مضامین

ملکہ زبیدہ اور نہر زبیدہ

کہتے ہیں خلیفہ ہارون الرشید سے بہت پہلے بھی ایک دفعہ پانی کا اس قدر پانی سنگین بحران پیدا ہوگیاتھا کہ محض ایک مشکیزہ دس درہم تک بکنے لگا۔ ایک دفعہ جب ملکہ زبیدہ حج کی غرض سے مکہ مکرمہ میں تھیں توانہوں نے اہل مکہ اورحجاج کرام کودرپیش پانی کی قلت دیکھی تو ، اسی لمحے انہوں نے مکہ مکرمہ میں پانی کی قلت پرقابو پانے کے لئے مستقل انتظام کرنے کاارادہ کرلیا۔ اس کا مقصد اہل مکہ اور حجاج کرام کو بلا تعطل پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا...

اس حقیقت سے توکسی کو انکار نہیں کہ تاریخ اچھے الفاظ میں صرف انہی کویاد رکھتی ہے، جنہوں نے مفادعامہ کے لئے بے لوث خدمات سرانجام دی ہوں۔ تاریخ جہاں فلاحی کام کرنے والوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے وہیں سیاہ کرتوت کے حامل افراد کے سیاہ کارناموں کا ذکر بھی تاریخ کی کتابوں میں کثرت سے ملتا ہے۔

جب ہم خلافت عباسیہ کے پانچویں خلیفہ ہارون الرشید کے دورخلافت پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ان کی نیک نامی کے ساتھ کچھ نہ کچھ انتظامی خامیوں کا ذکر بھی تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے۔ ہارون الرشید اس لحاظ سے خوش قسمت گردانے جائیں گے کہ ان کی شریک حیات ایک نیک، پارسا، خداترس اور خدمت خلق کے جذبے سے سرشار خاتون تھیں۔ ان کا ابتدائی نام اگرچہ ام العزیز تھا لیکن ان کے دادا جنہیں ان سے بے پناہ پیارتھا انھیں زبیدہ کہہ کر مخاطب کرتے تھے چنانچہ بچپن ہی سے ان کا یہ نام شہرت اختیارکرگیااوراصل نام ام العزیزقصہ وپارینہ بن گیا۔

زبیدہ 762عیسوی میں موصل میں پیدا ہوئیں۔ اس وقت ان کے والد موصل کے گورنرتھے۔ زبیدہ انتہائی خوش شکل ،ذہین ،نرم گو،رحم دل مخیر اورانتہائی خوش پوش خاتون تھیں۔ سن762عیسوی میں جب یہ بیس برس کی عمر کوپہنچیں توان کی شادی خلیفہ ہارون الرشید سے ہوگئی۔ کہتے ہیں ہارون الرشید اس شادی پراسقدر خوش تھے کہ انہوں نے بلاتفریق ہرخاص وعام کوشادی کی تقریب میں مدعوکیا تھا۔

ملکہ زبیدہ کویہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ وہ23سال تک ایک وسیع وعریض سلطنت کی خاتون اول رہیں۔ ہارون الرشید کا23سالہ دورخلافت ملکہ زبیدہ کے شاہانہ عروج کا دورتھا۔ انہوں نے اقتدار میں رہ کر فلاحی کاموں میں حیرت انگیز طورپر حصہ کیا، انہو ں نے عراق سے مکہ معظمہ تک حاجیوں اور مسافروں کے لئے جگہ جگہ سرائیں تعمیر کرائیں، کنوائیں کھدوائے۔

اس زمانے میں تواتر سے آتی آندھیوں کے سبب سال کے بیشتر حصے یہ رستہ مٹی سے ڈھک جاتا تھا جس کے سبب مسافر اکثرراستہ بھول جاتے اور کئی کئی دن صحرامیں بھٹکتے رہتے تھے۔چنانچہ ملکہ زبیدہ نے لاکھوں دینار خرچ کرکے راستے کے دونوں جانب پختہ دیواریں تعمیر کرائیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکہ نے اپنے ذاتی خرچ پر کئی مسجد یں بنوائیں۔ علاوہ ازیں ملکہ زبیدہ نے ایک نہرعارکوہ بنان سے بیروت تک بنوائی اوراس پر متعدد پل بھی بنوائے ۔ جن کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ انہیں اب بھی تناظرزبیدہ ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

انسائیکلو پیڈیا برتانیکا ‘‘ کے مطابق ملکہ زبیدہ نے ایران کے ایک پرفضا مقام سے متاثرہوکر تبریز نامی ایک شہربھی آباد کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ تاریخ کی کتابوں میں مصرکے تاریخ شہراسکندریہ کاذکر بھی ملتا ہے جو دوسری ہجری میں حادثات زمانہ کے ہاتھوں تقریباً اجڑچکا تھا۔ ملکہ زبیدہ نے اس تاریخی شہرکے تشخیص کو بحال کرنے کے لئے اسکی ازسرنوتعمیر کرائی۔ یوں تو ملکہ زبیدہ کے رفاہی کاموں کی فہرست خاصی طویل ہے لیکن ملکہ کا ایک کارنامہ جورہتی دنیا تک یادکیا جاتا رہے گا، وہ نہرزبیدہ ’’جیسے کٹھن اوربظاہر ناممکن منصوبے کی تکمیل تھی۔

