینی نہیں گئی اور نہ ہی کوئی واردات ہوئی ہے، دراصل میرے اوپر قرض بہت ہوگیا ہے،قرضدار مجھے تنگ کر رہے تھے جس پر میں نے یہ ڈراما رچا...مشکوک کی گاڑی کسی نے نہیں چھینی تھی تو کیا ہوا ،انہوں نے پولیس سے اس کا قیمتی وقت چھینا تھا، لہٰذا پولیس نے گاڑی اور مشکوک کو تحویل میں لے کرکارروائی مکمل کرکے کورٹ میں پیش کر دیا... ایپل کا آئی فون مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگا بھی ہوتاہے ،کچھ عرصہ قبل نئی دہلی میں گرل فرینڈ کو مہنگا تحفہ دینے کے لیے آئی فون چھیننے کا انوکھا واقعہ سامنے آیا۔ عاشق اور اس کے دوست نے پارک سے گزرتے شہری کی گردن پر چاقو رکھ کر آئی فون چھین لیا ...اس کامیاب کوشش سے حوصلہ پاکرعاشق آوارہ اور دوست آوارہ ایک اور واردات انجام دینے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ پولیس نے انہیں دھر لیا... ملزمان کے مطابق ان کا ارادہ زیادہ پیسے اکھٹے کرکے ہِل اسٹیشن جانے کا تھا...ان دیوانوں کو پتا ہی نہیں تھا کہ کسی سے کوئی چیز چھین کر خوشیاں نہیں حاصل کی جاسکتی ہیں ۔ دنیا کے حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں ، اسی پس منظر میںسعودی عرب کے مفتی اعظم اور ممتاز عالم دین، علمی تحقیق و افتاء کونسل کے صدر الشیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے کہا تھا :’’شرمناک ڈھٹائی‘ سے دوچار دنیا ، انسان سے انسانیت چھیننا چاہتی ہے۔‘‘ آج دنیا میں جینا ہو توحق لینا اور چھیننا دونوں کا جاننا ضروری ہے،لیکن ہمیں یہ بات بھی ہرگز نہیں بھولنی چاہے کہ چھیننے کا حق صرف اسی کو ہے جو خالق کائنات ہے ،وہ جسے چاہتا ہے بادشاہت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے۔ ۰۰۰٭٭٭۰۰۰

حمید عادل

چند دن قبل ہم نے عجب منظردیکھا، مہاراشٹرا کے وزیراعلیٰ ایکناتھ شنڈے مائیک پر کچھ کہہ رہے تھے،تب ہی ان کے پہلو میں بیٹھے نائب وزیراعلیٰ دیونندر فڈ نویس نے اچانک ایسے مائیک چھینا جیسے کوئی کسی کے منہ سے نوالہ چھینتاہے ، بیچارے شنڈے اپنا سا منہ لے کر رہ گئے …یہ ہے تو چند سکنڈوں کا منظر ، لیکن ایک طویل درد بھری کہانی بیان کرتا ہے ۔ عہدے کی مناسبت سے فڈ نویس ، نائب وزیراعلیٰ ہیں ،انہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ وہ سرعام ریاست کے وزیراعلیٰ کو اس طرح ذلیل نہیںکرسکتے ہیں ۔ وہ غالباً دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ’’ وزیراعلیٰ نہ ہوکر بھی وزیراعلیٰ تو میں ہی ہوں …‘‘فڈ نویس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ جب انہوں نے سنا کہ ایکناتھ شنڈے کو وزیراعلیٰ بنایا جارہا ہے تو ان کی آنکھوں میںآنسو آگئے تھے…یہ وہی دیویندر فڈ نویس ہیں جنہوں نے کچھ دن قبل ایکناتھ شنڈے اور دیویندر فڈ نویس کی جوڑی کے بارے میں کہا تھا ’’ چند حلقوں کی جانب سے یہ کہا جارہاہے کہ مہاراشٹرا میں سیاسی اتھل پتھل کے پیچھے ’’ای ڈی ‘‘ہے،بات درست ہے ،مہاراشٹرا میں ’’ای ڈی‘‘ کی ہی تو حکمرانی ہے ۔’’ای‘‘ فار ایکناتھ شنڈے اور’’ ڈی‘‘ فار فڈ نویس …کسے پتا تھا ’’ ڈی‘‘بہت جلد ’’ ای ‘‘سے مائک چھین کر’’ای ڈی‘‘کی دھجیاں اڑائے گا۔
