سقوطِ حیدرآباد : منظر اور پسِ منظر

تاریخی لحاظ سے تلنگانہ کا علاقہ ریاست حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت کا حصہ تھا۔ریاست تلنگانہ کی تاریخ سے ناآشنا ایک گوشہ بے بنیاد حوالے دیکر اپنی سیاسی روٹی سیکھنے کیلئےاس دن یومِ نجات منانا چاہتاہے محض ا س لیے کہ مسلم حکمرانوں کی تاریخ کو مسخ کرسکیں ،حالانکہ سلطنت آصفیہ کی دور حکمرانی کا ایک طویل دور رہا جس میں ہندو مسلم سے کسی بھی قسم کا بھید بھاؤ نہیں کیاگیا، بالخصوص سلطنت آصفیہ کے آخری حکمران نظام عثمان علی خان نے حیدرآباد کو جس طرح سے ترقی پذیر بنایا وہ بھی ایک مثالی ہے ۔

سید سرفراز احمد،بھینسہ
9666914213

17ستمبر 1948کو تلنگانہ کی سرزمین تاریخی ریاست حیدرآباد کیلئے تاریخی دن مانا جاتا ہے کیونکہ اس دن تلنگانہ کا بیشتر حصہ ہندوستان یونین میں انضمام ہوا تھا…

تاریخی لحاظ سے تلنگانہ کا علاقہ ریاست حیدرآباد کی آصف جاہی سلطنت کا حصہ تھا۔ریاست تلنگانہ کی تاریخ سے ناآشنا ایک گوشہ بے بنیاد حوالے دیکر اپنی سیاسی روٹی سیکھنے کیلئےاس دن یومِ نجات منانا چاہتاہے محض ا س لیے کہ مسلم حکمرانوں کی تاریخ کو مسخ کرسکیں ،حالانکہ سلطنت آصفیہ کی دور حکمرانی کا ایک طویل دور رہا جس میں ہندو مسلم سے کسی بھی قسم کا بھید بھاؤ نہیں کیاگیا، بالخصوص سلطنت آصفیہ کے آخری حکمران نظام عثمان علی خان نے حیدرآباد کو جس طرح سے ترقی پذیر بنایا وہ بھی ایک مثالی ہے ۔نظام عثمان علی خان کا (عہد حکومت 1911 تا 1948ء)تک رہا، عثمان علی خان کا دور حکومت جہاں حیدرآباد کی ترقی کا سنہری دور کہا جا سکتا ہے۔

وہیں تلنگانہ جدوجہد، ملک کی آزادی، ریاست حیدرآباد کا انڈین یونین میں انضمام ایسے نکات ہیں جن کی وجہ سے اس دور کو انقلابی دور بھی کہا جا سکتا ہے ۔ریاست حیدرآباد قدرتی وسائل سے کھچا کھچ تھی جس پر ہر کسی کی نظر جمی ہوئی تھی، انہی وسائل کو حاصل کرنے کیلئے جو دوڑ ودھوپ کی گئی جس سے ریاست حیدرآباد میں نظام مخالف بغاوت نے اپنے پیر پسارےحالانکہ اس دور میں ریاست حیدرآباد نے نمایاں صنعتی ترقی حاصل کی، حمل ونقل کے ذرائع بہتر ہوئے، تعلیمی اعتبار سے بھی بہت ترقی ہوئی اس حکومت کے رفاہی کاموں کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا… کہنے والوں نے نظام حکومت کو جابرانہ زمینداری نظام بھی قرار دیا حالانکہ انہی کی حکومت کی ترقیات سے ابھی بھی پورا تلنگانہ استفادہ حاصل کررہا ہے ۔

