کوئی صورت نظر نہیں آتی
یوسف ناظم
اب تو خیر حالات اچھے ہیں اور پوری دنیا میں امن وامان کا دور دورہ ہے ورنہ اس دنیا میں ایک زمانے میں ایسا کڑا وقت بھی آچکا ہے جب سبھی لوگ سچ بولنے لگے تھے۔ بوڑھے، بچے، مرد عورتیں معلوم نہیں انہیں کس کی نظر لگ گئی تھی کہ صبح سے شام تک بلاناغہ یہ لوگ سچ کے سوا کچھ بول ہی نہیں پاتے تھے۔ یوں سمجھئے ایک وبا تھی جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں بلاضرورت سچ بولتے اور خوش ہوتے۔
کوشش اس بات کی کرتے کہ سچ خالص ہو۔ انتظامیہ اور عدلیہ جیسی اشیا اس وقت بھی تھیں، لیکن ان کی طرف کوئی شخص آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ کسی کو انھیں تکلیف دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ محکمہ پولیس کا عملہ تو سخت پریشان تھا کہ لوگ پِٹے بغیر سچ بولنے لگے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ سچ خود اپنی طرف سے کہی جانے والی چیز نہیں ہے۔ یہ کہلوائی جانے والی چیز ہے اور سچ کہلوانے کے لیے دنیا کے مختلف علاقوں میں وہاں کی آب وہوا اور وہاں کے باشندوں کی قوت ِ برداشت کے لحاظ سے الگ الگ تراکیب استعمال کی جاتی ہیں۔ مثلاً الٹا لٹکایا جانا تو ایک عام ترکیب ہے۔ اسے مبادیات میں شمار کیا جاتا ہے۔
مشہور یہ ہے کہ آدمی کو الٹا لٹکایا جائے تو فوراً سیدھا ہو جاتا ہے اور چند منٹ اپنی حالت پر غور کرنے کے بعد سچ بولنے لگتا ہے۔ کچھ لوگ تو اس سے بھی کمتر درجے کی ترکیب آزمانے پر سچ بول دیتے ہیں۔ (اسے چِیں بولنا بھی کہا جاسکتا ہے۔) سچ کہلوانے کی ادنیٰ ترین درجے کی ترکیب یہ ہے کہ آدمی کے جسم کے کپڑے اس کے جسم سے رفتہ رفتہ علاحدہ کر دیے جائیں تو سچ برآمد ہونے لگتا ہے، لیکن اس ترکیب کو آزمانے میں دقت یہ پیش آتی ہے کہ ہر شخص کپڑے پہنے ہی کہاں ہوتا ہے۔ کچھ لوگ تو کپڑے اس لیے نہیں پہنے ہوتے کہ ان کے پاس کپڑے ہوتے ہی نہیں ہیں اور کچھ لوگ اس لیے نہیں پہنے ہوتے ہیں کہ ان کا کلچر انھیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔
بعض صورتوں میں یہ بھی ہوتا ہے کہ آدمی کے بدن پر نشانات دیکھتے ہی تجربہ کار لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ ہو نہ ہو یہ شخص سچ بول کر چلا آرہا ہے۔ اس خوشی میں اس شخص کی ہلدی اور پھٹکری سے خاطر تواضع کی جاتی ہے۔ عورتوں اور مردوں میں فرق یہ بھی ہے کہ عورتیں خوشی کے موقع پر ہلدی میں رنگی جاتی ہیں۔ مردوں کی قسمت میں بھی ہلدی ہوتی ہے لیکن صرف اس وقت جب ان سے سچ کہلوایا گیا ہو۔
یہ غلط فہمی بہرحال عام ہے کہ آدمی پٹنے پر سچ بولتا ہے۔ نادان بچے ممکن ہے ایسا کرتے ہوں۔ سن شعور کو پہنچنے کے بعد کوئی شخص ایسی نازیبا حرکت نہیں کرتا۔
