مذہب

اہل اسلام کے پاس شانِ رسالتؐ میں گستاخی کسی صورت میں برداشت نہیں

اسلام کی بڑھتی ہوئی شہرت کو دیکھ کر دشمنانِ اسلا م مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کی ناپاک سازش کرتے جارہے ہیں، انہیں اس بات کا ڈر وخوف ہے کہ کہیں لوگ اسکی حقانیت کو جان کر دائرہِ اسلام میں داخل نہ ہوجائیں۔

مولانا حافظ و قاری سید صغیر احمد نقشبندی
شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ

اسلام کی بڑھتی ہوئی شہرت کو دیکھ کر دشمنانِ اسلا م مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کی ناپاک سازش کرتے جارہے ہیں، انہیں اس بات کا ڈر وخوف ہے کہ کہیں لوگ اسکی حقانیت کو جان کر دائرہِ اسلام میں داخل نہ ہوجائیں۔ اور ہندوستان کے کچھ مفاد پرست اپنی سستی شہرت وحصولِ دنیا کی خاطر مسلمانوں کو ہر طرح کی اذیت پہنچا نے کی مسلسل کوشش کرتے جارہے ہیں۔ یہاں تک کہ ظالموں نے حال ہی میں پیغمبر اسلام رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخیاں کیں۔

یہ حقیقت ہے کہ آپؐ کی ذات اقدس سارے عالم اسلام کے یہاں اپنی جان ومال، ماں باپ، آل اولاد سے بڑھ کر محبوب ہے۔ اہل اسلام آپ کی عظمت ومحبت میں سب کچھ قربان کرنے ہمیشہ تیار رہتے ہیں، اسلام ایک پاکیزہ آفاقی خدائی دین ہے۔ یہ نہ کسی انسان کا گھڑا ہوا مذہب ہے اور نہ ہی منسوخ شدہ دین ہے۔ اللہ نے اسکے ماننے والوں کی رہنمائی کے لئے ہادی برحق پیغمبر اسلام محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر پاکیزہ کتاب نازل فرمائی۔

جسکے خدائی وابدی کتاب ہونے میںکوئی شک وشبہ نہیں ہے۔ چودہ سو سال گزرجانے کے باوجود بھی آج تک اسکے کسی لفظ وحرف میں تبدیلی نہیں آئی اور نہ ہی قیامت تک کوئی تبدیلی ہوگی کیونکہ اسکا محافظ خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔ قرآن کریم کی ہر بات و ہرحکم حق پر مبنی ہے اسمیں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں اسی لئے اس نے سارے عالم کو چیالنج کیا ہے۔ وَإِن کُنتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَی عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَۃٍ مِّن مِّثْلِہِ وَادْعُواْ شُہَدَاء کُم مِّن دُونِ اللّہِ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْن (سورہ بقرہ) اور اگر تم اس کتاب کے بارے میں کچھ شک میں ہو ، جو ہم نے اپنے بندے(محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل کی ہے تو اس طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لائو اور اللہ کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلائو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔

یہ چیالنج صرف اسکی فصاحت وبلاغت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اسکے تمام احکام و اصول پاکیزہ وبے مثال ہیں۔ آج بھی اہل اسلام کی جانب سے ان ظالموں وگستاخوں کے لئے ہر وقت چیالنج ہے، اس جیسا پاکیزہ عالمی نظام ہے تو لے آئیں؟۔ وہی چیالنج کرنے والا کلام الٰہی نبی برحق محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔ وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ (اے حبیب) ہم نے آپ کو سارے عالم کے لئے رحمت بناکر بھیجایا ہے۔ اور سورۃ توبہ میں ارشاد فرماتا ہے: رؤف رحیم آپ بڑے مہربانی نہایت رحم کرنے والے ہیں۔ اسی طرح آپ کے اخلاق کریمہ کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وانک لعلیٰ خلق عظیم یقیناً آپ آخلاق کے اعلیٰ مقام پر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمام انسانیت کے لئے مشعلِ راہ ہے، آپ کی حیات طیبہ کا ہر گوشہ مشیتِ خداوندی کے مطابق ہے۔ آپ کی زندگی کا ہر پہلو چاہے انفرادی زندگی ہو یا خاندانی زندگی ہو یا ازدواجی زندگی ہو امت کے لئے ہدایت ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح کے متعلق حدیث شریف میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ما نزوجت شیئاً من نسائی ولا زوجت شیئا من بناتی الا بوحی جاء نی بہ جبرئیل عن ربی عزوجل۔ رسول ِانور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نہ اپنا نہ اپنی صاحب زادیوں کا اس وقت تک نکاح نہیں کیا جب تک جبرئیل امین میرے رب عزوجل کے پاس سے وحی لے کر میرے پاس نہیں آگئے۔آقانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا نکاح سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنھا سے ہوا اس وقت آپؐ کی عمر شریف ۲۵؍ سال اور حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنھا کی عمر ۴۰؍ سال تھی، آپ نے ازدواجی زندگی کا بیشتر حصہ ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارا جب حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ انتقال کرگئیں اسکے بعد آپ نے دوسری نو(۹) امہات المومنین رضی اللہ عنہن سے نکاح کیا وہ تمام یاتو مطلقہ تھیں یا بیوہ تھیں، سوائے ایک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کے ۔اس وقت آپؐ کی عمر مبارک چوپن(۵۴) یا پچپن (۵۵) سال تھی اور حضرت عائشہ ؓ کی عمر نکاح کے وقت ۶؍ سال تھی اور رخصتی نو (۹) سال کی عمر میں ہوئی۔ اس نکاح کے متعلق چندباتیں غور طلب ہیں جس سے ذہن میں آنے والے اشکالات دور ہوجاتے ہیں۔

