موت سے عشق…
پہلی بارہم یونیورسٹی میں ملے تھے وہ ہنستی مسکراتی ہوئی کینٹین سے آرہی تھی اور ہم دو دوست میں اور اقبال کینٹین کی طرف جارہے تھے اسے دیکھ کر یوں لگا جیسے اردگرد کی ہر چیز یک دم مسکرااٹھی ہو۔

قمرریاض
وہ بھی غضب کا دن تھا سورج تپتا ہوا اور ہر طرف شور اور دھکم پیل ،بس اسٹینڈ پر کھڑے ہوکر میں اس شور اور لوگوں کی بھیڑ کو اپنے اندر اپنے ہی انداز میں محسوس کررہا تھا۔ ہرکسی کو جلدی تھی، کسی کو گھر جانے کی تو کسی کو کسی سے ملنے کی اور مجھے انتظار تھا اس چہرے کا جودوپہر تین بجے بس اسٹینڈ پرآکر گاڑی پکڑتا اور روانہ ہوجاتا میں اس کی بس ایک جھلک دیکھنے کیلئے بڑی دور سے بس اسٹینڈ پر ہر روز آتا۔
آج بھی اسے دیکھا ایک عجب طرح کا سکون اور خاموشی تھی اس کے چہرے پر… کبھی کبھی جب انسان دل سے کسی بات پر سمجھوتہ کرلیتا ہے تو ایسے ہی خاموشی اور پرسکون ہوجاتا ہے مگر صرف دیکھنے والوں کو ایسا لگتا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ دل کے اندر اک کسک اپنا نشان چھوڑ جاتی ہے ایسی کسک جو عمر کی کسی دہلیز پر پیچھا نہیں چھوڑتی بس کوئی دیا جلائے رکھتی ہے۔
بہت عرصہ کے بعد اسے اچانک بس اسٹینڈ پر دیکھا تھا جب سے مسلسل ہر روز میں بس اسٹینڈ پر آتا اسے دیکھتا اور چپ چاپ واپس چلا جاتا تھوڑی سی چھان بین پر معلوم ہوا کہ وہ شہر سے دور کسی اسکول میںپڑھاتی ہے ۔
پہلی بارہم یونیورسٹی میں ملے تھے وہ ہنستی مسکراتی ہوئی کینٹین سے آرہی تھی اور ہم دو دوست میں اور اقبال کینٹین کی طرف جارہے تھے اسے دیکھ کر یوں لگا جیسے اردگرد کی ہر چیز یک دم مسکرااٹھی ہو۔ اقبال نے مجھے دیکھا اور کہا ’’ اس پر اب لٹومت ہوجانا۔ جلدی چلو بہت زور کی بھوک لگی ہے۔‘‘
اس نے بھی ایک پل کیلئے مڑ کر دیکھا تھا۔ کتنی خوبصورت آنکھیں تھی گہری نیلی۔ وہ مجھے اسی ایک پل میں ذہن نشین ہوگئی بھر پور لڑکی تھی ، زندگی سے بھری ہوئی… کچھ دن گزر گئے اس دوران میں کئی بار کینٹین گیا مگر اسے نہیں دیکھا۔
اس کا خیال تھا کہ لباس کی طرح دل ودماغ سے چپک کر رہ گیا تھا اگلے روز جمعہ تھا مجھے کچھ کام بھی تھے سوچا کل چھٹی کر لوں کچھ خاص پیریڈ بھی نہیں ہیں سو یونیورسٹی نہیں گیا اسی طرح کچھ اور دن گزرگئے اب اگر کینٹین پر نہ بھی جانا ہوتا تو جو بھی کلاس خالی ہوتی چلاجاتا۔
پھر ایک دن کینٹین پر چائے پیتے اسے دیکھا میری سانسیں بے ترتیب ہونے لگی وہ کسی اپسرا سے کم نہیںلگ رہی تھی آج وہ اکیلی نہیں تھی اور چائے پیتے ہوئے اپنی ایک دوست کے ساتھ بیٹھی کسی کتاب میںگم تھی۔
میں بے احتیاط اٹھ کر اس کے پاس چلاگیا کچھ لڑکوں نے اس ہمت پر رشک آمیز نظروںسے میری طرف دیکھا اور کچھ کے ماتھے پر بل پڑچکے تھے۔ میں سب سے بے نیاز اس کی طرف بڑھتا چلاگیا۔ میں ایم اے انگلش کا طالب علم تھا انگریزی لٹریچر کے علاوہ اردو ادب پڑھنے اور خود بھی لکھنے کا شوق ہونے کی وجہ سے ادبی سرگرمیوں میں بھی نمایاں تھا اس لئے اعتماد کی کمی نہ تھی دیکھنے میں بھی اچھا خاصا تھا۔