آج جد ھربھی دیکھیے ادھر چھیننا اور جھپٹنا ہی نظر آتا ہے …گیس سلنڈرکی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے غریبوں کے چولہوں کو بجھایا ہے ،گویا کہ حکومت نے ان سے دو وقت کی روٹی چھینی ہے ۔ آج کوئی اقتدار چھیننا چاہتا ہے تو کوئی قرار چھیننا چاہتا ہے ، کوئی خواب چھیننا چاہتا ہے تو کوئی حق چھیننا چاہتا ہے ، کہیںنوجوانوں سے ملازمت چھینی جا رہی ہے تو کہیں کوئی غریب کے منہ سے نوالہ چھینا جارہا ہے …کوئی کسی کی ہنسی چھیننے کے درپے ہے تو کوئی کسی کی خوشی چھیننا چاہتا ہے ۔
چھیننے والو دوسروں کی خوشی
تم کبھی مسکرا نہیں سکتے
کاظم جرولی
لیکن اس کو کیا کیجیے کہ کام چور اور بے ضمیر حضرات چھیننے ہی پر یقین رکھتے ہیں ،فی زمانہ سیاست دانوں کوجیتنے سے زیادہ مزہ چھیننے پر آرہا ہے :
یہ فیصلہ بھی مرے دست با کمال میں تھا
جو چھیننے میں مزہ ہے وہ کب سوال میں تھا
سلیم شاہد
عشق میںایک دوسرے کا قرار اور چین چھین لینا تو عام بات ہے ،لیکن آج پیار کرنے والے ایک دوسرے کی دولت ہی پر کیا منحصر ہے عزت تک چھین رہے ہیں ۔ایک دور وہ بھی تھا کہ محبت میں عاشق حضرات اس قدر اندھے ہوجایا کرتے تھے کہ ’’ جدھر دیکھوں ، تیر ی تصویر نظر آتی ہے‘‘ کا نغمہ گنگناتے پھرا کرتے تھے اور آج نامراد عاشقوں کا یہ عالم ہے کہ دوسری کو دیکھیں تو پہلی بھول جاتے ہیں ۔کل یہ ہوتا تھا کہ جس عاشق کو معشوقہ ملتی وہ خوشی سے پاگل ہوجاتا اورجس کو نہیں ملتی وہ جدائی سے پاگل ہوجاتا یعنی عاشق کا پاگل ہونا لازمی تھا لیکن آج کسی کی محبت میں پاگل ہونے والے پر لوگ ہنسا کرتے ہیں ۔محبت جب دیوانگی کی تمام حدوں کو پار کرجاتی ہے تو پھرپیار کرنے والایہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے ’’ تجھ پر میرا اختیار نہ سہی، حق جتانے کا مگر حق نہ چھیننا۔‘‘محبت میں دل دیا اور لیا جاتا ہے لیکن سنا ہے کہ کبھی دل چھین لیا بھی جاتا ہے :
ہنسی ہنسی میں مرے دل کو چھیننے والے
یہ انتقام محبت تھی دلبری تو نہ تھی
اولاد علی رضوی
پولیس چوکی پر ایک شخص کی تلاشی کے دوران جیب سے کالے رنگ کی ایک ڈبیا نکلی…پولیس والے نے وہ ڈبیا طلب کی تو بندے نے وہ ڈبیا دینے سے انکار کر دیا پولیس والے نے ڈبیا چھیننا چاہی تو بندے نے وہ ڈبیا مٹھی میں بھینچ لی اور ڈبیا دینے سے صاف انکار کر دیا۔پولیس والے کا شک اب یقین میں بدل چکا تھا کہ ڈبیا میں کوئی نشہ آور پاؤڈر ،چرس یا حشیش ہے۔پولیس انسپکٹر کو بلایا گیا اور اس شخص کو تھانے لے جایا گیا اس کے باوجود یہ شخص ڈبیا پولیس کے حوالے کرنے پر کسی طور راضی نہیں تھا۔
پولیس انسپکٹر نے پستول کنپٹی پر رکھا اور اس بندے سے وہ ڈبیا طلب کی لیکن سارا سٹاف یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ بندے نے اب بھی ڈبیا دینے سے انکار کر دیا….
