DNA ٹسٹ سے جرم کا ثبوت
شریعت میں فیصلہ کی جو بنیادیں مقررکی گئی ہیں،ان میں ایک قرین قاطعہ ہے،اوراس کی دلیل حضرت سلیمان علیہ السلام کاواقعہ ہے کہ ایک بچہ کے سلسلہ میں دوعورتیں مدعی تھیں کہ یہ بچہ ہمارا ہے
سوال: عام طورپرمجرم جب جرم کرتا ہے توحملہ اورمدافعت میں اس کے جسم کا کوئی جزء مقام واقعہ پرگرجاتا ہے، DNAٹسٹ میں اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجرم کے بارے میں تحقیق کی جاتی ہے،
خاص کر اگر زنا بالجبر کا کیس ہو تو مرد کے مادہ کا کچھ نہ کچھ حصہ مظلوم عورت کے جسم میںبچ جاتا ہے، اسی سے زانی کی تحقیق کی جاتی ہے،
توکیاDNA ٹسٹ کے ذریعہ زنا کا جرم ثابت ہوسکتا ہے اوراس کو زانی قراردیا جاسکتا ہے؟ (خبیب احمد، ملک پیٹ)
جواب:شریعت میں فیصلہ کی جو بنیادیں مقررکی گئی ہیں،ان میں ایک قرین قاطعہ ہے،اوراس کی دلیل حضرت سلیمان علیہ السلام کاواقعہ ہے کہ ایک بچہ کے سلسلہ میں دوعورتیں مدعی تھیں کہ یہ بچہ ہمارا ہے،آپ نے قرینہ کی بنیادپراس کا فیصلہ فرمایا، خلافت راشدہ میں بھی قرینے کی بنیادپر بعض فیصلے کئے گئے ہیں؛
البتہ زنااوروہ جرائم جوشرعی حدودکے دائرے میں آتے ہیں،کے ثابت ہونے کے لئے وہی شہادت مطلوب ہوگی،جوقرآن وحدیث میں مذکور ہے،
یعنی زناکے لئے چارعینی شاہدوں کی گواہی، اور دوسرے جرائم کے لئے دوعینی شاہدوں کی گواہی؛
البتہ DNAٹسٹ سے اگرغالب گمان پیداہوجائے تویہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے کہ ملزم کے سامنے پوری صورت حال رکھ کرشریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس پراقرارکے لئے دباؤ ڈالا جائے،
اگروہ اقرارکرلے توثبوت فراہم ہوگیا،عام طورپر اگرغیرجانب دارلیبارٹری سے اس طرح کی رپورٹ آجائے توملزمین اقرارکرلیاکرتے ہیں۔واللہ اعلم۔
٭٭٭