میں نے کہا ایکسکیوز می آپ نئی آئی ہو؟ اس دن آپ کو دیکھا آپ دوستوں کے ساتھ تھیں مجھے آپ دوسروں سے مختلف لگیں آپ بہت خوبصورت ہیں… آپ کو دیکھاتو رہا نہیں گیا اور آپ کی طرف آگیا ،اس نے میری پوری بات سن کر کہا:
’’ کیا آپ ہر کسی سے یہی کہتے ہو؟‘‘
میرے اعتماد کا بھرتہ بن چکاتھا میں نے گڑبڑاکر کہا : ’’نہیں نہیں میںتو جی…وہ تو جی… جی بس آپ …پہلی بار ایسا ہوا ہے۔‘‘
اس نے پوچھا کونسی کلاس میںہو ؟میں نے بتایا تو بولی پھر ٹھیک ہے آپ انگریزی میں میری مدد کرسکتے ہیں وہ BSC کی اسٹوڈنٹ تھی مگر انگریزی سمجھنے میں تھوڑ ی کمزور تھی۔ میں نے تھوڑی دیر گرامر اور اسٹڈی کے حوالے سے کچھ باتیں کی اس کا شکریہ ادا کیا اور پھر وہاں سے چلاآیا، اس کے لہجے میں کچھ نہ تھا ، نہ خوشی نہ دوستی کا شائبہ بس اٹھتے ہی اس نے اتنا کہا مجھے طیبہ کہتے ہیں اورآپ؟ میں نے کہاراحیل جواد… جی شکریہ اور پھر وہاں سے چلی گئی۔
رات بھراسے سوچتا رہا اس کا نام میرے ذہن میں گونجتا رہا اگلے دن پھر جمعہ تھا، دو تین دن اسی طرح گزرگئے ایک دن پھر اسے دیکھا ،اس دن بارش ہورہی تھی وہ گلابی اورآسمانی رنگ کی شلوار قمیض پہنے دو موٹی موٹی کتابیں اٹھائے ہوئے تھی، ایک لمحے کیلئے مجھے اس پر بڑا ترس آیا ، اتنی معصوم سی لڑکی یہ سب کیسے کرلیتی ہے اور پھر خود ہی ہنس پڑا کہ نہیں… تعلیم بہت ضروری ہوتی ہے اس نے مجھے دیکھ لیا تھا میری مسکراہٹ کاجواب بھی مسکراہٹ سے دیا۔
میرے لئے تو جیسے جلترنگ بج اٹھی میں اٹھا اوراس کے پاس چلا گیا اس نے کہا راحیل جو اد آپ مجھ سے دو سال سینئر ہو،استقبالیہ میں ادبی بورڈ پر آپ کی تصویریں دیکھی ہیں ، شاعری بھی کرتے ہو لفظ بھی سوچتے ہو ۔ یقینا کسی سے پیار بھی کرتے ہوگے، ایک بات پوچھنی تھی آپ سے ؟
کوئی موت سے محبت کیوں نہیں کرتا کوئی موت سے عشق کیوں نہیں کرتا؟ سب صرف زندگی سے ہی پیار کیوںکرتے ہیں؟ میں سٹپٹا گیا… میری ادبی قابلیت اور اعتماد پھر گڑبڑا گئے… میں نے کہا یہ کیسا سوال ہے؟
موت سے محبت کیسے ہوسکتی ہے موت سے بھلا عشق کوئی کیوں کرے گا؟ جو فنا ہوا س سے لگاو کیسا ؟موت سے محبت تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی خودکشی کی طرف بڑھالے …اس نے کہا:’’ نہیں کبھی کوئی شخص دیکھا ہے جو بظاہر بہت آسودہ ہو اورکہے مجھے موت کا بڑی شدت سے انتظار ہے کیونکہ مجھے موت سے محبت ہے۔‘‘
میںسوچ میںپڑگیا خدا سے محبت کرنے والے لوگ دیکھے ہیں اس کے بندوں سے محبت کرتے لوگ بھی دیکھے ہیں لیکن موت سے محبت کی باتیں کرنے والی کوئی پہلی بار دیکھی ہے… میرے پاس کوئی جواب نہ تھا ادھر ادھر کی باتیں کرکے ہم لوگ وہاںسے اٹھ گئے لیکن یہ سوال میرے ذہن میں محو نہ ہوسکا زندگی سے محبت تو سب لوگ کرتے ہیں لیکن موت سے محبت؟ یہ کیا بات ہوئی؟