نہرزبیدہ کی تعمیر کا پس منظر: صدیوں سے مکہ مکرمہ اوردیگر سعودی علاقوں میں پانی کی قلت کا مسئلہ درپیش رہا ہے۔ کہتے ہیں خلیفہ ہارون الرشید سے بہت پہلے بھی ایک دفعہ پانی کا اس قدر پانی سنگین بحران پیدا ہوگیاتھا کہ محض ایک مشکیزہ دس درہم تک بکنے لگا۔ ایک دفعہ جب ملکہ زبیدہ حج کی غرض سے مکہ مکرمہ میں تھیں توانہوں نے اہل مکہ اورحجاج کرام کودرپیش پانی کی قلت دیکھی تو ، اسی لمحے انہوں نے مکہ مکرمہ میں پانی کی قلت پرقابو پانے کے لئے مستقل انتظام کرنے کاارادہ کرلیا۔ اس کا مقصد اہل مکہ اور حجاج کرام کو بلا تعطل پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا۔

ملکہ نے ہنگامی بنیادوں پرجب دنیابھر کے ماہرین کویہ ذمہ داری سونپی توطویل جدوجہد کے بعدماہرین نے اطلاع دی کہ انہیں دو جگہوں سے بہتے چشموں کا سراغ ملا ہے۔ ایک مکہ مکرمہ سے لگ بھگ پچیس میل کی دوری پر جبکہ دوسرا چشمہ کراکی پہاڑیوں میں نعمان نامی وادی کے دامن میں واقع ہے۔ان چشموں کا مکہ مکرمہ تک پہنچ ناممکن نہیں تھا کیونکہ درمیان میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے رکاوٹ ڈالتے نظر آرہے تھے۔ ملکہ جواس نیک کام کا تہیہ کرچکی تھیں، انہوں نے اس موقع پر جواحکامات جاری کئے وہ تاریخ میں سنہری حروف سے آج بھی زندہ ہیں…

’’ان چشموں کا پانی مکہ تک پہنچانے کے لئے ہر قیمت پر نہر کھودو… اس کام کے لئے جتنابھی خرچ آئے پروانہ کرو، حتیٰ کہ اگر کوئی مزدور ایک کدال مارنے کی اجرت ایک اشرفی بھی مانگے تو دے دو۔‘‘

ملکہ کا حکم اور ارادے رنگ لے آئے۔ تین سال دن رات ہزاروں مزدور پہاڑیاں کاٹنے میں مشغول رہے۔ منصوبے کے تحت مکہ مکرمہ سے 35 کلو میٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے ”جبال طاد ‘‘سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔ ایک نہر جس کا پانی ”جبال قرا ‘‘ سے ” وادی نعمان ‘‘ کی طرف جاتا تھا اسے بھی نہر زبیدہ میں شامل کر لیا گیا۔ یہ مقام عرفات سے 12 کلومیٹر جنوب مشرق کی جانب واقع تھا۔علاوہ ازیں منٰی کے جنوب میں صحرا کے مقام پر واقع ایک تالاب ”بئیر زبیدہ ‘‘کے نام سے تھا جس میں بارشوں کا پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا۔

چنانچہ اس تالاب سے سات کاریزوں کے ذریعہ پانی نہر تک لے جایا گیا۔ پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ اور ایک عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔اور یوں اللہ نے اہل مکہ اور حجاج کرام کی سن لی اور نہر کا یہ تاریخی منصوبہ تکمیل کو پہنچا۔ بہت سارے لوگوں کے لئے یہ انکشاف شاید نیا ہو گا کہ اس نہر کا بنیادی نام ”عین المشاش ‘‘تھا لیکن اللہ تعالی کو شاید ملکہ زبیدہ کے نام کو اسی نہر کے توسط سے دوام بخشنا مقصود تھا جس کے سبب یہ ”نہر زبیدہ ‘‘کے نام سے شہرت اختیار کر گئی۔ نہر زبیدہ 1200 سال تک مکہ مکرمہ اور ملحقہ علاقوں تک فراہمی آب کا بڑا ذریعہ رہا۔ پھر 1950 کے بعد اس نہر سے پمپوں کے ذریعہ پانی کھینچنے کاسلسلہ زور پکڑتا گیا جو رفتہ رفتہ نہر کی خشکی تک آن پہنچا۔ آج بھی اس کا ایک بڑا حصہ محفوظ حالت میں موجود ہے۔ بلا شبہ یہ ایک کٹھن اور بظاہر ناممکن منصوبہ تھا جسے ملکہ زبیدہ کی مدبرانہ حکمت عملی اور انتھک کاوشوں کے طفیل کامیابی ملی۔ نہر زبیدہ درحقیقت اسلامی ورثے کا ایک نادر نمونہ اور انجنئرنگ کا لازوال شاہکار ہے۔ اس کی تعمیر دیکھ کر آج بھی انجینئر اور ماہر تعمیرات حیرت میں پڑ جاتے ہیں کہ صدیوں پہلے فراہمی آب کے اس عظیم اور کٹھن منصوبے کو کیسے پایہء تکمیل تک پہنچایا گیا ہو گا۔
٭٭٭