طنز و مزاحمضامین

رونا رُلانا

پطرس بخاری

ایک امریکن ادبی نقاد ایک مقام پر لکھتا ہے کہ مرد ایک ہنسوڑا جانور ہے اور عورت ایک ایسا حیوان ہے جو اکٹر رونی شکل بنائے رہتا ہے۔مصنف کی خوش طبعی نے اس فقرے میں مبالغے اور تلخی کی آمیزش کردی ہے اور چونکہ وہ خود مرد ہے اس لیے شاید عورتوں کو اس سے کلی اتفاق بھی نہ ہو۔ لیکن بہرحال موضوع ایسا ہے۔ جس پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے۔میرے ایک دوست کا مشاہدہ ہے کہ عورتوں کی باہمی گفتگو یا خط و کتابت میں موت یا بیماری کی خبروں کا عنصر زیادہ ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے واقعات کے بیان کرنے میں عورتیں غیر معمولی تفصیل اور رقت انگیزی سے کام لیتی ہیں۔ گویا ناگوار باتوں کو ناگوار ترین پیرائے میں بیان کرنا ان کا نہایت پسندیدہ شغل ہے۔ ان سے وہ کبھی سیر نہیں ہوئیں۔ ایک ہی موت کی خبر کے لیے اپنی شناساﺅں میں سے زیادہ سے زیادہ سامعین کی تعداد ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالتی ہیں۔ ایسی خبر جب بھی نئے سرے سے سنانا شروع کرتی ہیں ایک نہ ایک تفصیل کا اضافہ کردیتی ہیں اور ہر بار نئے سرے سے آنسو بہاتی ہیں اور پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ موت یا بیماری کسی قریبی عزیز کی ہو۔ کوئی پڑوسی ہو‘ ملازم ہو‘ ملازم کے ننھیال یا سہیلی کے سسرال کا واقعہ ہو‘ گلی میں روز مرہ آنے جانے والے کسی خوانچہ والے کا بچہ بیمار ہو‘ کوئی اڑتی اڑاتی خبر ہو‘ کوئی افواہ ہو غرضیکہ اس ہمدردی کا حلقہ بہت وسیع ہے ”سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے“
نہ صرف یہ بلکہ رقت انگیز کہانیوں کے پڑھنے کا شوق عورتوں ہی کو بہت زیادہ ہوتا ہے اور اس بارے میں سبھی اقوام کا ایک ہی ساحال ہے۔ غیر ممالک میں بھی رلانے والی کہانیاں ہمیشہ نچلے طبقہ کی عورتوں میں بہت مقبول ہوتی ہیں۔ گھٹیا درجے کے غم نگار مصنفین کو اپنی کتابوں کی قیمت اکثر عورتوں کی جیب سے دصول ہوتی ہے۔ وہ بھی عورتوں کی فطرت کو سمجھتے ہیں۔ کہانی کیسی ہی ہو اگر اس کا ہر صفحہ غم و الم کی ایک تصویر ہے تو اس کی اشاعت یقینی ہے اور عورتوں کی آنکھوں سے آنسو نکلوانے کے لیے ایسے مصنفین طرح طرح کی ترکیبیں کرتے ہیں۔ کبھی ایک پھول سے بچے کو سات آٹھ سال کی عمر میں ہی مار دیتے ہیں اور بستر مرگ پر توتلی باتیں کرواتے ہیں۔ کبھی کسی یتیم کو رات کے بارہ بجے سردی کے موسم میں کسی چوک میں بھوکا اور ننگا کھڑا کردیتے ہیں، اور بھی رقت دلانی ہو تو اسے سید بنادیتے ہیں۔ یہ بھی کافی نہ ہو تو اسے بھیک مانگتا ہوا دکھا دیتے ہیں کہ ”میری بوڑھی ماں مررہی ہے۔ دوا کے لیے پیسے نہیں۔ خدا کے نام کا کچھ دےتے جاﺅ۔ کبھی کسی سگھڑ خوبصورت نیک طبیعت لڑکی کو چڑیل سی ساس کے حوالے کرادیا یا کسی بدقماش خاوند کے سپرد کردیا اور کچھ بس نہ چلا تو سوتیلی ماں کی گود میں ڈال دیا اور وہاں دل کی بھڑاس نکال لی۔ پڑھنے والی ہیں کہ زار و قطار رو رہی ہیں اور بار بار پڑھتی ہیں اور بار بار روتی ہیں۔ خود عورتوں کی تصنیفات اکثر ہچکیوں میں لپٹی ہوئی اور آنسوﺅں میں لتھڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ پاکستان میں جو کتابیں عورتوں نے لکھیں اکثر میں نزع‘ بیماری‘ دق‘ سل‘ خودکشی‘ زہر‘ ظلم وتشدد ایک نہ ایک چیز کا سماں باندھ دینا گویا فرض جانا۔ ہاں کوئی کروشیا کھانا پکانے کی کتاب ہو تو اور بات ہے۔