اب یہ چھوٹی سی ڈبیا ایک راز بن چکی تھی پولیس عہدہ داروں کی چھٹی حس پھڑک اٹھی تھی، اب وہ سوچ رہے تھے شاید ڈبیا میں کوئی قیمتی ہیرا ہو گا، بندے کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اس سے وہ ڈبیا چھین لی گئی… پولیس والے بندے کو جیل میں بند کر کے ڈبیا لیکر باہر آئے اور اسے کھولا تو اندر دیکھ کر سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں …ڈبیا کے اندر ایک نحیف سا لال بیگ تھا جو غالبا دم گھٹنے کی وجہ سے تقریباً مر ہی چکا تھا۔
پولیس انسپکٹر نے سخت لہجے میں پوچھا:’’ سچ سچ بتاؤ، تم نے یہ کیوں رکھا تھا جیب میں؟‘‘
اس شخص نے کہا:’’سر! یہ بیوی کو ڈرانے کے لیے ہے، جس نے میرا سکھ چین چھین لیا ہے ۔‘‘اور پھر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔
خواتین کے گلے سے طلائی چین اور پرس چھننے کے واقعات آئے دن رونما ہوتے ہی رہتے ہیں،ان میں سے ایک دلچسپ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک 70 سالہ بزرگ خاتون چور پر بھاری پڑ گئیں اور چور کو دم نہ ہونے کے باوجود دم دبا کربھاگناپڑا…وائرل ہونے والی اس ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ڈاکو نے خاتون سے بیاگ چھیننے کی حماقت کی تو خاتون نے بیاگ نہیں چھوڑا، بزرگ خاتون چھینا جھپٹی کے دوران منہ کے بل زمین پر گر گئیں لیکن بیاگ کو مضبوطی سے تھامے رکھا، ادھر چور بھی بیاگ چھیننے کی کوشش کرتا رہا….لیکن خاتون نے گرنے کے باوجود ہمت نہیں ہاری،بالآخر تھک ہار کر چور بیاگ چھینے بغیر الٹے پیر بھاگنے پر مجبور ہوگیا….
ہمیںچھیننے کا وہ دلچسپ واقعہ بھی یاد آرہا ہے جب سلمان خان نے 24 اپریل 2019 میں مبینہ طور پر ایک صحافی کا موبائل فون چھین لیاتھا…جو ان کی تصویر لینے کی کوشش کر رہا تھا۔بات اس حد تک پہنچی کہ مقامی عدالت نے صحافی کا فون چھیننے کے واقعے پر اداکار سلمان خان کو طلب کرلیا، جس پر سلمان خان نے ممبئی ہائیکورٹ میں درخواست دائر کردی کہ ان کے خلاف طلبی کا نوٹس خارج کیا جائے…اس کے بعد کیا ہوا ہم نہیں جانتے لیکن اس واقعے سے ہمیں یہ ضرور پتا چلتا ہے کہ’’ اونچے لوگ‘‘ بھی چھیننے کو’’ اونچی پسند‘‘ سمجھتے ہیں ۔
ایک پڑوسی ملک کی پولیس کے بارے میں یہ لطیفے بڑامشہور ہے کہ اگر وہ ہرن کو بھی پکڑ لے تو وہ بھی خود کو ہاتھی قراردینا شروع کردے…اسی ملک کے ہونہار افسران نے ایک ایسے ’’ ملزم‘‘ کو پیش کیا جو سالانہ 21 کروڑ روپے ٹیکس جمع کرواتا ہے،لیکن اس پر چند ہزار روپیوںکا موبائل فون چھیننے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔جج صاحب نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:سالانہ 21 کروڑ روپے ٹیکس حکومتی خزانے میں جمع کروانے والے تاجر کے خلاف موبائل فون چھیننے کا مقدمہ پولیس کی کارکردگی اور سیاسی مقاصد میں استعمال ہونے کی بدترین مثال ہے۔‘‘
