طنز و مزاحمضامین

شادی کی حماقتیں

ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی

شادی ہر نارمل انسان کی زندگی کا سب سے خوبصورت حادثہ ہوتی ہے۔ شادی کے بارے میں مفکرین کی رائے جدا جدا ہے۔ جن کی شادی نہیں ہوتی انہیں اس بات کا افسوس رہتا ہے کہ ان کی شادی نہیں ہوئی۔ اور وہ رات دن کسی خوبصورت ساتھی کو شریک حیات بنانے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں جب کہ شادی کے بعد ان کی حقیقت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔
جن مردوں کی شادی ہوجاتی ہے اور بیوی ماشاءاللہ تیز ہوتی ہے۔ انہیں اس بات کا افسوس رہتا ہے کہ انہوں نے شادی کیوں کی۔اسی طرح کہا گیا کہ شادی ایک ایسا قلعہ ہے جس میں رہنے والے باہر آنے کی اور باہر والے اند ر جانے کی تمنا کرتے ہیں۔ یعنی مارے چین نہ مرے چین۔ شادی اور سیل فون کا بھی ایک رشتہ ہے۔ اسمارٹ فون کے تیزی سے بدلتے ماڈلس کے زمانے میں نوجوانوں کو ہمیشہ یہ فکر لگی رہتی ہے کہ اگر ذرا ٹہر جاتے تو بازار سے اچھے ماڈل کا فون مل جاتا۔ اپنی بیوی کے چہرے سے بیزار مرد بھی اکثر یہی سوچتے کہ کاش شادی میں مزید تاخیر کرتے تو اچھے ماڈل کی بیوی مل جاتی۔
کہا جاتا ہے کہ بی بی حوا کو آدم علیہ السلام کی تیڑھی پسلی سے پیدا کیا گیا۔ اس لیے عورت مرد کے لیے ہمیشہ ٹیڑھی کھیر ہی ثابت ہوئی۔ آدم و حوا سے جب دنیا کا کاروبار پھیلا تو شادی بیاہ کے معاملے میں انسان کو اپنی پسند ناپسند کا موقع ملا۔شادی دراصل ایک عہد نامہ ہے۔ میاں اور بیوی کے درمیان کہ وہ زندگی کے ہر معاملے میں باہمی اتفاق سے رہیں گے۔ لیکن شادی کے بعد زندگی بھر دونوں میں کسی بات پر اتفاق نہیں ہوتا۔ اور دونوں میں سے کسی ایک کا انتقال ہوجائے تو دوسرا کہتا ہے کہ مرحوم اچھے انسان تھے اور مرنے والے میں بڑی خوبیاں تھیں۔ایک صاحب کی بیوی مرگئی تھی، کسی نے دیکھا کہ اس کا شوہر اس کی بیوی کی قبر پر پنکھا کر رہا ہے۔ لوگ سمجھنے لگے کہ کیا وفا دار مرد ہے، مرحوم بیوی کی قبر کو پنکھا کررہا ہے جب کہ حقیقت یہ تھی کہ اس کی بیوی نے مرنے سے قبل اپنے شوہر کو تاکید کی تھی کہ جب تک میری قبر کی مٹی نہ سوکھے دوسری شادی نہ کرنا اور صاحب موصوف پہلی بیوی کی قبر سکھانے میں لگ گئے تھے۔ اگر کوئی شوہر بیوی کی یا بیوی شوہر کی تعریف کرنے لگے تو سمجھئے کچھ گڑ بڑ ہے۔جہاں بیوی نے شوہر کی تعریف کی تو سمجھئے شوہر کی جیب خالی ہونے والی ہے اور شاپنگ کی فرمائش ہے اور اگر شوہر بیوی کی تعریف کرے تو سمجھئے کہ وہ رات گھر دیر سے لوٹنے والا ہے یا بیوی سے کہہ کر دوستوں کی دعوت کا پکوان کرانے والا ہے۔ عورتوں کا دل جیتنے کے معاملے میں عامل حضرات بڑے کامیاب رہتے ہیں۔ جب وہ کسی عورت سے کہتے ہیں کہ ان پر کسی کا سایہ ہوگیا ہے یاآپ کو کسی کی نظر لگی ہے۔ایک صاحب کو بازار میں دوسری عورتوں کو دیکھنے کی عادت یا یوں کہئے بیماری تھی۔ ایک دن ان کی بیوی نے کہا کہ کیوں جی پرائی عورتوں کو گھورتے تمہیں شرم نہیں آتی۔ تب چالا ک شوہر نے معصومیت سے جواب دیا کہ میں دوسری عورتوں کو صرف اس لیے دیکھتا ہوں کہ کوئی عورت خوبصورتی میں تم سے آگے تو نہیں۔ اس طرح وہ بیوی کی تعریف کرکے پرائی عورتوں کو دیکھنے کا جواز پیدا کر لیتا ہے۔بیوی ٹوک ٹوک کر اپنے شوہر کی عادتوں کو بدلنے کی کوشش کرتی ہے اور جب وہ واقعی بدل جاتا ہے تو کہتی ہیں کہ اے جی آپ کتنے بدل گئے ہو۔شادی کے ابتدائی دنوں میں وہ بیوی سے پیار سے کہتا ہے کہ چلو شاپنگ کرتے ہیں۔ بعد میں جب وہ بیوی سے بیزار ہوجاتا ہے تو کہتا ہے لو ےہ پیسے اور جاﺅ شاپنگ کرلو مجھے دفتر کے کام ہیں۔ابتدا میں بیوی کے ہاتھ کے پکے کھانے کھا کر بے انتہا تعریف کرتا ہے، بعد میں اچھے کھانے کھا کر کہتا پھر وہی ڈش کچھ تو نیا بنایا ہوتا۔شروع میں بیوی کو نئے جوڑے میں دیکھ کر اسے پرینکا‘ایشورےہ اور ودیا بالن کہتا ہے ۔ بعد میں بیوی کو نئے جوڑ ے میں دیکھتا ہے تو کہتا ہے کتنے کا ہے۔کہتے ہیں خوبصورت بیوی وہ ہے جس کی ہر بات شوہر سنتا ہواور خوب سیرت بیوی وہ ہے جو شوہر کی ہر بات سنتی ہو۔ایک خاتون کا شوہر نیند میں بڑ بڑاتا تھا جس سے بیوی کی نیند میں خلل پیدا ہوتا تھا۔ اس نے شوہر کو اےک اچھے ڈاکٹر کے پاس لے جاکر معائنہ کروایا۔ ڈاکٹر نے کئی طرح کے ٹیسٹ کروائے اور آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ انہیں دن میں بات کرنے کا موقع نہیں مل رہا ہے ۔ خدارا آپ انہیں دن میں بات کرنے کا موقع تو دیں۔اسی طرح اےک خاتون کا شوہر بےمار رہنے لگا تھا۔ خاتون نے اےک اچھے ڈاکٹر سے شوہر کا معائنہ کرواےا۔ڈاکٹر نے کہا انہےں آرام کی ضرورت ہے۔ مےں نےند کی گولیاں لکھ رہا ہوں۔ خاتون نے درےافت کےا، ےہ گولی انہےں کب دوں تب ڈاکٹر نے جواب دیا ےہ گولی آپ کے شوہر کے لیے نہےں بلکہ آپ کے لیے ہے۔
عورت اگر شاعرہ ہو اور مشہور ہو تو اس کا شوہر دنیا کا مظلو م تر شخص ہوگا۔جب بھی مشاعرے میں لوگ اور نوجوان اس کی بیوی کی شاعری یا اس کے حسن کی داد دیں گے تو بے چارے شوہر کے سینے پر سانپ لوٹنے لگیں گے۔ اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا سا منہ لے کر رہ جائے گا۔ محفلوں میں لوگ اسے اس کے نام یا شخصیت سے نہیں پہچانیں گے بلکہ یوں کہیں گے، ان سے ملیے ےہ مشہور شاعرہ فلاں فلاں خانم کے شوہر ہیں۔ اس لیے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ شاعرہ بیوی کے ساتھ مشاعرے میں نہ جائے تو بہتر ہے ۔ لیکن اس کی بھی مجبوری ہے کہ اسے کار میں چھوڑنے کے لیے جانا ہوتا ہے۔