آخر یہ مصیبت کیا ہے؟ یہ بات بات پر صف ماتم بچھ جانا کیا معنی؟ بار بار سوچتا ہوں کہ آخر اس امریکن نقاد نے کیا غلط کہا؟ جل کے کہا سہی لیکن بڑی بات کیا کہی؟
کسی گھر میں موت واقع ہوجائے تو زنانے اور مردانے کا مقابلہ کیجئے۔ مردوں کا ماتم تو صاف دکھائی دیتا ہے۔ بے چارے گھر کے باہر بیٹھے ہیں۔ سر نیچا کیے چپ چاپ آنکھیں سُرخ ہیں، کبھی کبھی آنسو بھی ٹپک پڑتے ہیں یا کسی نہ کسی انتظام میں مصروف ہیں۔ چہرے پر تھکن اور اداسی سی ہے اور قدم ذرا آہستہ آہستہ اُٹھتے ہیں اور زنانے کا ماتم تو دور دور سے موت کے گھر کا پتہ دیتا ہے اور جب کوئی نئی فلاں بی بی ڈول سے اتر کر اندر جاتی ہے تو ماتم کی بھنبھناہٹ میں ازسرنو ایک لہر اٹھتی ہے۔ جیسے یک لخت کوئی ہوائی جہاز پر سے گرپڑے۔ مرد تو دوسے تیسرے دن کام میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ لیکن عورتوں کے ہاں مہینہ بھر کو ایک کلب قائم ہوجاتا ہے۔ گلوریوں پر گلوریاں کھائی جاتی ہیں اور چیخوں پر چیخیں ماری جاتی ہیں۔کہیں بیمار پرسی کو جاتی ہیں تو بیمار میں وہ وہ بیماریاں نکال کے آتی ہیں جو ڈاکٹر کے وہم و گمان میں نہ تھیں، جتنی دیر سرہانے بیٹھی رہیں۔ بیمار کی ہرکروٹ پر ہاتھ ملتی ہیں۔ بے چارہ کہیں گلا صاف کرنے کو بھی کھانسے تو یہ سورة یسٰین تک پڑھ جاتی ہیں۔ رنگت کی زردہی، بدن کی کمزوری، سانس کی بے قاعدگی، ہونٹوں کی خشکی ہر بات کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔ حتیٰ کہ بیمار کو بھی اپنی یہ خطرناک حالت دیکھ کر چارو ناچار منحنی آواز میں بولنا پڑتا ہے۔ جوں جوں بیمار پرس عورتوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔ موت قریب آتی جاتی ہے اور مجھے یقین ہے کہ بعض عورتوں کو مریض کے بچ جانے پر صدمہ ہوتا ہوگا کہ اتنی تو بیمار پرسی کی اور نتیجہ کچھ بھی نہ نکلا۔
اس تحریر سے میرا مطلب ان بہنوں کا مذاق اڑانا ہرگز نہیں جو فی الواقع غمگین یا مصیبت زدہ ہیں۔ ان کی ہنسی اڑانا پرلے درجے کی شقاوت ہے، جو خدا مجھے نصیب نہ کرے، کسی کا غم ایسی بات نہیں جو دوسرے کی خوش طبعی کا موضوع بنے۔ صرف یہ بتانا مفضود ہے کہ زندگی کا بہت سا دکھ‘ ضبط‘تحمل اور خندہ پیشانی سے دور ہوسکتا ہے۔ کسی مصیبت زدہ شخص کے ساتھ سب سے بڑی ہمدردی یہ ہے کہ اس کا غم غلط کرایا جائے، کسی بیمار کی سب سے بڑی تیمارداری یہ ہے کہ اس کی طبیعت کو شگفتہ کرنے کا سامان پیدا کیا جائے۔ غم نگار مصنفین کو میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ وہ شخص انمول ہے جو اپنی تحریر سے ہزارہا لوگوں کو خوش کردیتا ہے اور وہ شخص خدا کے سامنے جواب دہ ہوگا جو اپنے زورِ قلم سے ہزارہا جوان‘ معصوم‘ خوش مزاج عورتوں اور مردوں کو رُلاتا ہے اور رلاتا بھی اس طرح ہے کہ نہ اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے نہ کوئی دل میں امنگ پیدا ہوتی ہے اور ہزار قابلِ افسوس ہے وہ شخص جو یہ سب کچھ کرکے بھی اپنی نشاپروازی پر ناز کرتا ہے۔٭٭