نصرت فاطمہ
چونک گئے نا آپ بھی۔ جی ہاں! یہ کمبخت ”سیل“ کا نام ہی کچھ ایسا دل لبھانے والا ہے۔ عام آدمی بالخصوص خواتین اس کے چکر میں پھنس جاتی ہیں۔ سیل اور پھر میگا سیل؟ بلکہ یک نہ شد دو شد.. (یعنی آپ بھرپور انداز میں بیوقوف بننے والے ہیں) توہمیں ان دنوں (فیسٹو سیزن میں) موبائل فون پر اس طرح کے پیغامات تواتر سے موصول ہونے لگے کہ ”ہم تو پیداہی ہوئے آپ کی زندگی آسان بنانے کے لیے، تو آج ہی ہماری میگا سیل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہزار کی چیز سو میں (نوسو نناوے) اور سو کی چیز…… چلیں مفت میں لے جائیں، مگر اس سے پہلے چند ہزار کی شاپنگ ضرور کیجئے۔ تو اس سے یہ ہوگا کہ…آپ کوخوبصورت پیکنگ میں ایک تحفہ ملے گا (جسے آپ پوری زندگی استعمال کرنے کا موقع ہی ڈھونڈتے رہ جائیں گے)اور یہی نہیں آپ بس کچھ ہزار کی شاپنگ کیجئے اور ہم ”فری ڈلیوری“ آپ تک پہنچا دیں گے اور(ہمیں یقین ہے کہ) اس شاپنگ سے نہ صرف آپ کا گھر بھر جائے گا (بیکار چیزوں سے) اور دل بھی۔ (ملال سے)
ایک اور پیغام ملاحظہ فرمائیں ”اس شاندار موقع کا فائدہ اْٹھائیے“ پندرہ ہزار کی گھڑی صرف چودہ ہزار نوسو پچانوے میں لے جائیے۔“ اوہ! پورے پانچ روپے کا فائدہ!
کیا کیا جائے ہم بھولے بھالے عوام کا جو آن لائن پیاز کی ہو یا ٹماٹر کی خریداری، پچاس کی جگہ چالیس روپے کلو خرید کر خود کو بڑے طرم خان سمجھ لیتے ہیں کہ باہر بنڈی سے خریدتے تو پچاس میں ملتی۔“ لیکن یہ سوچنے کی زحمت نہیں کرتے کہ وہ دس روپے بچانے کے چکر میں آپ کو مزید دوسو روپے کا سامان منگواناپڑ گیا۔ یہ تو ہم اور آپ جانتے ہی ہیں کہ آن لائن خریداری کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ہم تو ایسی قوم ہیں کہ بازاروں میں غریب سبزی فروش سے دس کی جگہ پانچ روپے میں دینے پر اصرار کرلیتے ہیں،لیکن آن لائن خریداری میں کسی نقصان کی پرواہ نہیں کرتے۔ خیر، ہم یہ نہیں کہتے کہ آن لائن خریداری سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ ہم تو اس کا فائدہ اٹھانے والوں میں ہی شامل ہیں کہ اچانک کسی مہمان کی آمد پر چائے بنانے کے لیے دودھ منگوانا ہو تو کسی کی منت نہیں کرنی پڑتی اور چائے کے ساتھ ”وائے“ بھی آن لائن آجاتی ہے۔
ہم نے بس سوچا ہی تھاکہ کیوں نہ ہم بھی اس ”میگاسیل“ کا فائدہ اٹھائیں۔یہ تو بھلا ہو سوشل میڈیا کی خبروں کا۔ ہم نے انہی دنوں یہ خبر پڑھی کہ آن لائن شاپنگ سے آپ کو وہ چیز موصول ہورہی ہے جو آپ کے فرشتوں نے بھی نہیں منگوائی۔ ایک جناب نے جدید ماڈل کا کیمرہ آرڈر کیا اور انہیں مل گئے پیکنگ میں آلو.. اور کچھ اسی قسم کا ایک تجربہ ہمارے ساتھ بھی ہوچکا ہے کہ ہم نے آرڈر کچھ کیا اور آیا وہ جو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اور ہاں! اس سلسلہ میں ہم عوام الناس کو خبردار کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ڈسکاؤنٹ اور سیل کے نام سے لبھانے والی ہر ایپ آپ کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی۔ اکثر دھوکہ باز ثابت ہوتی ہیں کہ آپ انہیں کوئی شکایت بھی نہیں کر سکتے تو جناب(بالخصوص خواتین) احتیاط کیاکریں کہ دھوکہ کا شکار نہ ہوں۔
اور یقین کریں کہ ان ”میگا سیل“ کے پیچھے اتنے ہی ”میگا“ قسم کے دماغ ہیں جن کی دولت میں ہم عوام کی بدولت بے تحاشا اضافہ ہی ہورہا ہے۔ ان کمپنیوں کی شہرت کے پیچھے جہاں اشتہارات کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے،وہیں ان کے سلوگن کا بھی… پچھلے دنوں کچھ انوکھے سلوگن ہماری نظر سے گزرے جو ہمیں چونکا گئے۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ یہ ہمیں بہت دلچسپ لگے..
ایک نجومی نے اپنے بورڈ پر سلوگن کچھ یوں لکھوایا۔”آئیے اور صرف سو روپیوں میں اپنی زندگی کے آنے والے ایپی سوڈ دیکھیے۔“
ایک دندان ساز نے تو ہمیں دم بخود کردیا۔ لکھا تھا:
”دانت کوئی بھی توڑے، لگا ہم دیں گے۔“
ایک حجام نے تو کمال کر دیا:
”ہم دل کا بوجھ تو نہیں لیکن سر کا بوجھ ضرور ہلکا کردیں گے۔“
لائٹ کی دکان والا بھلا کسی سے کیا کم ہوگا۔ اسکا کہنا تھا ”آپ کے دماغ کی بتی جلے نہ جلے، ہمارا بلب ضرور جلتا ہے۔“
ایک ریسٹورنٹ والے نے اس طرح توجہ چاہی.. ”یہاں گھر جیسا کھانا نہیں ملتا، آپ اطمینان سے یہاں تشریف لائیں۔“
چٹائی بیچنے والے کا دعویٰ تھا کہ ” ۹۰۰ روپے میں خریدیں، ساری عمر بیٹھ کر کھائیں۔“
اسی طرح الیکٹرانک کی دکان پر سلوگن کچھ یوں دیکھا ”اگر آپ کا کوئی فین نہیں ہے تو یہاں سے لے جائیں۔“
گول گپے والے نے تو حد ہی کردی:
”گول گپے کھانے کے لیے دل بڑا ہو نہ ہو، منہ بڑا ہونا چاہیے۔ پورا منہ کھولیں۔“
پھل والے نے تو بس لاجواب کرڈالا ”آپ بس صبر کریں، پھل ہم دے دیں گے۔“
گھڑی والے کی دکان پر یہ بے ساختہ جملہ تحریر تھا” بھاگتے ہوئے وقت کو اپنے قابو میں رکھیں۔ چاہے دیوار پر ٹانگیں یا اپنے ہاتھ پر باندھیں۔“
ایک دوکان والے نے کمال اعتماد دکھایا۔ اسکی دوکان میں لکھا تھا:
”صبح ۹ سے شام ۶ بجے تک ہم اپنی اوقات میں رہتے ہیں۔“