مضامین

اسرائیلی ڈیٹرینس کا بت پاش

منصور جعفر

اسرائیل سے جو سیاسی بیانیہ حالیہ چند دنوں کے دوران سامنے آیا ہے، وہ اس ملک کی تاریخ کا غیر معمولی واقعہ کہا جا سکتا ہے۔ اس بیانیہ کی جھلک اسرائیلی اپوزیشن رہنما یائر لاپیڈ کے ایک بیان سے واضح ہوتی ہے جو انہوں نے بنجامن نتن یاہو حکومت کی طرف سے دی جانے والی ایک بریفنگ میں شرکت کے بعد دیا۔یائر لاپیڈ کہتے ہیں ’کہ میں بوجھل دل کے ساتھ نتن یاہو کے ہمراہ سکیورٹی بریفنگ میں شریک ہوا، لیکن بریفنگ کے مندرجات نے میرا غم دو چند کر دیا۔ ہمارے دشمنوں کو چہار سو جو منظر دکھائی دے رہا ہے، اس میں حکومت کی نااہلی ہانکے پکارے نمایاں ہو رہی ہے۔ یاہو حکومت کی کابینہ پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اسرائیل اپنی سد جارحیت (ڈیٹرینس) کھو رہا ہے۔ اسرائیل ایک ایسا ملک بنتا جا رہا ہے، جس میں حسن انتظام نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔‘
کثیر الاشاعت اسرائیلی اخبار ’ٹائمز آف اسرائیل‘ نے بھی لاپیڈ کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے ’کہ تل ابیب، امریکی اور بین الاقوامی حمایت سے تیزی سے محروم ہو رہا ہے۔‘
یائر لاپیڈ کے فکر انگیز بیانیے کو دیکھ کر ذہن میں دو اہم سوال پیدا ہو رہے ہیں۔ اولا: اسرائیل کیا واقعتاً اپنی ڈیٹرینس کھو رہا ہے؟ دوم: کیا مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا چہیتا اسرائیل دنیا کی حمایت سے محروم ہو رہا ہے؟
یہاں ہم دوسرے سوال کا جواب پہلے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دنیا میں اسرائیلی مقبولیت کا گراف کتنا نمایاں رہا ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے اگر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر فلسطین اور اسرائیل سے متعلق پیش کی جانے والی قراردادوں اور بحث مباحثوں پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو جائے گا کہ دنیا کے ملکوں کی بڑی اکثریت نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ اور بات ہے کہ امریکی ویٹو کے سامنے اکثریتی ووٹ ہمیشہ ہیچ ہی رہا اور مطلوبہ نتائج سامنے لانے میں ناکام رہا۔
یائر لاپیڈ کے بیان میں بھی اسرائیل کی مطلق عالمی مقبولیت کا ذکر نہیں، بلکہ ان کا اشارہ روایتی طور پر امریکہ کے حامی مٹھی بھر ملکوں کی جانب تھا۔ ان ملکوں میں بعض کا تعلق مشرق وسطیٰ، جبکہ مغربی ملک کی بڑی اکثریت بھی اس فہرست میں شامل رہی ہے۔
لیکن اب ان ملکوں نے اپنی پالیسی کا قبلہ تبدیل کر لیا ہے۔ وہ جان چکے ہیں کہ امریکہ، مشرق وسطیٰ سے اب کنارہ کش ہو چکا ہے۔ یہ پسپائی روس اور یوکرین جنگ کے بعد سے شروع نہیں بلکہ اس کا آغاز 2012 میں بہت پہلے ہو چکا تھا۔
سابق امریکی صدر براک اوباما نے اپنے دور حکومت میں واشنگٹن کی خارجہ پالیسی کا فوکس مشرق وسطیٰ سے ہٹا کر ایشیا پیسیفک ریجن کی طرف کر لیا تھا۔ 2012 سے صدر اوباما نے Pivot to Asiaپالیسی کو امریکی خارجہ پالیسی کا محور بنایا۔ اس پالیسی پر عمل درآمد کی رفتار میں خاص طور پر اس وقت تیزی آئی جب گزشتہ برس فروری میں روس۔ یوکرین جنگ کا آغاز ہوا۔
اندریں حالات امریکی لیوریج حاصل کرنے کے لیے دنیا کے ملکوں کو اب واشنگٹن کی علانیہ یا خفیہ حمایت کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ مشرق وسطی میں امریکی دلچسپی معدوم ہو رہی یا کم از کم اس درجے کی نہیں رہی جتنی واشنگٹن نے 2003 میں مقبوضہ عراق پر ایک ایسی مہنگی ترین جنگ مسلط کرتے وقت دکھائی کہ جس میں لاکھوں انسان لقمہ اجل بنے۔
اب دوسرے سوال کی طرف آتے ہیں۔ کیا اسرائیل حقیقت میں اپنی ڈیٹرینس [سد جارحیت] سے محروم ہو رہا ہے؟ در حقیقت اسرائیل اگر زیادہ نہیں تو کم از کم اب بھی اتنا طاقتور ضرور ہے جتنا وہ مئی 2021 میں غزہ پر مسلط کی جانے والی جنگ کے وقت میں تھا۔
