دہلی

قیدیوں کو ذات کی بنیاد پر کام دینا غیر آئینی: سپریم کورٹ

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے یہ تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ جیل مینوئل میں موجود ان تمام دفعات کو ختم کیا جانا چاہئے جو اس طرح کے امتیاز کو فروغ دیتے ہیں۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو قیدیوں کو ذات پات کی بنیاد پر کام الاٹ کرنے کے اصول کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی کسی بھی جیل میں ذات پات کی تفریق نہیں کی جا سکتی ۔

متعلقہ خبریں
تروملا کی وینکٹیشورا مندر میں سی جے آئی کی پوجا
قیدیوں نے اعلیٰ معیاری فرنیچر عدالت کیلئے تیار کئے
گروپI امتحانات، 46مراکز پر امتحان کا آغاز
کجریوال آرڈیننس کی کاپیاں نذرآتش کریں گے
خریدے جب کوئی گڑیا‘ دوپٹا ساتھ لیتی ہے

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی بنچ نے یہ تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ جیل مینوئل میں موجود ان تمام دفعات کو ختم کیا جانا چاہئے جو اس طرح کے امتیاز کو فروغ دیتے ہیں۔

جسٹس چندرچوڑ نے بنچ کی طرف سے کہا "مرکزی حکومت کے جیل مینول ۔ 2016 میں خامیاں ہیں۔ ان میں ذات کی بنیاد پر قیدیوں کی درجہ بندی پر پابندی لگانی چاہیے ۔”

بنچ نے مہاراشٹر کے کلیان کی رہنے والی سکنیا شانتا کی درخواست پر یہ فیصلہ سنایا ۔ ان کی درخواست میں الزام لگایا گیا ہے کہ ملک کی کچھ ریاستوں کے جیل مینوئل ذات پات کی بنیاد پر امتیاز کو فروغ دیا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ نے ہدایت د ی کہ قیدیوں کو خطرناک حالات میں گٹر کے ٹینک وغیرہ صاف کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ رواج نوآبادیاتی دور سے ہیں اور ان میں سے زیادہ تر قوانین برطانوی دور حکومت میں بنائے گئے تھے۔

بنچ نے کہا "اگر پرائیویٹ افراد کے ذریعہ آرٹیکل 23 (انسانی اسمگلنگ اور جبری مشقت کی ممانعت) کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے تو ریاست اس کی ذمہ دار ہوگی۔ ایسی ذاتوں کے خلاف نفرت، حقارت اور وسیع تعصب نہیں برتا سکتا۔”

بنچ نے جیلوں کے اندر امتیازی سلوک کے مبینہ معاملے میں ازخود نوٹس لیتے ہوئے مقدمہ درج کیا اور عدالت عظمیٰ کی رجسٹری کو ہدایت دی کہ وہ اس معاملہ (جیلوں کے اندر امتیازی سلوک سے متعلق) کو تین ماہ بعد سماعت کے لیے پیش کرے۔عدالت عظمیٰ نے تمام ریاستوں کو اس فیصلے کی تعمیل کی رپورٹ (اس عدالت کے سامنے) پیش کرنے کی بھی ہدایت دی۔

سپریم کورٹ نے اس بات پر زور دیا کہ عدالت کو اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ پسماندہ لوگوں کو نقصان نہ پہنچے، اس عدالت نے کہا کہ آئین ایس سی / ایس ٹی کو تحفظاتی امتیاز کے لیے تسلیم کرتا ہے، لیکن اس کا استعمال لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے لیے نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ہونا چاہیے اور اس حاشیہ پر رہنے والے لوگوں کے امتیازی سلوک نہیں کیا جانا چاہئے۔

بنچ نے کہا کہ قیدیوں کے درمیان اس طرح کا امتیاز نہیں ہو نا چاہئے ۔بنچ نے کہا کہ سماج کے پسماندہ لوگوں کو صفائی اور جھاڑو دینے کا کام اور اعلیٰ ذات کے لوگوں کو کھانا پکانے کا کام سونپنا آئین کے آرٹیکل 15 کی خلاف ورزی ہے۔

بنچ نے اپنے حکم میں کہا "اس طرح کے بالواسطہ جملے کے استعمال کی جو نام نہاد نچلی ذاتوں کو نشانہ بناتے ہیں، ہمارے آئینی فریم ورک کے اندر اجازت نہیں دی جا سکتی۔ بنچ نے اپنے حکم میں کہا جیل مینوئل صرف اس طرح کے امتیاز کی تصدیق کر رہا ہے۔”

عدالت عظمیٰ نے اس معاملے پر غور کرتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش جیل مینوئل میں یہ انتظام ہے کہ عام قید سے گزرنے والا شخص تذلیل کرنے والا اور معمولی کام نہیں کرے گا، جب تک کہ اس کام کے لیے اس کی ذات کا استعمال نہ کیا گیا ہو۔

بنچ نے کہا "کوئی گروپ دستی صفائی کرنے والے طبقے کے طور پر یا معمولی کام کرنے کے لیے پیدا نہیں ہوتا ہے۔ کون پکا سکتا ہے اور کون نہیں، یہ اچھوت کے پہلو ہیں جن کی اجازت نہیں دی جا سکتی”۔