حیدرآباد

یونیورسٹی آف حیدرآباد  میں کل ہند مشاعرہ، شعراء نے اپنے کلام سے کیمپس کی سرد رات کو گرما دیا

پروفیسر اکرام الدین اورپروفیسر فضل اللہ مکرم بحثیت مہمانان خصوصی اسٹیج کی زینت میں اضافہ کیا۔لکھنو سے تشریف لائے پروفیسر عباس رضا نیر نے بحسن وخوبی نظامت کے فرائض انجام دئے۔

حیدرآباد: یونیورسٹی آف  حیدرآباد کے زیر اہتمام کل رات آڈیٹوریم، اسکول آف ہیومانٹیز، یونیورسٹی آف حیدرآباد گچی باولی میں ایک شاندار کل ہند مشاعرہ کا انعقاد عمل میں آیا اور شائد تاریخ اردو ادب میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ ایک ساتھ ایک مشاعرہ کی دو اشخاص نے صدارت کی ہو پہلے صدر کشمیر سے تشریف لائے بزرگ شاعرپروفیسر زماں آزردہ اور دوسرے صدر حیدرآباد کےکہنہ مشق شاعر ادیب و محقق  و نقاد پروفیسر رحمت یوسف زئی تھے۔

متعلقہ خبریں
ایچ سی یو، ایشیاء کی 12فیصد ٹاپ یونیورسٹیوں میں شامل
یونیورسٹی آف حیدرآباد کے 3 سابق طلباء تلنگانہ اسمبلی کیلئے منتخب

پروفیسر اکرام الدین اورپروفیسر فضل اللہ مکرم بحثیت مہمانان خصوصی اسٹیج کی زینت میں اضافہ کیا۔لکھنو سے تشریف لائے پروفیسر عباس رضا نیر نے بحسن وخوبی  نظامت کے فرائض انجام دئے۔

ناظم مشاعرہ نے سب سے پہلے مشاعرہ کا آغاز نعت اقدس سے کرنے کے لئے ڈاکٹر طیب پاشاہ قادری کو آواز دی اس کے بعدباقاعدہ مشاعرہ کا آغاز ہوا مولانا آزاد نیشنل اردو یونیوسٹی کے تین طلباء نے ابتدا میں اپنااپنا کلام پیش کیا۔

ارشد ہمراز ,تنویر کوثر اورشبلی آزاد کے بعدمیزبان شعراء کی فہرست سے پہلی شاعرہ آرزو مہک کو مائیک پر بلایا گیا اس کے بعدحیدرآباد کے بزرگ و معتبر استاد شاعر  مصحف اقبال توصیفی جنہیں جلد رخصت ہونا تھا ان ہی کے کہنے پر زحمت کلام دی گئی ان کے بعد مترنم شاعر شکیل حیدرکانپوری نے اپنے ترنم سے سامعین کا دل جیت لیا پھر ایک بارناظم مشاعرہ نے خواتین کےحقوق کی علمبردار رفیعہ نوشین کو آواز دی۔

مشاعرہ گاہ میں پھیلی قدرےخاموشی کو دیکھتے ہوئے ناظم مشاعرہ نے طنز و مزاح کے معروف شاعر لطیف الدین لطیف کو مائیک پر بلایاانہوں نے اپنے مزاحیہ کلام سے محفل کو زعفران زار بنادیا جس کے بعد مشاعرہ کی باگ ڈوردکن کے ممتازشاعرو صحافی سعداللہ خان سبیل کو سونپی گئی جن کی شاعری کو سامعین بالخصوص نوجوان طبقہ نے داد و تحسین سےنوازا۔اب باری تھی جدہ میں مقیم حیدرآبادی شاعرالطاف شہر یارکی ان کے کلام اور لب و لہجہ کو شرف قبولیت بخشا گیا۔

 محفل کو پھر ایک بار مزاح کے ماحول میں ڈھالنے کے لئے طنز و مزاح کے بزرگ شاعرفرید سحرکو دعوت سخن دی گئی ان کے کلام کو بھی پسند کیا گیا جس کے بعد ممتاز مترنم شاعرڈاکٹر طیب پاشاہ قادری کو مائیک پر بلایا گیا انہوں نے اپنے معیاری کلام کو خوبصورت ترنم میں پیش کرکے خوب داد پائی ۔

اب باری تھی حیدرآباد کے اس شاعر کی جو  اپنے منفرد لب ولہجے سے بہت قلیل مدت میں اپنی الگ پہچان بنالی ہے سیف نظامی کے اچھوتے اسلوب کو سامعین نے بہت پسند کیا پھر ناظم مشاعرہ نے مائیک سردار سلیم کے حوالے کیا ان کے کلام کو بھی سامعین نے پسند کیا میزبان شعراء کے فہرست کےآخری شاعر ڈاکٹر روف خیر نے حسب حال اپنا معیاری اور استادانہ کلام سے مشاعرہ کو بام عروج پر پہچایا۔مولانا آزاد یونیورسٹی کے پروفیسرسید محمود کاظمی نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔

  نسائی لہجہ کی ترجمان کلکتہ سے تشریف لائی شاعرہ ڈاکٹرذرینہ زرین نے اپنے کلام کے ذریعہ زرین مشوروں سے نوازا پھر خود ناظم مشاعرہ پروفیسر عباس رضا نیرلکھنوئی نے مشاعرہ کے وقار میں اضافہ کیا،دہلی سے آئےپروفیسر ابوبکرعباد اورعلی گڑھ سے تشریف لائے پروفیسر شہاب الدین ثاقب  کے علاوہ صدور مشاعرہ پروفیسر رحمت یوسف زئی اورپروفیسر  زماں آزردہ نے اپنا کلام پیش کرکے دادو تحسین کے مستحق قرار پائے۔ زماں آزردہ نے  اردو کےعلاوہ کشمیری زبان میں بھی شعر پڑھے۔

 کنونیر مشاعرہ ڈاکٹر عرشیہ جبین نے تمام شعراء کا خیر مقدم کیا آخر میں تمام شعرا کو یونیوسٹی کی جانب سے   کو  تہنیت پیش کی گئی۔ کوکنونیرڈاکٹر کاشف اور ریسرچ اسکالر کفیل احمد نے مشاعرہ کے انتظام و انصرام میں بھر پور حصہ لیا۔ باذوق سامعین سے مشاعرہ گاہ کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔جن میں طلباء طالبات کے علاوہ مختلف یونیورسٹیوں کے پروفیسرس بھی شامل ہیں۔