طنز و مزاحمضامین

’’پپو‘‘سے پنوتی‘‘ تک …

حمید عادل

اور ٹیم انڈیا آسٹریلیا سے فائنل میچ ہار گئی …یہ ہار اسی وقت ہندوستانی ٹیم کے کپتان روہت شرما کے چہرے پر نظر آگئی تھی جب وہ ٹاس ہارے تھے …ان کے چہرے پر اڑتی ہوائیوں کو دیکھ کرایسا محسوس ہورہا تھا جیسے وہ ٹاس نہیں میچ ہار چکے ہوں … یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ ٹیم انڈیا ، آسٹریلیا سے نہیں بلکہ خود سے ہاری ہے … ایسی ٹیم جسے ٹورنمنٹ میں کسی دوسری ٹیم نے آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی جرأت نہیں کی ،فائنل میں پہنچتے پہنچتے اپنی مسلسل دس بے مثال فتوحات کو بھول گئی اور خود پرفائنل میچ کا غیر معمولی خوف طاری کرلیا ….ٹیم انڈیا غالباً فلم ’’ شعلے‘‘ کے مشہور و معروف ڈاکو نمادانشور گبر سنگھ کے اس قول کو فرامو ش کرگئی کہ ’’ جو ڈر گیا سمجھو مرگیا‘‘ اس مختصر سے جملے میں زندگی کا بہت بڑا فلسفہ چھپا ہے …کیوں کہ ڈر انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا… ایک عام آدمی جب تک کہ اسے معلوم نہ ہو ، کسی بھی مشہور غنڈے کی دھلائی بآسانی کرسکتا ہے ، لیکن جیسے ہی اسے پتا چلتا ہے کہ اس نے ایک روڈی شیٹر کی دھلائی کردی ہے ،خوف سے اس کے ہاتھ پیر پھول جاتے ہیں …
خیر!کرکٹ ایسا عجیب و غریب کھیل ہے جو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا رہتا ہے …بیس سال قبل جو درد ہم نے آسٹریلیائی ٹیم کے ہاتھوں جھیلا تھا، بیس سال بعد پھر اسی درد کو سہنا پڑا ہے…ہمیں یاد آرہاہے 2003ء کا ورلڈ کپ فائنل، ٹیم انڈیا کا آسٹریلیا سے مقابلہ تھا،ہم بہت پر جوش تھے … میچ کے ہر لمحے سے محفوظ ہونے کی خاطر یار لوگوں کے مشورے پر ہم معہ کھٹی دال ،سادہ چاول اور تلا ہوا گوشت چمن بیگ کے گھر پہنچ گئے تھے، لیکن آسٹریلیا نے ہمیں بری طرح سے پچھاڑ دیا… ہم کھٹی دال کبھی نہیں بنواتے اگر ہمیں پتا ہوتا کہ آسٹریلیا کے ہاتھوں ہمارے دانت ویسے بھی کھٹے ہونے والے ہیں …حالیہ ورلڈ کپ میں بھی ماضی کی غلطیوں کو دہرایا گیا جیسے کہہ رہے ہوں ’’ ہم نہیں سدھریں گے‘‘جس ٹیم کو تاریخ کی سب سے طاقتور ٹیم کہا جارہا تھا وہ اسی دن کمزور ثابت ہوئی جس دن اسے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانا تھا …ٹیم سے زیادہ وہ لوگ کمزور ثابت ہوئے جو ’’ تلوار چمکی یار فرار‘‘ کے مصداق اسٹیڈیم چھوڑ کر بھاگنے لگے …بقول راویش کمار’’ٹیم انڈیا کے کمزور پڑتے ہی یہ نظر آگیا کہ یہ ٹیم اپنے ہی گھر میں کتنی اکیلی ہے ۔ جیسے ہی نظر آنے لگا کہ میچ ہاتھ سے نکل رہا ہے لوگوں نے ٹیم کا حوصلہ بڑھانا ہی چھوڑ دیا …‘‘