دوستو!موبائل کا ہوا میں لہراتے ہوئے سر راہ چلنا بڑا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے…صدقہ و خیرات کے تعلق سے کہا گیا ہے کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہیں ہونی چاہیے لیکن آج کل موبائل فون اس صفائی سے چرائے جارہے ہیں کہ ایک ہاتھ سے موبائل جارہا ہے تو دوسرے ہاتھ کو تو کیا صاحب موبائل کو تک خبر نہیں ہورہی ہے ….چمن بیگ کے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا ،انہیں موبائل فون کے چھینے جانے کا اس وقت پتا چلا جب وہ ہاتھ ہوا میں لہراتے ہوئے گھر پہنچے اور کسی کوکال کرنا چاہا …اس جدید ٹیکنیک کو ہوا سے ہوا میں وار کرنا کہا جارہا ہے ۔
ایسے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں کہ آدمی خود کو خود سے چھین لیتا ہے …مشکوک حیدرآبادی نے اپنی قیمتی کار چوری ہوجانے کی رپورٹ لکھوا دی، پولیس نے فوری ایکشن لیتے ہوئے باریک بینی سے اپنے تمام تر تجربات کی روشنی میں مشکوک کو شامل تفتیش رکھا۔دوران تفتیش مشکوک کو یہ کہنا پڑاکہ مجھ سے کوئی گاڑی چھینی نہیں گئی اور نہ ہی کوئی واردات ہوئی ہے، دراصل میرے اوپر قرض بہت ہوگیا ہے،قرضدار مجھے تنگ کر رہے تھے جس پر میں نے یہ ڈراما رچا…مشکوک کی گاڑی کسی نے نہیں چھینی تھی تو کیا ہوا ،انہوں نے پولیس سے اس کا قیمتی وقت چھینا تھا، لہٰذا پولیس نے گاڑی اور مشکوک کو تحویل میں لے کرکارروائی مکمل کرکے کورٹ میں پیش کر دیا…
ایپل کا آئی فون مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگا بھی ہوتاہے ،کچھ عرصہ قبل نئی دہلی میں گرل فرینڈ کو مہنگا تحفہ دینے کے لیے آئی فون چھیننے کا انوکھا واقعہ سامنے آیا۔ عاشق اور اس کے دوست نے پارک سے گزرتے شہری کی گردن پر چاقو رکھ کر آئی فون چھین لیا …اس کامیاب کوشش سے حوصلہ پاکرعاشق آوارہ اور دوست آوارہ ایک اور واردات انجام دینے کی کوشش کرہی رہے تھے کہ پولیس نے انہیں دھر لیا… ملزمان کے مطابق ان کا ارادہ زیادہ پیسے اکھٹے کرکے ہِل اسٹیشن جانے کا تھا…ان دیوانوں کو پتا ہی نہیں تھا کہ کسی سے کوئی چیز چھین کر خوشیاں نہیں حاصل کی جاسکتی ہیں ۔
دنیا کے حالات تیزی سے بگڑ رہے ہیں ، اسی پس منظر میںسعودی عرب کے مفتی اعظم اور ممتاز عالم دین، علمی تحقیق و افتاء کونسل کے صدر الشیخ عبدالعزیز آل الشیخ نے کہا تھا :’’شرمناک ڈھٹائی‘ سے دوچار دنیا ، انسان سے انسانیت چھیننا چاہتی ہے۔‘‘
آج دنیا میں جینا ہو توحق لینا اور چھیننا دونوں کا جاننا ضروری ہے،لیکن ہمیں یہ بات بھی ہرگز نہیں بھولنی چاہے کہ چھیننے کا حق صرف اسی کو ہے جو خالق کائنات ہے ،وہ جسے چاہتا ہے بادشاہت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے بادشاہت چھین لیتا ہے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