تلنگانہ

نائیڈو نے تلنگانہ میں سیاسی صف بندی کی بحث چھیڑ دی

این چندرا بابو نائیڈو کی تلنگانہ میں اپنی تلگودیشم پارٹی کو بحال کرنے کی کوشش نے آئندہ سال منعقد شدنی اسمبلی انتخابات سے قبل سیاسی صف بندی سے متعلق ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

حیدرآباد: این چندرا بابو نائیڈو کی تلنگانہ میں اپنی تلگودیشم پارٹی کو بحال کرنے کی کوشش نے آئندہ سال منعقد شدنی اسمبلی انتخابات سے قبل سیاسی صف بندی سے متعلق ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔

ٹی ڈ پی سربراہ این چندرا بابو نائیڈو نے گذشتہ ہفتہ کھمم میں ایک جلسہ عام سے خطاب کیا تھا جس کے بعد سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔ گذشتہ 4 برسوں کے دوران نائیڈو کی یہ تلنگانہ میں پہلی عوامی میٹنگ تھی جس کو زبردست عوامی ردعمل ملا ہے۔

عوام کی کثیر تعداد نے کھمم کے جلسہ میں شرکت کی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ نائیڈو، کی پوری توجہ آندھرا پردیش پر مرکوز ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے سابق مضبوط گڑھ تلنگانہ میں پارٹی کو دوبارہ فعال بنانے کی امید کو نہیں چھوڑا ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں نے بتایا کہ غیر متوقع اس پیش رفت نے 2023 کے اسمبلی انتخابات سے قبل ریاست میں سیاسی مقابلہ کو مزید دلچسپ بنادیا ہے اور امکان ہے کہ کئی پارٹیاں، اقتدار میں آنے کے دعویدار بن گئیں۔ ریاست میں اسمبلی انتخابات کیلئے تقریباً ایک سال کا عرصہ باقی رہ گیا ہے۔

ایسے میں تلنگانہ میں ٹی ڈی پی کی عظمت رفتہ بحال کرنے سے متعلق چندرا بابو نائیڈو کی پالیسی نے تلنگانہ میں اداکار وجنا سینا پارٹی کے سربراہ پون کلیان کی زیر قیادت بی جے پی کے ساتھ ٹی ڈی پی کے وسیع تر اتحاد کے قیام کی نئی سیاسی بحث چھیڑ دی ہے جبکہ ریاست میں برسر اقتدار آنے کیلئے بی جے پی، جارحانہ انداز میں اپنی مہم شروع کررکھی ہے۔

پون کلیان کی پارٹی نے جو اے پی میں اس کی حلیف ہے، پہلے ہی اعلان کیا ہے کہ وہ تلنگانہ میں چنداسمبلی حلقوں سے مقابلہ کرے گی۔جے ایس پی قائد جو 2024 کے اے پی اسمبلی الیکشن کیلئے آندھرا پردیش میں ٹی ڈی پی، بی جے پی، جے ایس پی پر مشتمل ایک عظیم اتحاد تشکیل دینے کیلئے کام کررہے ہیں امکان ہے کہ تلنگانہ میں بھی ایسا ہی ایک محاذ تشکیل دیں گے۔

تلنگانہ میں بی جے پی، خود کو حکمراں جماعت بی آر ایس کا حقیقی متبادل کے طور پر پیش کررہی ہے۔ ایسے مرحلہ میں بی جے پی، تلگودیشم پارٹی اور جے ایس پی (جنا سینا) سے اتحاد کے خلاف رہے گی۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ زعفرانی پارٹی ممکن ہے کہ پہلے محاذ کی تشکیل ہوجائے،پھر اس کا جائزہ لے گی۔

ضرورت پڑنے پر اقتدار کے حصول کے خواب کو شرمند تعبیر بنانے کیلئے اس مجوزہ محاذ کی تائید حاصل کرے گی۔ چندرا بابو نائیڈو، تلنگانہ میں مزید کئی مقامات پر عوامی جلسوں سے خطاب کریں گے۔ خصوصاً کھمم اور دیگر مقامات پر زیادہ سے زیادہ جلسوں کا اہتمام کریں گے۔

جہاں ٹی ڈی پی کو اب بھی زبردست عوامی حمایت حاصل ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار پی رگھویندر ریڈی کا ماننا ہے کہ چندرا بابو نائیڈو سودے بازی کی طاقت بڑھائیں گے۔ سابق میں ٹی ڈی پی۔ بی جے پی اتحاد میں ٹی ڈی پی ایک با اثر شراکت دار تھی مگر اب تلنگانہ میں بی جے پی کا موقف بہتر ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

پہلے، بی جے پی، تلگودیشم پارٹی سے قربت بڑھانا چاہے گی مگر ٹی ڈی پی اور جے ایس پی، زعفرانی جماعت کو اپنی جانب قریب کرنا چاہے گی۔ چندرا بابو نائیڈو پہلے ہی بی جے پی کے ساتھ دوبارہ مفاہمت کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے مگر اس بارے میں اب تک زعفرانی پارٹی کی جانب سے کوئی گرین سگنل نہیں آیا ہے۔

جس کے نائیڈو منتظر ہیں۔ تلنگانہ میں 2014 اور 2018 کے انتخابات میں تلنگانہ جذبات بہت زیادہ شدید تھے۔ ٹی آر ایس نے چندرا بابو نائیڈکو آندھرائی قائد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ نائیڈو تلنگانہ پر کنٹرول کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مگر اب ایسی صورتحال نہیں ہے۔ٹی آ ر ایس اب بی آر ایس میں تبدیل ہوگئی ہے اور بی آر ایس بھی آندھرا پردیش میں اپنی سرگرمیوں کو وسعت دینا چاہتی ہے۔ رگھواریڈی نے یہ بات کہی۔