طیبہ میں ایسی کوئی بات ضرور تھی کہ ہرگزرتے دن کے ساتھ میں اس کے قریب ہوتاچلاگیا۔ دن ، مہینے سال گزرتے رہے دوستی ہوئی مباحثے ہوئے بھانت بھانت کی باتیں کرتے کب پیار ہوگیا، پتہ ہی نہیں چلا۔ ایک دن اس کے ڈیپاٹمنٹ کے باہر بیٹھے ہوئے میں نے اظہار کیا کہ طیبہ میںتم سے پیار کرنے لگاہوں… اس کا چہرہ حیا سے تپنے لگا ، سفید چہرے پر سرخ لالی چھانے لگی مگر جواب بڑاعجیب تھا تمہیں پتہ ہے راحیل جو اد چاہت اورپیار میں کیا فرق ہوتاہے؟
چاہت کم یازیادہ ہوتی رہتی ہے کبھی زیادہ عرصہ کیلئے اورکبھی کم مدت کیلئے اور کبھی ختم ہوجاتی ہے مگر پیار کم یا زیادہ ضرور ہوسکتا ہے لیکن ختم نہیں ہوتا محبت ہمیشہ موجود رہتی ہے اور یہ پیار اور محبت حد سے زیادہ بڑھ جائے تو عشق کہلاتا ہے میں پچھلی کئی راتوںسے یہ سوچتی رہی ہوں کہ مجھے تم سے چاہت ہے یا پیارعشق ہے یا محبت مگر میںفیصلہ نہیںکرپائی لیکن ایک بات ضرور ہے تم بہت اچھے ہو ، میرے دل کے بہت قریب ہو، وہ اک ہی رو میں یہ کہتی چلی گئی…
کثروہ مجھے بتاتی جب پرندے آسمان سے شام کو ٹولیوں کی صورت گزرتے ہوئے اپنے گھروں کو جاتے ہیں تو میںسوچتی ہوں یہ ڈھلتی ہوئی شام اپنے اندر کتنے ہی رنگوں کو سمیٹ لیتی ہے۔
دن کا سورج اپنی تمازت سے کتنے ہی چہروں کو روشن کردیتاہے چلتے ہوئے لوگوں کا سفر موت سے پہلے کہیں ایک جگہ رک کیوں نہیں جاتا وہ ایسے ہی کھوئے کھوئے انداز میں باتیں کرتی رہتی اور میں اس کے دلکش چہرے اور بولتی ہوئی گہری نیلی آنکھوں کو دیکھتارہتا میں اس سے کہتا: طیبہ تمہاری آنکھیں کتنی پیاری ہیں تم جب مسکراتی ہوتو اوربھی حسین لگتی ہو۔
تمہارے سیاہ بال کسی ریشم کی طرح ملائم اورسلکی ہیں مجھے جب بھی تمہارا خیال آتاہے میری روح خوشی سے بھر جاتی ہے تم خوبصورت شام کی طرح ہو اوراس پہلی بارش کی طرح جو زمین پر پڑتی ہے تو دھرتی مہکنے لگتی ہے وہ سب سنتی اور ہنس پڑتی اورکہتی تم تو پاگل ہو شاعر ہونا اس لئے ہر بات میں شاعری ڈھونڈ لیتے ہو میں تو بس عام سی ایک لڑکی ہوں چھوڑومیرا ہاتھ۔
مگر وہ عام نہیں تھی موسموں، پرندوں، رنگوں ،خوابوں، پیار، زندگی اورموت کے فلسفے پر بات کرنے والی لڑکی عام کیسے ہوسکتی ہے ؟ میری چاہت اور پیار اس کیلئے بڑھتاجارہا تھا اس کا احساس تنہائی میںمجھے اپنی لپیٹ میں لے لیتا وہ پاس ہوتی تو یوں محسوس ہوتا جیسے وہی پوری کائنات ہے اور دور چلی جاتی تو لگتا سارے موسم مجھ سے روٹھ گئے ہیں ۔ اردگرد کی ہر چیز مجھ سے ناراض ہوگئی ہے جیسے یہ سب اس کے موجودہونے کی وجہ سے خوش باش تھے، اس کے چلے جانے پر ملول ہوگئے ہیں۔
