اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ: ایک عبقری شخصیت
چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن، مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے 10 شوال المکرم کی مناسبت سے حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت پر اُن کی حیات و خدمات پر ایک فکری نشست میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امام احمد رضا خان بریلویؒ (م 1340ھ/1921ء) اپنے زمانے کے عظیم دینی پیشوا اور ملت کے رہنما تھے۔

حیدرآباد: چیئرمین لینگویجز ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن، مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے 10 شوال المکرم کی مناسبت سے حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت پر اُن کی حیات و خدمات پر ایک فکری نشست میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امام احمد رضا خان بریلویؒ (م 1340ھ/1921ء) اپنے زمانے کے عظیم دینی پیشوا اور ملت کے رہنما تھے۔
انہوں نے فرمایا کہ امام احمد رضاؒ نے عقیدہ اہلِ سنت کے تحفظ اور فروغ میں بے مثال کردار ادا کیا۔ امتِ مسلمہ کا اتحاد، فلاح و نجات، اور عشقِ رسولﷺ ان کی فکر کے بنیادی عناصر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ عالمِ اسلام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں یکجا ہو جائے۔ اُنہوں نے دینِ مصطفیٰ، علمِ مصطفیٰ، اور عشقِ مصطفیٰﷺ کو کامیابی کا راز قرار دیا۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ بھی اسی فکر کے داعی تھے: "بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است”
اعلیٰ حضرتؒ نہ صرف عظیم مجدد تھے بلکہ ایک بلند پایہ فقیہ، دانشور اور مصلح بھی تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے ان کی فلاح کے لیے عملی تدابیر پیش کیں۔ ان کی کوشش یہی رہی کہ اسلامی تہذیب دنیا کی دیگر تہذیبوں پر غالب ہو اور مسلم قوم ہر میدان میں کامیاب نظر آئے۔
مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری، خطیب و امام مسجد، تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤس، نے مزید فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر دور میں ایک مجاہد کو بھیجتا ہے جو امت کی رہنمائی کرتا ہے۔ امام احمد رضا خانؒ بھی ایسی ہی مبارک ہستی تھے جن کا علم و فیضان آج بھی جاری و ساری ہے۔ اُن کی باتیں، تحریریں اور فتاویٰ آج بھی راہنمائی کا ذریعہ ہیں۔
ولادت: آپ کی ولادت 10 شوال 1272ھ مطابق 14 جون 1856ء بروز ہفتہ، بریلی شریف کے محلہ جسولی میں ہوئی۔ آپ کا پیدائشی نام محمد اور تاریخی نام المختار رکھا گیا، جبکہ جد امجد رضا علی خان نے آپ کا نام احمد رضا تجویز فرمایا۔
تعلیم و تربیت: آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد حضرت نقی علی خانؒ سے حاصل کی۔ چھ سال کی عمر میں قرآن کریم مکمل کیا، آٹھ سال کی عمر میں عربی کتاب پر شرح لکھی، اور دس سال کی عمر میں مسلم الثبوت پر حاشیہ تحریر فرمایا۔ چھوٹی سی عمر میں ہی آپ کی علمی صلاحیت سب پر ظاہر ہوگئی۔
آپ نے درس و تدریس اور فتویٰ نویسی کا آغاز 14 شعبان کو اپنی فراغت کے دن کیا۔
تصانیف: آپ کی تصانیف تقریباً پچاس سے زائد علوم و فنون پر مشتمل ہیں۔ سب سے مشہور کتاب "فتاویٰ رضویہ” ہے جو 30 جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ آپ کا ترجمہ قرآن "کنزالایمان” اور نعتیہ دیوان "حدائق بخشش” بھی بہت معروف ہیں۔
جب آپ نے حجِ ثانی کے دوران مکہ مکرمہ میں منکرین علم غیب کے رد میں صرف 8 گھنٹوں میں کتاب "الدولۃ المکیہ بالمادۃ الغیبیہ” لکھی تو عرب و عجم کے علماء نے آپ کو مجدد کے لقب سے نوازا۔
شخصیت: اعلیٰ حضرتؒ نہایت متقی، باحیا، اور عبادت گزار انسان تھے۔ وہ بچپن سے ہی نماز و روزہ کے پابند تھے اور اجنبی عورت کو دیکھنے سے بھی حیا فرماتے تھے۔ ان کا تقویٰ اور پرہیزگاری قابلِ رشک تھی۔
آپ کے مشہور القابات میں "اعلیٰ حضرت” سب سے نمایاں ہے، جو آج بھی ہر زبان پر ہے۔ عالمِ سنیت میں آپ کا نام پہچان بن چکا ہے اور سنیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات اور ان کا فیضان آج بھی دنیا بھر کے اہلِ سنت کے لیے مشعل راہ ہے۔