سچ کے بارے میں کئی جھوٹی سچی باتیں مشہور ہیں۔ جھوٹی زیادہ اور سچی بالکل نہیں۔ سچ بولنے کے لیے آدمی کو صرف سچ بولنا پڑتا ہے بلکہ اعلان بھی کرنا پڑتا ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے جبکہ جھوٹ بولنے کے لیے یہ سہولت حاصل ہے کہ آدمی جھوٹ موٹ بھی بول سکتا ہے۔ جھوٹ موٹ بھی ہے تو جھوٹ ہی لیکن مکمل اور مصفاً جھوٹ نہیں۔ یہ جھوٹ کی ابتدائی شکل ہوتی ہے۔ یہ صرف نو مشقوں کی چیز ہے اور اس سے وہ فوائد حاصل نہیں ہوتے جو صحیح النسل جھوٹ سے حاصل ہوتے ہیں۔ جو لوگ ملک و قوم کے وفادار ہوتے ہیں وہ جھوٹ موٹ قسم کا جھوٹ نہیں بولتے، بلکہ صمیم قلب سے اصلی جھوٹ بولتے ہیں۔ چاول میں کنکی رہ جائے تو چاول کھانے کا لطف کِرکرا ہوجاتا ہے۔ جھوٹ کو بھی پوری طرح پکنے دیا جانا چاہیے۔
سچ بولنے کی جزا بھی ہوتی ہوگی لیکن سزا بہر حال ہوتی ہے اور کافی معقول ہوتی ہے۔ داستانوں میں ہم ضرور پڑھتے ہیں کہ کسی غریب شخص کو سچ بولنے پر انعام و اکرام سے مالا مال کر دیا گیا۔ یہ سب زیب داستان کی خاطر کہی ہوئی باتیں ہیں۔ بادشاہوں کے بارے میں یہ سوچنا کہ وہ سچ اور جھوٹ میں تمیز کر سکتے تھے، مناسب بات نہیں ہے۔ کسی ایک آدمی کی غربت دور کرنے سے دنیا کو کتنا فائدہ پہنچتا ہے سب جانتے ہیں۔
سچ بولنے کے نتائج ہمیشہ خطرناک ہوتے ہیں، یہ بات آدمی کی سمجھ میں تو آئی لیکن بہت دیر سے۔ یہ بات اس وقت سمجھ میں آئی جب دنیا میں تہذیب کا چلن شروع ہوا۔ اب تہذیب اور شائستگی کا تقاضا ہے کہ اگرکسی واقعے، سانحے یا حادثے کی حقیقت معلوم بھی ہوجائے تو اسے مشتہر نہ کیا جائے۔
سچ کی تدفین، سچ کی تلقین سے بہتر مانی گئی ہے۔ دنیا کی فلاح و بہبود کے لیے چونکہ صرف افراد کا سچ نہ بولنا کافی نہیں تھا، اس لیے اب قومیں عالمی سطح پر سچ بولنے سے بچتی ہیں۔
یہ اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ ہے، خیرسگالی اور تدبر کا تو ہے ہی۔ تدبر کو اسی لیے سچ سے علاحدہ رکھا گیا ہے کہ دو مختلف المزاج چیزیں ایک ساتھ استعمال نہیں کرنی چاہئیں، معدہ قبول نہیں کرتا۔
سچ بولنے کا صحت پر برا اثر پڑتا ہے۔ شروع ہی سے کوئی شخص سچ بولنے کا عادی ہو تو یہ الگ بات ہے، لیکن جو لوگ منہ کا مزا بدلنے کی خاطر سچ بولتے ہیں، ان کا بیمار پڑنا یقینی ہوتا ہے۔ یوں سچ کی اب دنیا کو ضرورت رہی بھی نہیں ہے۔ سنا گیا ہے کہ ڈاکو اور نقب زن قسم کے لوگ مال غنیمت کی تقسیم کے موقع پر سچ بولتے ہیں، یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔ ان لوگوں سے کوئی اچھی توقع وابستہ کرناکہاں کی دانشمندی ہے، ڈاکو سچ نہیں بولیں گے تو اور کیاکریں گے۔