گرمیوں کی رات تھی چھت پر لیٹے ہوئے میں نے ایک ٹوٹے تارے کو دیکھا اورفوراً دعامانگ لی سن رکھاتھا کہ ٹوٹے تارے کو دیکھ کر جو دعا مانگی جائے ضرور قبول ہوتی ہے۔ میں نے خدا سے اسے مانگ لیا۔
اگلے دن وہ کالج آئی تو اسکا چہرہ بہت زرد ہورہاتھا اس سے پہلے کہ میں اسے کل رات کا واقعہ بتاتااس نے مجھے اس بات سے لرزادیا کہ میرا نکاح ہورہا ہے میرے والد کے دوست کا بیٹاامریکہ سے کچھ دنوں کیلئے گائوں آیا ہے اوراس کی آمد کا مقصد شادی کرنا ہے ،رات میرے والد نے پوچھا اور میں نے سر تسلیم خم کردیا ہے میرے جسم میں جیسے خون منجمد ہوگیا غصے سے تھر تھر کانپتے میں نے طیبہ سے کہا :یہ تم نے کیا کیاہم اتنے عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے ہیں اور تم نے ایک دن کی مہلت لے کر مجھ سے پوچھنا تک گوارا نہ کیا تعلیم ختم ہونے کاانتظار نہ کیا کہ میں رشتہ بھیج سکوں یہ ہے تمہاری محبت، کسی غیر کی ہونے جارہی ہے جسے جانتی تک نہیں؟
میں نے ٹوٹ کر تم سے پیار کیا ہے کیا اس کی کوئی قدر نہیں کوئی قیمت نہیں؟ کوئی اہمیت نہیں؟ تم بے وفا ہو…پیسے پر مرمٹیں میںاپنی ہی رہ میں بولے جارہا تھا اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے اس نے صرف ایک سوال پوچھا’’ راحیل جواد( وہ ہمیشہ مجھے میرے نام سے پکارتی تھی) بولو کیا قیمت چاہتے ہو اپنے پیار کی؟ مجھے ٹوٹ کر چاہنے کی ؟ بولو کیا قیمت چاہتے ہو؟‘‘
ٹوٹتے تاروں کو دیکھ کر جو دعا مانگی جائے وہ پوری ہوتی ہے یہ بات اب جھوٹ ثابت ہوچکی تھی۔میراغصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا مجھے یوں لگا کہ جیسے میں بہت کچھ غلط کہہ گیا ہوں ،اس نے کہا’’ راحیل جواد میں نے کہا تھا ناکہ چاہت کبھی نہ کبھی ختم ہوجاتی ہے پیار ختم نہیں ہوتا آج تمہارا پیار نہیں چاہت بول رہی ہے اورتمہاری چاہت اپنی قیمت وصول کرنا چاہتی ہے بولو کیا قیمت چاہتے ہو تم…؟
میں ادا کرنے کیلئے تیار ہوں جو دل اور روح سے تمہارا ہوچکاہو ں اس کا جسم کسی اور کاہوبھی جائے تو کیا فرق پڑتا ہے وہ تو ایک لاش سے بڑھ کر نہیں ہوتا موت سے پیار کیا ہوتا ہے شائد تم کبھی نہیں سمجھ پاوگے میں نے تم سے پیار کیا مگر ایک بیٹی ہونے کے ناطے باپ کے مان کو توڑ نہیںپائی، ان کی عزت کی طرف اٹھی ہوئی ایک انگلی میری موت سے کم نہ ہوتی تم تو مرد ہو کچھ بھی کرسکتے ہو لیکن میں ایک لڑکی ہوں،
اس بات کا پوری طرح احساس ہے مجھے راحیل جواد حاصل ہی سب کچھ نہیں ہوتا لاحاصلی میں جی کرہی پیار عشق بنتا ہے، وہی عشق جو موت کی طلب جگادیتا ہے لیکن مرنے نہیں دیتا، موت سے پیار بڑھادیتا ہے، انسان جلتا نہیں بس ایک نامعلوم سی آگ میں ساری عمر سلگتا رہتا ہے، ایسے لوگ زندگی میں نہیں موت کے احساس میں زندہ رہتے ہیں، راحیل جواد قیمتیں چیزوں کی ہوا کرتی ہیں انسانوں کی نہیں…محبت کی نہیں…””تم میرے لئے کیا ہو یہ تم کبھی نہیں جان پائے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ میں شروع دن سے ہی تم سے پیار کرنے لگی تھی، ایسا پیار جو لاحاصلی میں بھی مجھے زندہ رکھ پائے گا۔
