یوروپ

عریاں تصاویر اسکینڈل، بی بی سی نے ’انٹرنل انکوائری دوبارہ شروع کردی

برطانیہ کے معروف نیوز اینکر ہیو ایڈورڈز کی اہلیہ نے چہارشنبہ کے روز ڈرامائی انداز میں دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے ایک کمسن نوجوان کو مبینہ طور پر عریاں تصاویر کے لیے ہزاروں پاؤنڈز ادا کیے تھے۔

لندن: برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنے اسٹار نیوز اینکر کا نام جنسی تصاویر اسکینڈل میں سامنے آنے کے بعد اندرونی انکوائری دوبارہ شروع کردی ہے۔ ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت اسکینڈل میں ملوث شخص کی شناخت کے بارے میں کئی روز تک پھیلی ہوئی قیاس آرائیوں کے بعد سامنے آئی۔

برطانیہ کے معروف نیوز اینکر ہیو ایڈورڈز کی اہلیہ نے چہارشنبہ کے روز ڈرامائی انداز میں دعویٰ کیا کہ ان کے شوہر ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے ایک کمسن نوجوان کو مبینہ طور پر عریاں تصاویر کے لیے ہزاروں پاؤنڈز ادا کیے تھے۔

جب کہ اس بیان سے 6 روز قبل ’سن اخبار‘ کی ایک رپورٹ نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ اس کے سرکردہ پریزینٹر نے ایک کمسن نواجون کو مبینہ طور پر عریاں تصاویر کے لیے 35 ہزار پاؤنڈز ادا کیے اور یہ سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب اس کی عمر 17 برس تھی۔

نوجوان کے اہل خانہ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے یہ رقم کوکین کی لت میں مبتلا شخص کے علاج کے لیے استعمال کی تھی لیکن اب 20 سالہ نوجوان نے ان الزامات کو غلاظت کا ڈھیر قرار دے کر مسترد کردیا۔

سوشل میڈیا پر 6 روز تک مختلف قیاس آرائیاں گردش کرنے کے بعد بی بی سی کے متعدد اسٹارز نے سوشل میڈیا پر وضاحت کی کہ ان میں سے کوئی بھی اس کام میں ملوث نہیں، ان الزمات کی تردید کرنے والوں میں شامل ایک شخص نے ملوث پریزینٹر پر زور دیا کہ وہ دوسروں کو جھوٹے الزام لگنے سے بچانے کے لیے سامنے آئیں۔

بی سی سی نے شام 6 بجے کا بلیٹن نشر ہونے کے ساتھ ہی قیاس آرائیوں کا کھیل ختم کرتے ہوئے ہیو ایڈورڈز کی اہلیہ وکی فلائنڈ نے بنیادی طور پر اپنے شوہر کی ذہنی صحت اور اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے شناخت کی تصدیق کی۔انہوں نے کہا کہ 5 بچوں کے والد دماغی صحت کے سنگین مسائل میں مبتلا تھے، انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا جہاں وہ چند روز زیر علاج رہیں گے۔

عوامی مالی اعانت سے چلنے والے نشریاتی ادارے نے پولیس کی درخواست پر ہیو ایڈورڈز کے خلاف دعووں کی اپنی تحقیقات روک دی تھی۔

لیکن بی بی سی کی فیکٹ فائنڈنگ انویسٹی گیشن اس کے بعد دوبارہ شروع ہوئیں جب کہ 2 پولیس فورسز لندن میٹروپولیٹن پولیس اور جنوبی ساؤتھ ویلز پولیس نے کہا کہ جرم کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی نے اپنے ایک نوٹ میں عملے سے وعدہ کیا کہ مناسب طریقہ کار کی پیروی کی جائے گی اور کہا کہ کارپوریشن کے لیے فوری تشویش کی وجہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم معاملے میں ملوث تمام کرداروں کا خیال رکھیں۔

میڈیا مبصرین اب اصل کہانی شائع کرنے والے اخبار دی سن کی اخلاقیات پر یہ کہتے سوالات اٹھا رہے کر رہے ہیں کہ مبینہ متاثرہ فرد نے دعووں کو مسترد کر دیا اور کہا کہ انہوں نے اخبار کو خبر نہ شائع کرنے کا کہا تھا۔