ہمیں یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوا کہ بی سی سی آئی نے ورلڈ کپ میچس کو بی گریڈ فلم بنانے پر تل گیا ہے …ایسی ایسی بھولکڑ خاتون کمنٹیٹرس کو کامنٹری کے لیے منتخب کیا گیا ، جو کوٹ پہن کر پتلون پہننا بھول جاتی ہیں،انہیں نہ لاکھوں کروڑوں شائقین کی پرواہ ہے اور نہ ہی سرد موسم کی …سب سے بڑی اور بری بات تو یہ کہ جس کرکٹ کی وہ کامنٹری کررہی ہیں، اس کھیل سے بھی انہیں کوئی محبت نہیں ، ورنہ وہ اس طرح کرکٹ کو نیلام نہیں کرتیں.. . یہ کیسے کرکٹ کو بڑھاوا دینے والے لوگ ہیں جو سرعام کرکٹ کو رسوا کرنے پر تلے ہوئے ہیں؟کیا آج کرکٹ بالی ووڈ کی فلموں کی طرح ہوچکا ہے کہ جسے کسی ایٹم گرل کی ضرورت آن پڑی ہے ؟کیا اب کرکٹ بھی فیملی کے ساتھ دیکھنے کا کھیل نہیں رہا ؟کھیل کھیل میں یہ کیسا کھیل رچا جارہا ہے کہ عریانیت کو بڑے سلیقے سے فروغ دیا جارہا ہے اور چپکے سے یہ پیام دیا جارہا ہے کہ عریانیت کوئی بری بات نہیں ہے۔
آسٹریلیا سے ہار کو وزیراعظم مودی کی موجودگی سے جوڑا گیا…میچ جب ٹیم انڈیا کی گرفت سے چھوٹتا جارہا تھا ایسے میں وزیراعظم کا ہنسنا غضب ڈھا گیا … وہ اسٹیڈیم میں بیٹھے بیٹھے اپنی ہنسی کے لیے دنیا بھر میںمشہور ہوگئے …لیکن یہ ہنسی مونا لیزا کی مسکراہٹ نہیں تھی کہ جس کا ہر کوئی دیوانہ ہوجاتا … مودی کی ہنسی کرکٹ شائقین کو اس قدر ناگوار لگی کہ انہوں نے ’’تم اتنا کیوں مسکرا رہے ہو؟ کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو؟‘‘پوچھنے کی بجائے ان پرسوال داغ بیٹھے کہ ’’ یہ بھی کوئی ہنسنے کا موقع ہے ۔‘‘دیکھتے ہی دیکھتے ٹوئٹر پر وزیراعظم کو ’’ پنوتی‘‘ کہنے کا ایک ٹرینڈ سا چل پڑا اور اسی کو ملحوظ رکھتے ہوئے راہول گاندھی نے وزیراعظم کی موجودگی اور ٹیم کی ہار کو ’’ پنوتی‘‘ لفظ سے جوڑ دیا …
’’ پنوتی‘‘ کے لفظی معنی ’’ منحوس ‘ ‘ ہیں،جس کی ترجمانی ہمارے ہاںلفظ ’’ دلیندر‘‘ کرتا ہے اور اس لفظ سے جڑی کہاوت ’’دلیندر دریا کو گیا تو شنکھ ہاتھ کو آیا ‘‘کافی شہرت رکھتی ہے …ایسا بھی نہیں ہے کہ ’’ پنوتی‘‘ لفظ پہلی بار کسی کو کہا گیا ہے ، یہ لفظ مختلف موقعوں پرمختلف کرداروں کو کہا جاتا رہا ہے … ایک مشہور سیرئیل ہے ’’ طارق مہتا کا الٹا چشمہ ‘‘جس میں جیٹھا لال اپنی پتنی کے بھائی کا سل نمبر ’’ پنوتی‘‘ نام سے محفوظ کرتا ہے ، فلم’’ کھٹا میٹھا ‘‘میں فلم کے ہیرو اکشے کمار جیسے ہی روڈ رولر پر سوار ہوتے ہیں ، وہ بند ہوجاتا ہے ، جس پر جانی لیور جھنجھلا کر کہتے ہیں ’’ اتر نیچے پنوتی کہیں کا ، تو جب بھی سوار ہوتا ہے روڈ رولر بند ہوجاتا ہے ۔فلم ’’ہاوز فل‘‘ میں تو ’’ پنوتی‘‘ لفظ پر مبنی پورا ایک نغمہ تک ہے ، فلم ہنگامہ میں پریش راویل اپنی دھرم پتنی کو’’ پنوتی‘‘ کہتے ہیں …مزے کی بات یہ ہے کہ لفظ ’’پنوتی‘‘ سے جڑے دو اداکار اکشے کمار اور پریش راویل بی جے پی کے چہیتوں میں شمار ہوتے ہیں ۔