پہلی بات یہ انتخابِ نکاح رب العالمین کی جانب سے تھا۔ چنانچہ بخاری شریف میںہے: عن عائشہ ؓ قالت! قال لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أریتک ۔ الیٰ آخرہ (بخاری) حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ رسولِ انور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے تمہیں (نکاح سے پہلے ) دکھایا گیا ، حضرت جبرئیل امین ؑ میرے پاس ایک ریشمی کپڑے میں لپٹے ہوئے ایک تصویرلے آئے، میں نے جب کپڑا ہٹایا تو دیکھا کہ وہ تصویر تمھاری تھی۔ حضرت جبرائیل ؑ نے کہا کہ یہ تصویر آپ کی زوجہ کی ہے، تو میں نے کہا: ان یک ھذامن عند اللہ یمضہ اگر یہ اللہ کی جانب سے ہے تو وہ ہو کے رہیگا (بخاری)۔ دوسری بات یہ ھیکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی چہیتی صاحب زادی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا نکاح آپؐ سے کروایا۔ سیدنا ابو بکر صدیق ؓ ان حضرات میں سے ہیں جنکی دانشمندی، ہوشیاری، فکر سلیم کی وجہ سے دورِ جاہلیت میں بھی مشرکین مکہ انہیں قدر کی نگاہوں سے دیکھتے تھے اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپؓ سب سے افضل واعلیٰ مرتبہ میںہیں اور آپؓ سب سے پہلے خلیفہ رہے، انہوں نے خود اس نکاح سے رضامندی کا اظہار کیا اور اپنے لئے سعادت سمجھی اور وہ جانتے تھے کہ ان کی لاڑلی صاحب زادی بلوغیت کی عمر کو پہنچ چکی ہے اور وہ شادی کے قابل بھی ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس وقت کے دشمنانِ اسلام قریش مکہ نے حسد کے مارے دشمنی و مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، کبھی آپ کو مجنون کہا، کبھی شاعر کہا، کبھی جادوگر کہا، کبھی کاہن کہا اس کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام’ قرآن مجید‘ سے دیا۔ اے لوگو! تمھارے سردار مجنون نہیں ہیں یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے اور نہ ہی کسی کاہن کاکلام ہے۔ وہ طرح طرح کے الزام تراشیاں کرتے رہے لیکن انہوں نے آپ کے نکاح پر کوئی الزام نہیں لگایا کیونکہ وہ وہاں کے حالات سے واقف تھے۔ عرب کی لڑکیاں نو۹، دس۱۰ سال کی عمر میں بالغ ہوجاتی ہیں لیکن آج کا دریدہ ذہن ناپاک اور گندے خیالات رکھنے والے اگراسلامی تعلیمات واسلامی تاریخ کا صحیح طور پر مطالعہ کرتے تو اسطرح کی گستاخی کی جراء ت نہ کرتے۔

یہ حق ھیکہ مسلمان بنیؐ کی شان میں گستاخی کو کبھی برداشت نہیں کرسکتے وہ اپنے ہر نقصان کو برداشت کر سکتے ہیں لیکن اہل اسلام کو شانِ نبوت میں بے ادبی و گستاخی کسی حال میں برداشت نہیں۔ ان ظالموں نے شانِ رسالت میں بے ادبی کرکے سارے عالم کے مسلمانوں کو تکلیف پہنچائی ہے دنیا میں ہر جگہ اس کی مخالفت کی گئی، جنہوں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے غم و غصہ کا اظھار کیا یہ ان کے ایمان کی علامت ہے اور بعض ناواقف مسلمان جنہوں نے اس احتجاج اور غم وغصہ کو اس طرح کہتے ہوئے رد کیا کہ اتنا ہنگامہ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کا اسطرح کہنا ایمان کو برباد کردیتاہے۔ بخاری شریف میںہے اگر تم کسی برائی کو دیکھو تو اسکو اپنے ہاتھ سے روکو، اگر تم ہاتھ سے روکنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو زبان سے روکو اور زبان سے نہیں روک سکتے تو دل سے اس برائی کو برا جانو یہ کمزور ایمان کی علامت ہے۔ برائی کو برائی نہ جاننا بھی ایمان کو ضائع کرنا ہے ۔