جس زمانے میں سچ بولنے کا رواج جڑ پکڑ چکا تھا، اس وقت چند لوگ روزنامچہ بھی لکھا کرتے تھے، اس روز نامچے میں سچی باتیں درج ہوتی تھیں۔ روزنامچہ لکھنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے سچ بولنے کے شوقین لوگوں کا بھی حافظہ نہیں ہوا کرتا۔ جھوٹ بولنے یا لکھنے کے لیے کوئی حوالہ دینا نہیں پڑتا لیکن سچ کے ثبوت میں حوالہ دینا ضروری ہوتا ہے۔ ایسے نازک موقعوں پر یہی روزنامچے کام آتے تھے۔ اہل روزنامچہ حضرات جب بھی اپنے روزنامچے کی ورق گردانی کرتے انھیں یاد آجاتا کہ آج سے ۴ سال پہلے ان کے پڑوسی نے انھیں کیا کیا مغلظات سنائی تھیں حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ ان کی بیگم نے ان کی بیگم کے بارے میں کوئی سچ بات کہہ دی تھی اور یہ بات بھی جواباً کہی گئی تھی کیوں کہ سچ کہنے کی ابتدا اُدھر سے ہوئی تھی۔
روزنامچوں میں چونکہ ہر بات تفصیل سے درج ہوتی تھی، اس لیے مذکورہ مغلظات بھی مطالعے میں آجاتی تھیں اور روزنامچہ نویس کے خون کا دباﺅ خطرناک حد تک بڑھ جاتا تھا۔ اب روزنامچے اس لیے بھی نہیں لکھے جاتے کہ پڑوسیوں کے تعلقات صرف مغلظات کی حد تک رہ گئے ہیں۔ روزنامچوں کے لیے اتنی اسٹیشنری کہاں سے آئے گی۔
رونامچوں کے علاوہ مکتوب نگاری بھی سچ کہنے کی مہم کے لیے مفید ثابت ہوئی ہے۔ روزنامچہ صرف شخصی استعمال کی چیز تھی لیکن خط سے کم سے کم دو افراد تو مستفید ہو ہی سکتے تھے اور مکتوب الیہ کا دل چاہتا تو وہ اس خط کو اخبار کے ذریعے عوام تک بھی پہنچا سکتا تھا۔ ڈھیروں سچ خطوں میں بھرا پڑا ہے۔ جب بھی کسی بڑے آدمی کے خط شائع ہوتے ہیں، مخصوص علاقوں اور حلقوں میں تھوڑی بہت بے چینی ضرور پھیلتی ہے بلکہ بعض صورتوں میں تو یہ بے چینی انقلاب کی حدوں کو چھونے لگتی ہے۔
سچ اب اس لیے بھی نہیں کہا جاسکتا کہ کہیں انقلاب نہ آجائے اور سچ کو بھی اسی طرح رفع دفع کیا جاتا ہے جس طرح کوئی بغاوت فرو کی جاتی ہے، لیکن انقلاب ہو یا بغاوت، ان دونوں کا فائدہ ایک ہی ہے، دنیا کی آبادی فی الفور کم ہو جاتی ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کی کوئی تدبیر اتنی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ یہ نسخہ ہرجگہ استعمال ہورہا ہے اور بڑی طاقتیں خاص طورپر اس نسخے کی ترویج واشاعت میں دل کھول کر حصہ لے رہی ہیں۔
جھوٹ کو برابر معیوب سمجھنا اچھی بات نہیں ہے، یہ تو خود قدرت کا انتظام ہے کہ جھوٹ اور سچ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ صبح کاذب کی طرح جھوٹ بھی ہمیشہ برقرار رہے گا بلکہ اس کی اولیت بھی قائم رہے گی۔ صبح کے بارے میں شاعری بھی بہت ہوئی ہے۔ کیا تعجب یہ سارے اشعار صبح کاذب ہی کے بارے میں کہے گئے ہوں۔ صبح صادق کے بارے میں جو شعر کہا گیا تھا اس کا ایک مصرع ہمیں اب بھی یاد ہے کہ ’ہائے کمبخت کو کس وقت خدا یاد آیا‘ ویسے یہ شعر بھی غلط بیانی کی پیداوار ہوگا کیونکہ جہاں تک عاشقی کے احوال و کوائف کا تعلق ہے ان میں صرف ہجر حقیقت ہے اور وصال صرف خواب یا خیال۔
سچ کی ویسے کئی صورتیں ہیں، لیکن ان دنوں ان میں سے کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
٭٭٭