دیکھتے ہی دیکھتے لفظ ’’ پنوتی ‘‘ ایسا چل پڑا کہ کسی چائے خانے کی ایک تصورخوب وائرل ہوئی ،جس پر لکھا ہے ’’ پنوتی چائے والا‘‘ پنوتی سے دکھی شخص کو فری چائے دی جائے گی ۔‘‘راویش کمار نے ’’ پنوتی‘‘ کے چلن کو ملحوظ رکھتے ہوئے تحقیق کی تو انہیں دہلی سے ایک ہزار 194کلو میٹر دور نیپال کا ایک شہر ’’ پنوتی‘‘ کے عنوان سے مل ہی گیا …یہ ’’ پنوتی‘‘ نہایت ’’پاوتر‘‘ شہر مانا جاتا ہے اور یہاں ’’ پنوتی مندر‘‘ بھی پایا جاتاہے ۔یہاں ’’ پنوتی کیفے ‘‘ بھی ہے ،اور پنوتی ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر بھی ہے ۔
سوشیل میڈیا پر ایک ویڈیو خوب وائرل ہوئی ہے ، جس میں ایک اندھ بھکت مودی جی کو ’’ پنوتی ‘‘ کہنے پر برہم ہے اور وہ ایک سلجھے ہوئے رپورٹر سے سوال کرتا ہے ’’ مجھے بتاؤ تو مودی جی کیسے پنوتی ہوئے ؟‘‘ رپورٹر کہتا ہے ’’ جب سے مودی وزیراعظم ہوئے ہیں تب ہی سے ہندو خطرے میں ہیں ۔رات میں ایک ایک دو دو بجے مسیج آجاتا ہے کہ جاگو ! ہندو خطرے میں ہیں …پچھلے دس سال سے ہندو چین سے نہیں سوپارہا ہے کیوں کہ اسے ڈر لگا رہتا ہے کہ ادھر اس نے سویا او ر ادھر مسلمانوں نے حملہ کردیا …ملک میں 80فیصد ہندو ہیں پھر بھی وہ خطرے میں ہیں تو بتاؤ مودی پنوتی ہوئے یا نہیں ؟اندھ بھگت اترا کرکہتا ہے ’’ مودی جی اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے سخت کام کررہے ہیں ، وہ کیسے ملک کے لیے پنوتی ہوسکتے ہیں ؟‘‘ رپورٹر جواب دیتا ہے ’’ اٹھارہ گھنٹے کی محنت کے بعد ریزلٹ کیا ہے ؟ نگیٹیو …گلوبل ہنگر انڈکس میں 125ممالک کی فہرست میں ہندوستان 111ویں مقام پر پہنچ گیا ہے …
اندھ بھگت سوال کرتا ہے ’’ تو کیا ہوا؟کیا پچھلے حکومت میں غریب نہیں تھے؟
رپورٹر کہتا ہے ’’غریب تھے، 125کروڑ کی آبادی میں پچیس کروڑ غریب تھے لیکن آج خود سرکار بتاتی ہے کہ 80کروڑ لوگ اتنے غریب ہوگئے ہیں کہ اگر حکومت انہیں پانچ کیلو اناج نہ دے تو وہ بھوکے مر جائیں …بلآخر رپورٹر نہایت سلجھے ہوئے انداز میں، اندھ بھگت کو یہ ماننے پر مجبور کردیتا ہے کہ’’ پنوتی‘‘ کون ہے؟