مگر میں کسی اور کی ہوکر بھی موت کے احساس میںزندہ رہوںگی… تم میرے ظاہری روپ سے پیار کرتے ہو جسے میںچاہت کا نام دیتی ہوںتم مجھے پاسکتے ہو مگر پانے کے بعد بہت جلد تمہاری چاہت ختم ہونے لگے گی میںاسی دن سے ڈرتی ہوں ،میںتمہیں کھونا نہیںچاہتی تھی اس لئے میں نے کسی اور کی ہوکر بھی تمہاری یادوں میںزندہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ "”
وہ یونیورسٹی میں میراآخر ی سا ل تھا میں نے یونیورسٹی چھوڑ دی اس کے بعد میں اسے کبھی نہیں ملا میں ا سے جدا تو ہوگیا مگر اس کی یادیں مجھ سے جدا نہ ہوسکیں …رات ہوتی تو میں زندگی، موت اورعشق کے فلسفے میںگم ہوجاتا تین سال بعد میری حالت دیکھتے ہوئے میرے گھر والوں نے میری خاندان سے لڑکی ڈھونڈکر شادی کروادی کہ پتہ نہیں کن سوچوں میںگم رہتا ہے پھر میرے دو بچے ہوئے راحت میری بیوی نے میرا بہت خیال رکھا مگر ایک کسک تھی جو سینے میں ہمیشہ چھپی رہتی، میں اسے کبھی بھلانہیں پایا میںاسے بتانا چاہتا تھا کہ طیبہ میں کسی اور کاہوکربھی کسی اور کا نہیں ہوسکا ،اپنے ہی دائرے میں مقید ہوگیا ہوں۔
میں ہمیشہ اسے بے وفا سمجھتا رہا مگر اس کیلئے اپنے اندر محبت کو کم نہ کر سکا ،اکثر سوچتادلنشین باتیں کرنے اور خوبصورت دکھنے والے لوگ جھوٹے ہوتے ہیں پھر ایک مدت بعد اس دن اسے بس اسٹینڈ پردیکھا تھا ہر ہر روز دیکھتا مگر آج ایک خاص بات یہ ہوئی کہ اس کے ساتھ نویا دس سال کا ایک بچہ تھا وہ بچے کو بس میں بٹھاکر کچھ دیر کیلئے سامنے والے کیفے ٹیریا پر گئی، بس میںابھی اک دکا مسافر سوار تھے میںجلدی سے اس بچے کے پاس گیا اور پوچھا بیٹے! وہ جو ابھی آپ کے پاس سے گئی ہیں کیا وہ آپ کی ماما ہیں…؟ بچے نے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے پوچھا بیٹا اپ کے پاپا کہاں ہیں؟ اس نے عجیب اداسی بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور کہا وہ ہمارے ساتھ نہیں رہتے۔
مجھے نہیںپتہ کیوں ایک عجیب سادرد طیبہ کیلئے میرے دل میں یکا یک جاگ اٹھا وہ جانے کب سے تنہا اس زندگی کو جھیل رہی تھی اس کے باپ کے محض ایک غلط فیصلے نے آج اسے زمانے کی بے رحم سختیوں کے آگے ایک بچے کے ساتھ لاکھڑا کیا تھا اس سے پہلے کہ وہ واپس آتی ، میں نے جلدی سے بچے سے پوچھا بیٹا آپ کانام…؟ اس نے جواب دیا…راحیل جواد۔‘‘
او میرے خدایا مجھے ایسا لگا میرے قدموں کے نیچے کی زمین پھٹ گئی ہو یا آسمان میرے سر پر آن گراہو میں لرزاٹھا آج پتہ چلا چاہت اور پیار میںفرق کیاہوتا ہے…
لاحاصلی میں حاصل کسے کہتے ، عشق کسے کہتے ہیں موت کسے کہتے ہیں!!
٭٭٭