شان رسالت میں گستاخِی بہت بڑا جرم ہے۔ اسلامی مملکت میں اسکی سزا قتل ہی ہے۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اسمیں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کا پورا حق ہے اور یہاں کسی دوسرے مذہب کی مخالفت قانوناً جرم ہے اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے عمائدِ قوم، علماء کرام نے ان گستاخوں کے خلاف عدالتوں میں قانونی کاروائی کی ہے اوراس طرح کی کاروائی نہایت ضروری ہے تاکہ آئندہ کوئی ایسا اقدام نہ کرسکے ۔ عوام الناس کے لئے ضروری ہے وہ احتجاج کے ساتھ اس طرح کے عمل کو سنگین جرم جانیں ۔

یہ گستاخی کا عمل اسلام کے ابتدائی دور میں کفارِمکہ کی جانب سے ہوا۔ اس وقت مکہ مکرمہ دارالحرب تھا وہاں کافروں کا غلبہ اور انکی حکومت تھی بخاری شریف میں ہے رسول ِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس نماز ادا کررہے تھے اور آپ سجدہ میں گئے تو اس وقت دشمنانِ اسلام ابوجہل، عتبہ، شیبہ، مشرکین مکہ نے آپ کو تکلیف پہنچانے کی خاطرآپ کی پشت پر اونٹ کی وزنی اوجھ ڈال دی، جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو معلوم ہوا تو آپ ؓ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اطہر سے اوجھ کو نکال دیا۔

اس گستاخی کے بعد اللہ کے رسول ؐ نے ان کی ہلاکت کے لئے نام لیکر دعا فرمائی تو وہ سارے گستاخ ِرسول جنگ بدر میں مارے گئے۔ہمارے لئے لازم ہے کہ ایسے ظالم گستاخ کے لئے دل سے بربادی وہلاکت کی دعا کرتے رہیں۔ اور اپنے گھروں اور مساجد ومدارس اور جلسوں میں عظمتِ رسول کا پیغام عام کرتے رہے۔ ایسی ناپاک حرکتیں دورِصحابہ میں ہوتی رہی، کبھی اسلام و مسلمانوں کو ختم کرنے کا ظالموں نے منصوبہ بنایا تو صحابہ کرام کے ایمان میںاضافہ ہوا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے: فاخشوھم فزادھم ایمانا (سورہ آل عمران) (کافروں نے کہا) تم کفار قریش کی جمعیت سے ڈرو تو ان کا یہ کہنا مسلمانوں کے ایمان میں اضافہ کردیا۔

یہ واقعہ جنگ احد کے بعد کا ہے۔ مسلمانوں کی ایمانی قوت اور جذبہ جانبازی میں اضافہ ہوگیا۔ اور اسی طرح مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو ختم کرنے کی غرض سے مدینہ منورہ آئے، جیساکہ سورہ احزاب میں ہے: ومازادھم الا ایماناً وتسلیماً (احزاب) اور اس نے ان میں ایمان و تسلیم کا اضافہ کیا۔ اس میں جنگ احزاب یعنی (جنگ خندق) کی صورت حال کا بیان ہے۔ جنگ خندق میں کفار نے مسلمانوں کے استیصال کی نیت سے دس ہزار کی بھاری فوج لیکر مدینہ منورہ پر حملہ کیا، اس سے مسلمان خائف نہیں ہوئے بلکہ ان کے ایمان اور تسلیم ورضا میں اضافہ ہوگیا، یعنی ان کی قوتِ ایمان میں اضافہ اور جاں نثاری اور ان کا عزم و حوصلہ مزید بڑھ گیا۔ آج ہم غور کریں کیا دشمنانِ اسلام کی اس مخالفت کی وجہ سے ہمارے ایمان میں اضافہ ہورہا ہے یا نہیں۔ کیا ہمارے پاس ہماری شریعت اپنی جان ومال سے زیادہ عزیز ہے یا نہیں غور کریں۔ اسلام اور اس کے احکام کی حفاظت ہر مسلمان پر لازم ہے۔ہمیں نہ ہی کسی سے مرغوب ہونیکی ضرورت ہے نہ ہی کسی سے ڈرنے کی ضرورت ہے ساری دنیا مل کر بھی اسلام و مسلمانوں کو ختم نہیں کرسکتی ۔

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعاء ہے کہ اسلام کو غلبہ عطا فرمائے ، سارے عالم کے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے ۔
آمین بجاہِ سید المرسلینؐ۔