سابق وزیر اعظم اور موجودہ اسرائیلی اپوزیشن رہنما یائر لاپیڈ کا اشارہ کس جانب تھا اور وہ کیا سمجھانا چاہ رہے ہیں؟ یائر لاپیڈ یہ حقیقت باور کرانا چاہ رہے تھے کہ فی زمانہ اسرائیل فلسطینیوں اور عرب ہمسایوں کے ساتھ اپنے تنازعے کو کسی ایک محاذ تک محدود رکھنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔
گزشتہ کئی دنوں سے فلسطینی اور متعدد عرب مزاحمتی تنظیموں نے غزہ، جنوبی لبنان اور شام سے اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کر رکھی ہے۔
غرب اردن میں فلسطینی عسکری گروپوں نے بھی قابض اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔ ماضی میں ایسی صورت حال کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سے پہلے تاریخی طور پر اسرائیل نے ہمیشہ ایک وقت میں کسی ایک مزاحمتی گروپ یا ریجن پر فوکس کر کے طاقت کا توازن ہمیشہ اپنے حق میں برقرار رکھا۔
اب یہ بات قابل عمل نہیں رہی کیوں کہ شام، جنگ کی تباہی کے بعد چھٹنے والی دھول سے پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر ابھر رہا ہے۔ حزب اللہ اسرائیل کے غزہ اور لبنان پر حملوں کے بعد ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے متحمل نہیں ہو سکتا اور غزہ اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے پہلے ہی اندوہناک صورت حال سے دوچار ہے۔ ایک لحاظ سے اہل غزہ کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں۔ یہی وہ لمحہ تھا جس کا وہ انتظار کر رہے تھے۔ دوسری جانب نارملائزیشن کے غلو میں عرب ملک بھی اسرائیل کی ریشہ دوانیوں کے خلاف آواز اٹھانے لگے ہیں۔
رمضان المبارک کے دوران مسجد اقصیٰ پر صہیونی فوج کے چھاپے اور نمازیوں پر بہیمانہ تشدد پر سعودی عرب، او آئی سی، عرب لیگ اور خلیج تعاون کونسل نے انتہائی سرعت کے ساتھ ردعمل دیتے ہوئے اسرائیلی مظالم کی مذمت کی، اس کا سہرا بدلتے ہوئے جیو پولیٹکل حالات کے سر جاتا ہے۔ مسجد اقصیٰ پر اسرائیل کی چھاپہ مار کارروائی پر خطے کے اہم عرب، اسلامی اور مغربی ملک خاموش نہ رہ سکے۔
قبلہ اول کے خلاف جارحیت کے تسلسل کو اسرائیل اپنی روایتی چھاپہ مار کارروائی سمجھنے کی غلطی کر بیٹھا۔ صہیونی کار پرداز اس حقیقت کے ادارک میں ناکام رہے کہ مشرق وسطیٰ کی جیو پالیٹکس اب بہت زیادہ تبدیل ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسجد اقصیٰ میں ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم پر فلسطینی ردعمل صرف غزہ، نابلس یا جنین سے نہیں بلکہ اس مرتبہ یہ بیک وقت لبنان، شام اور پورے فلسطین سے سامنے آیا۔اس بات پر اسرائیلی انتظامیہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ تل ابیب اس ردعمل کے لیے تیار نہیں تھا، نہ ہر بار کی طرح امریکہ خم ٹھونک کر اسرائیل کی مدد کو لپکا۔
عرب دنیا مکمل طور پر نئی جیو پولیٹیکل صورت حال میں اپنا مقام ومرتبہ متعین کرنے میں مصروف ہے۔ اسرائیل بری طرح جال میں پھنس چکا ہے، جس کی مثال ماضی میں ملنا مشکل ہے۔
ادھر امریکی طوق وسلاسل میں جکڑے عربوں کو ’چلو چلو، چین چلو‘ کی صورت نغمہ آزادی کا نیا آہنگ اور آلاپ لبھانے لگا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان چینی ثالثی میں طے پانے والا معاہدہ حتمی طور پر چھ اپریل کو دستخط کے لیے پیش کیا گیا۔
اس معاہدے کا اعلان گزشتہ ماہ سامنے آیا تھا۔ ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ نے بیجنگ پر معاہدے پر دستخط کے بعد چینی میزبان کی معیت میں ہاتھ ملا کر ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔
چین، اب مشرق وسطیٰ میں نیا امن بروکر بن کر سامنے آیا ہے۔ تاریخی تناظر میں یہ بات سوچنا محال ہے کہ اسرائیل اس جال سے جلد نکل آئے گا کیونکہ امریکہ ایک، دو یا دس برسوں تک مشرق وسطیٰ کا رخ نہیں کرنے والا اور مشرق وسطیٰ میں خود امریکہ سے ہٹ کر نئے اتحاد تشکیل پا رہے ہیں۔