جب دو مرد آپس میں بات کرتے ہیں تو وہ صرف دوسری شادی کے تذکرے کر کے ہی خوش ہوتے ہیں ۔ لیکن کسی کی مجال ہے کہ و ہ اس ہمت کا کام کر دکھائے۔ غالب لوگوں کے عقد ثانی پر رشک کرتے تھے اور کہتے کہ کتنے خوش نصیب ہیں ےہ لوگ کہ سہرے کے پھول بار بار پہن رہے ہیں۔ ہمارے پیر میں جو بیڑی پڑی ہے وہ ٹوٹنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ لیکن غالب کس قدر خوش قسمت انسان تھے کہ ان کی بیوی نیک صفت خاتون تھیں۔ انہیں اچھے اچھے پکوان پکا کر کھلاتی تھیں اور کبھی ان کی شراب و کباب کی محفلوں میں مداخلت نہیں کرتی تھیں۔ایک صاحب کو گھر میں پرانے سامان بدل کر نئے سامان خریدنے کا بہت شوق تھا۔ وہ ہر سال فریج ‘ ٹی وی ‘واشنگ مشین اور دیگر سامان پرانا نکال کر نیا لے آتے تھے۔ ان کی اس عادت دیکھ کر لوگوں نے انہیں چیلنج کیا کہ میاں تم گھر کی ہر پرانی چیز بدل سکتے ہو لیکن بیوی نہیں بدل سکتے۔کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے ۔ ےہ قسمت کی بات ہے۔ ورنہ مرد کی کامیابی کے پیچھے اس کی ذاتی کوشش کو ہی ذیادہ دخل ہوتا ہے۔ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کی کامیابی کا مقولہ کچھ اس قدر مشہور ہوگیا کہ بھائی لوگ اس میں کچھ یوں اضافہ کر گئے کہ اگر آپ مزید کامیابی چاہتے ہو تو اپنی بیویوں کی تعداد بڑھاتے جاﺅ۔
شوہر او ربیوی کے درمیان اکثر چھوٹی موٹی لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں۔ بیوی کبھی بیلن کا استعما ل کر لیتی ہے تو مرد کبھی اپنے ہاتھ کا۔ امریکہ اور یوروپ میں اگر بیوی نہ لڑے تو سمجھا جاتا ہے کہ ےہ ذیادہ دن ٹکنے والی نہیں ہے۔اور ہمارے معاشرے میں بیوی نہ لڑے تو شوہر کو احساس ہوتا ہے کہ وہ شوہر نہیں ہے۔مغربی ممالک میں بیوی کی خاموشی پر وکیل آتے ہیں اور ہمارے معاشرے میں سالے اور ساس سسر آتے ہیں۔عورت کا تعلق اردو شاعری سے بہت ملتا جلتا ہے۔ پہلے عورت غزل کی طرح حیا دار اور پردے کی پابند ہوتی تھی۔ اور غزل کے پوشیدہ مفہوم کی طرح وہ بھی چلمن کے پیچھے چھپی رہتی تھی۔ کبھی اس کی جھلک دکھ جاتی تو شاعر کہتا۔صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔آج کی عورت آزاد نظم کی طرح ہے ۔ اسے کھلی کتاب کی طرح جدھر سے چاہے پڑھ لو۔بعض عورتیں قومی ترانے کی طرح ہوتی ہیں جو تقاریب کی زینت بڑھانے کے لیے بلائی جاتی ہیں۔ اور منتظمین انہیں اگلی صفوں میں بٹھا کر اپنی محفل کو رونق بخشتے ہیں۔ بعض عورتیں علامتی غزل کی طرح ہوتی ہیں جن کا آپ جو چاہیں مطلب نکال لیں۔شوہروں کا حال کل کے باسی اخبار کی طرح ہوتا ہے۔لوگوں کو بڑا شوق ہوتا ہے کہ وہ بائیک پر بٹھا کر اپنی بیوی کو شہر گھما لائیں ۔ بیوی پیچھے آرام سے بیٹھی ہے شوہر کی نظریں ٹریفک پر اور بیوی کی نظریں سارے بازار پر۔ آج کل شادی میں جہیز میں کچھ نہ دینے والے بھی بطور خاص اپنے داماد کو گاڑی دیتے ہیں، وہ اس خیا ل سے کہ اگر گاڑی نہ دیں تو ان کی بیٹی کو پیدل مارے مارے پھرنا پڑے گا۔ نوجوانوں میں ےہ بح©ث عام ہے کہ جس لڑکی سے محبت کی جائے، اسی سے شادی کی جائے یا نہیں۔ اگر محبت شادی میں بدل جائے تو مرد کو فرصت کے رات دن آٹے دال کا بھاﺅ معلوم کرنے میں گزارنے پڑتے ہیں، کیوں کہ محبوبہ سے بیوی بننے والی لڑکی شوہر کے ہاتھ میں تھیلی دیتی ہے کہ چلو محبت بہت ہوگئی اب گھر سنسار کی بھی فکر کرو۔ بہت سے شوہروں کو بغیر حساب کتاب کے جنت میں جانے کی امید رہتی ہے کیوں کہ و ہ ےہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ہی انہوں نے دوزخ کا مزہ چکھ لیا ہے۔ اب تو خدا ان پر رحم کرے گا اور انہیں جنت میں ڈال دے گا۔ بہر حال شادی کا سبق ایسا وسیع اور گنجلک ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد بھی اچھے اچھوں کو خالہ یاد آجاتی ہے۔ شادی کی حماقتوں کا ذکر شادی بیاہ کی تقاریب سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اب ہمارے سماج میں ایک نئی قسم یعنی پاکستانی شادی کے تقاضے کی چل رہی ہے۔ کچھ لوگ قاضی سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ پاکستانی طرز پر نکاح کی محفل سجائی جائے جس میں ایک ہی مجلس مین دلہا دلہن کو ایجاب و قبول کرایا جاتا ہے، پھولوں کی چلمن کے اس پار اور اس پار دلہا دلہن بیٹھتے ہیں۔ شادیوں میں بے جار اسراف سے متوسط طبقہ پریشان ہے ۔ لڑکے والوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ جہیز اور لین دین کی کوئی ضرورت نہیں صرف معیاری پکوان ہو۔ اب یہ معیار اس قدر بڑھتا جارہا ہے کہ لڑکی کے ماں باپ اپنی بیٹی کی نکاح کی دعوت سن کر ہی پریشان ہیں۔یک لڑکی نے شادی نہ کرنے کا عہد کیا۔ کچھ دن بعد اسے احساس ہوا کہ جب اسے شدید غصہ آتا ہے تو اسے غصہ اتارنے کے لیے کسی مرد کی ضرورت ہوتی ہے اور سب سے معصوم مرد تو شوہر ہوتا ہے ،اس لیے وہ شادی کرلینے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ نمائش کے دوران اگر کسی مرد کی گود میں بچہ ہو یا بچے کو جھولے کی بنڈی میں ڈال کر ڈھکیلا جارہا ہو تو سمجھو کہ یہ شادی شدہ معصوم مردہے۔ کالجوں میں کچھ لوگرو بھی ہوتے ہیں۔ جو اپنے شاگردوں کو پڑھائی کے ساتھ محبت کے تعلق سے مشورے بھی دیتے ہیں، ایسے ہی ایک لو گرو کا کہنا ہے کہ جس لڑکی سے محبت کی جائے کبھی اس سے شادی نہ کی جائے ۔شادی صرف ارینج میریج کی جائے۔ ورنہ محبت کی شادی فوری ناکام ہونے کا اندیشہ رکھتی ہے۔ شادی سے پہلے ہی دونوں ایک دوسرے سے محبت کے پینگیں بڑھا چکے ہوتے ہیں تو شادی کے بعد لڑائی جھگڑا ہی بچا رہتا ہے۔ شادی کے سائڈ افیکٹس یہ بھی ہیں کہ جب شوہر اور بیوی دونوں جاب کرتے ہیں تو رات کا اکثر کھانا آن لائن ہی منگایا جاتا ہے اور دن میں بچے سکو بائی کی گود میں فون پر ویڈیوز دیکھ کر پلتے ہیں۔ کچھ لڑکیاں اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی خاطر تعلیم حاصل کرتی ہیں اور ان کی خراب قسمت دیکھئے کہ شادی کے بعد ایسا کچھ حادثہ ہوجاتا ہے کہ زندگی بھر انہیں ملازمت کرنا پڑتا ہے۔بہر حال ان دنوں شادی کی حماقتیں بڑھتی ہی جارہی ہیں اور آج کل کے نوجوان یہ سوچ کر پریشان ہیں کہ کیسے ان کے والدین یا دادا دادی اس قدر طویل کامیاب شادی شدہ زندگی گزار پائے۔٭٭