اسمبلی میں اکبراویسی اور کے ٹی آر کی بحث، بگڑتے تعلقات کا اشارہ تو نہیں؟
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اکبر الدین اویسی کا بیان بی آر ایس اور ایم آئی ایم کے درمیان بگڑتے تعلقات کی نشانی ہے اور چند ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بی آر ایس کو انتباہ ہے کہ وہ مجلس کی طاقت کو کم نہ سمجھے۔
حیدرآباد: گذشتہ روز قانون ساز اسمبلی میں ریاستی وزیر انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ اور قائد مقننہ مجلس اتحادالمسلمین اکبر الدین اویسی کے درمیان تلخ مباحث ہوئے۔ مباحث کے دوران کے ٹی راما راؤ نے کہاکہ مجلس کے صرف7 ارکان ہیں وہ مباحث میں حصہ لینے کیلئے زیادہ وقت طلب کررہے ہیں۔
اس بات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اکبر الدین اویسی نے کہا کہ مجلس آئندہ اسمبلی انتخابات میں 50حلقوں سے مقابلہ کرے گی۔ ان کا یہ بیان سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اکبر الدین اویسی کا بیان بی آر ایس اور ایم آئی ایم کے درمیان بگڑتے تعلقات کی نشانی ہے اور چند ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بی آر ایس کو انتباہ ہے کہ وہ مجلس کی طاقت کو کم نہ سمجھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجلس،50حلقوں پر انتخابات میں حصہ لے گی اور15 پرکامیابی حاصل کرتے ہوئے آئندہ اسمبلی کے دوران اپنی طاقت بتائے گی۔
ان کے بیان سے واضح ہوجاتا ہے کہ مجلس صرف15 حلقوں پر کامیابی حاصل کرنے کی طاقت رکھتی ہے اور ٹی آر ایس کو دھمکی ہے کہ ہم دوسرے 35 حلقوں میں تمہیں (بی آر ایس) کو نقصان پہنچاگے۔ یہ تجزیات سیاسی طور پر غلط بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔
مگر ایک ایسے وقت جب ریاست میں کانگریس کا اثر کم ہوتا جارہا ہے، مقابلہ، بی آ ر ایس اور بی جے پی کے درمیان رہنے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔ ایسے میں اکبر الدین اویسی کے بیان کو کس تناظر میں دیکھا جانا چاہئے اس پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