مضامین

نقل مکانی….کسی کی مجبوری، کسی کے لیے نعمت

نریندر سنگھ بشٹ۔ ہلدوانی، اتراکھنڈ

پہاڑی علاقوں کے لیے نقل مکانی ایک سنگین مسئلہ بن کر ابھر رہی ہے۔ اتراکھنڈ میں روزگار کی کمی کو ریاست میں نقل مکانی کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے نوجوانوں کی بڑی تعداد ریاست سے باہر جا رہی ہے۔
اقتصادی سروے 2016-17 کے مطابق، اتر پردیش کے بعد، اتراکھنڈ ملک کی دوسری ریاست ہے جہاں سب سے زیادہ نقل مکانی ہوئی ہے۔ 1991-2001 کی دہائی میں ریاست میں نقل مکانی کی شرح 2.4 فیصد تھی، جب کہ 2001-2011 میں یہ دگنی ہو کر 4.5 فیصد ہو گئی۔ اتراکھنڈ کے اقتصادی سروے 2019-20 میں معاشی تفاوت، زراعت میں کمی، دیہی معیشت پر زور دیا گیا ہے جو نقل مکانی کی وجوہات ہیں۔سال 2001-2011 کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 10 سالوں میں 6338 گرام پنچایتوں سے 3 لاکھ 83 ہزار 726 لوگ نقل مکانی کر چکے ہیں جنہیں عارضی زمرے میں رکھا گیا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں جو سال بھرمیں ایک بار کسی تہوار یا شادی کے موقع پر گاﺅں کو لوٹتے ہیں اور پھر اپنے میدانی علاقوں میں واپس آجاتے ہیں جبکہ 3946 فاریسٹ پنچایتوں کو مستقل ہجرت میں رکھا گیا جس میں 1 لاکھ 18 ہزار 981 افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی آبائی زمین بیچ کرہمیشہ کے لئے میدانی علاقوں میں ہجرت کر چکے ہیں اور اب دوبارہ کبھی گا¶ں واپس نہیں آ تے ہیں۔ ریاست میں ہجرت کرنے والے زیادہ تر نوجوان 26 سے 35 سال کے درمیان ہیں، جن کی اوسط 42.25 فیصد ہے۔ریاست میں 50 فیصد ہجرت روزگار کے لیے، 15 فیصد تعلیم کے لیے اور 08 فیصد صحت کی سہولیات کی وجہ سے ہونے کا اندازہ ہے، جب کہ پانچ فیصد جنگلی جانوروں سے تنگ آکر نقل مکانی کرتے ہیں۔اس کو روکنے کے لیے حکومت نے 2017 میں کمیشن بھی تشکیل دی تھی ۔ اس کے ساتھ ہی کورونا کے دور میں گا¶ں کی سطح پر مہاجروں کو روزگار فراہم کرنے کے دعوے بھی کیے گئے تھے۔لیکن گاﺅں کی خالی سڑکیں اور گھروں میں پڑے تالے، ہوٹلوں اور کمپنیوں میں بے روزگاروں کا ہجوم اپنی حقیقت بیان کر رہا ہے۔
تاہم، اتراکھنڈ ایک پہاڑی ریاست ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بھی ہے، جس کی وجہ سے یہاں روزگار کے بے پناہ مواقع تلاش کیے جا سکتے ہیںاور اس سے نقل مکانی کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے مناسب منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا منصوبہ جو طویل مدتی اور پائیدار ہو۔بھلے ہی گا¶ں کے نقطہ نظر سے ہجرت تشویشناک اور لعنت ہو، لیکن اس کا فائدہ بھی خوب اٹھایا جا رہا ہے۔ جہاں نوجوان کام کرتے ہیں، چاہے وہ کمپنی ہو، ہوٹل ہو، دکان ہو یا کوئی اور کام کی جگہ، ان سے زیادہ کام لیا جاتا ہے، جس کے لیے انہیں اتنا معاوضہ نہیں دیا جاتاہے۔ ایسے میں اس ہجرت کو ان کمپنیوں یا ہوٹل مالکان کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں سمجھا جا سکتا۔ ان نوجوانوں کی کام کرنے کی صلاحیت سے فائدہ اٹھا کر کمپنیاں زیادہ کام کر کے اپنی پیداوار میں اضافہ کر کے خوب منافع کما رہی ہیں۔ گا¶ں میں روزگار اور انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے یہاں کے نوجوان کم پیسوں میں زیادہ کام کر کے استحصال ہونے پر مجبور ہیں ۔ دوسری جانب پہاڑی علاقے جہاں سے نقل مکانی ہو رہی ہے وہاں کی زمینیں ہل کے انتظار میں بنجر ہو رہی ہیں۔