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم مودی کی نحوست کے اثرات عالمی منظرنامے پر بھی دیکھے جا چکے ہیں۔ وہ کسی خلجی ملک کے دورے پر گئے اور انہوں نے کسی تندرست گھوڑے کی پیٹھ پر ہاتھ کیا پھیرا، وہ گھوڑا مودی جی کے ہندوستان پہنچتے پہنچتے مرگیا… ایک سرخی بنی ’’ مودی کی نحوست نے یورپ کو بھی نہیں بخشا،قیامت ٹوٹ پڑی‘‘ایک ٹی وی کے مطابق نریندر مودی کا ستارہ خود تو چمکا اور وہ وزیراعظم بن گئے لیکن وہ جہاں بھی جاتے ہیں پنوتی یعنی منحوس کہلاتے ہیں۔ مودی آسٹریلیا گئے تو وزیراعظم ٹونی ایبٹ کو خود ان کی پارٹی نے کان سے پکڑ کر نکال باہر کیا۔ کینیڈا میں اسٹیفن ہارپر 10 سال سے وزیراعظم تھے۔ مودی کا وہاں پہنچنا تھا کہ ان کا دھڑن تختہ ہو گیا۔ مودی نیپال پہنچے تو وہاں وزیراعظم سوشیل کوئرالہ کو فارغ کر دیا گیا، چین پہنچے تو وہاں کی معیشت زوال کا شکار ہونے لگی…جرمن کمپنی واکس ویگن دنیا کی سب سے بڑی کار بنانے والی کمپنی تھی۔ مودی جرمنی پہنچے تو یہی کمپنی سب سے بڑی دھوکے باز کمپنی قرار پائی۔ دبئی گئے تو وہاں کے بادشاہ کا بیٹا فوت ہو گیا… رویش کمار دو ٹوک انداز میں کہتے ہیں ’’پنوتی کہنا غلط ہے ، غلط تو مورکھوں کا سردار کہنا بھی ہے ، ان سے زیادہ یہ کہنا غلط ہے کہ کسی خاتون کو ’’ جرسی گائے ‘‘ کہا جائے ..جرسی گائے کہنے والے نے کیا خواتین سے معافی مانگی ہے ؟‘‘ایک اور موقع پر وہ کہتے ہیں’’پنوتی کہنا انہیں برا لگ گیا جو خود کو خوش نصیب اور دوسروں کو بدنصیب سمجھتے تھے ۔ مودی خود کہہ چکے ہیں ’’ اگر نصیب والے سے کام بن رہا ہے تو بدنصیب کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘
یاد رہے کہ کانگریس کی مسلسل ناکامیوں اور راہول گاندھی کی ناسمجھی کو ملحوظ رکھتے ہوئے بی جے پی نے انہیں مذاق کا موضوع بناتے ہوئے ’’ پپو‘‘ کہنا شروع کردیا تھا …کتنی عجیب بات ہے کہ’’ پپو ‘‘کہنے پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا… میڈیا بھی عجیب ہے مودی جی کی غلطیوں پر تو تنقید نہیں کرتا لیکن آج راہول گاندھی پر خوب تنقید کررہا ہے … چنانچہ کانگریس کے پاون کھیڑا نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے ’’ میڈیا کے لوگ گیان چند بنے بیٹھے ہیں ، وہ یہ بتا دیں کہ انہوں نے اپنے کسی بھی ٹوئٹ میںراہول کو برے القاب سے نوازنے پر بی جے پی کوتنقید کا نشانہ بنایا ہو،دوغلی باتیں مت کیجیے، گیان چند بن گئے ہیںتو دونوں طرف گیان بانٹو صرف ہم ہی کو گیان مت بانٹو …‘‘بی جے پی کی ہٹ دھرمی پر راویش کمار کہتے ہیں ’’یہ ٹھیک ویسے ہی ہے جیسے اسرائیل کررہا ہے، وہ کہتا رہتا ہے کہ حماس کی کارروائی پرتنقید کی جائے لیکن خودغزہ پر بم گرانا بند نہیں کرتا …حتیٰ کہ حماس کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود بمباری اور قبضے سے باز نہیں آتا…‘‘
۰۰۰٭٭٭۰۰۰