ریاست میں ایسے بہت سے دور دراز گا¶ں ہیں، جہاں سے سبھی خاندان روزگار کے لیے میدانی علاقوں یا میٹروپولیٹن شہروں میں ہجرت کر گئے ہیں اور ان گا¶ں کو بھوت قرار دیا گیا ہے۔ دیہات کا اس طرح سے خالی ہونا انتہائی تشویشناک ہے جس پر انتظامیہ اور حکومت کی توجہ کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں الموڑہ کے ٹولی گا¶ں کے ایک نوجوان ہریش سنگھ دسیلا کا کہنا ہے کہ ’گا¶ں کی سطح پر انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی جا رہی ہے، لیکن اس تعلیم کی سطح کو اعلیٰ طبقے کا نہیں کہا جا سکتا جو کہ مسابقتی ملازمت کے لیے ضروری ہے۔پہاڑوں میں سرکاری نوکری کا ایک ہی موقع ہے اور وہ ہے فوج۔ جس سے پہاڑوں میں نوجوانوں کا روزگار کسی حد تک بچ گیا ہے۔ حکومتی درخواست نوجوانوں کے حوصلے کو توڑ رہی ہے، سب سے پہلے بڑی مشکل سے پوسٹیں نکل رہی ہیں، جو نکل رہی ہیں اس کا کوئی مستقبل روشن نظر نہیں آتا ہے۔ زیادہ تر سرکاری ملازمتوں میں صرف پیپر لیک ہونے کے معاملات سامنے آرہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت سخت ضابطوں کے ساتھ امتحان کرائے گی، لیکن امتحان کے دوسرے یا تیسرے دن پیپر لیک ہونے کا واقعہ سچ بول رہا ہے۔
نوجوانوں میں سرکاری ملازمتوں کی امید دم توڑ رہی ہیں، ان کے پاس پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ خود روزگار کے لیے فنڈز کی کمی بھی ہے، جب کہ مناسب رہنمائی کا فقدان بھی اس نقل مکانی کی ایک اہم وجہ ہے۔ ہریش کا کہنا ہے کہ جب گھر کا ایک فرد روزگار کے لیے گھر سے نکلتا ہے تو باقی افراد بھی اسی کو فولوکرنے لگ جاتے ہیں اور ہجرت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ دراصل یہ ایک طرح سے ایک رجحان بن جاتا ہے۔ نوجوانوں کا خیال ہے کہ وہ میٹروپولیٹن شہروں کے ہوٹلوں اور کارخانوں میں کم وقت میں اچھا پیسہ کما سکتے ہیں لیکن جب وہ یہاں آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ حقیقت کچھ اور ہے لیکن پیسے کی خواہش ان کے پا¶ں جکڑ لیتی ہے۔ اس طرح نقل مکانی کا یہ سلسلہ بلا روک ٹوک جاری ہے۔
سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کی جنوری 2022 کی رپورٹ کے مطابق دسمبر 2021 تک ملک میں بے روزگاروں کی تعداد 5.3 کروڑ ہے، جس میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد پہاڑی ریاستوں اور ملک کے دور دراز دیہات سے ہے۔ جو حکومت کے لیے بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اس تعداد کو کم کرنا ضروری ہو گیا ہے کیوں کہ ایک طرف بے روزگاری کے باعث نقل مکانی کا عمل بڑھے گا جس سے دیہات خالی ہو جائیں گے اور شہروں پر بوجھ بڑھے گا تو دوسری طرف فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کا نجی شعبہ استحصال کرتا رہے گا۔ اس نعمت اور لعنت کے چکر کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو گا¶ں میں ہی روزگار کی سہولیات اور قرضے فراہم کیے جائیں۔ اگرچہ حکومت نے اس سمت میں بہت سے اقدامات کیے ہیں، لیکن یہ پہل زمینی سطح پر کم اوراشتہارات میں زیادہ نظر آتی ہے۔
٭٭٭