نظام کی دورِحکومت میں غیر ملکی طاقتیں اپنی مکروہ حکمت عملی سے ریاست حیدرآباد کو لوٹتے رہے، جس میں فرانسیسیوں اور انگریزوں نے اپنی مفاد پرستی کا جم کر فائدہ اٹھایا ،کبھی کسی بادشاہ سے دوستی کاہاتھ بڑھاکر دھوکا دیتے تو کبھی کسی بادشاہ سے دوستی کرکے دھوکا دیتے رہے۔فرانسیسیوں اور انگریزوں کی روایتی دشمنی کی آگ یہاں بھی بھڑکی اور ان دونوں سفید فام اقوام نے ہندوستان خصوصاً دکن کی سرزمین کو میدان جنگ میں تبدیل کر دیا۔ ہندوستانی حکمرانوں کی تائید کے پردے میں اور ان کے مددگاروں کے طور پر دراصل اپنی جنگیں لڑیں جن میں ہندوستان کا زیادہ نقصان ہوا،ان دونوں سفید فام اقوام نے اپنی آپسی دشمنی نکالنے کے لئے دکن کے مختلف حکمرانوں کو مہروں کے طور پر استعمال کیا اور ہندوستانیوں کی جان و مال کے زیاں سے اپنی دیرینہ نسلی دشمنی کا حساب چکتا کرتے رہے ۔ انگریز اور فرانسیسی فتح یاب رہے لیکن نقصان توہندوستان کا ہی ہوتا رہا ۔اس آپسی جنگ میں انگریزوں کو فوقیت حاصل ہوئی، سلطنت آصفیہ کے آخری دور میں انگریز عملاً بادشاہ گر کا کردار ادا کر رہے تھے اور حقیقی طاقت انگریزوں کے ہاتھ میں تھی۔

آزادی کے بعد بھی ملک کی تین ریاستیں جو انڈین یونین میں ضم ہونا نہیں چاہتی تھی جن میں کشمیر،جوناگڑھ(گجرات)اور حیدرآباد شامل تھے اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل اور نظام میر عثمان علی خان کے درمیان کئی دفعہ مذاکرات اور بات چیت ہوئی لیکن باوجود اس کے ریاست حیدرآباد کو عثمان علی خان ضم کرنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ ریاست حیدرآباد قدرتی وسائل سے مالامال تھی جو دنیا کے دولتمند ریاستوں میں اولین سطح پر تھی جس پر ہر کوئی اپنی گرفت جمانا چاہتا تھا تاکہ اسکے وسائل اور دولت کو بٹور سکے لیکن اس کے بعد ریاست حیدرآباد کو جو صورتحال پیش آئی، وہ انتہائی سنگین تھی پولیس ایکشن ہوا جس میں کئی معصوموں کی جانیں گئیں، بالآخر نواب عثمان علی خان کو شکست ہوئی ستمبر 1948ء میں سقوط حیدرآباد کے بعد سلطنت آصفیہ کے دور کاخاتمہ ہو گیا۔

1948 میں ہندوستان میں ریاست حیدرآباد کے انضمام کے بعد تلنگانہ کو کچھ برسوں تک ایک الگ ریاست کی حیثیت حاصل رہی حیدرآباد کی اس وقت کی صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے زمانے کے ممتاز عالم سید ابولاعلی مودودی نے اپنے رسالے ‘ترجمان القرآن کے سنہ 1948 کے پانچویں اور دسمبر کے شمارے میں لکھا: "تقسیم کے بعد حیدرآباد انڈین یونین کے گھیرے میں آ چکا تھا اس لیے نہ باہر سے کوئی بڑی مدد اس کو پہنچ سکتی تھی اور نہ ہی اندر اس کا کوئی امکان تھا،ان حالات میں کوئی ہوش مند انسان یہ امید نہیں کر سکتا تھا کہ وہاں 85 فیصدی غیر مسلم اکثریت پر 15 فیصد مسلم اقلیت کا وہ غلبہ و اقتدار برقرار رکھا جاسکتا ہے جو پہلے بالکل مختلف حالات میں قائم ہوا اور رہا تھا اور کسی مرد عاقل سے یہ بات بھی چھپی نہیں رہ سکتی تھی کہ حیدرآباد انڈین یونین سے لڑ کر اپنی خود مختاری قائم نہیں رکھ سکتا،دانشمندی کا تقاضا یہ تھا کہ مسلمان کشمکش، مزاحمت اور جنگ کے بجائے اپنے مستقبل کے لیے کوئی ایسی راہ تلاش کرتے جس میں وہ کامل تباہی سے بچ بھی سکتے اور آئندہ اپنی اخلاقی و دینی حالت کو بہتر بنا کر کوئی نتیجہ خیز جدوجہد کرنے کے مواقع بھی انھیں حاصل رہتے لیکن جن لوگوں نے ایسی کوئی راہ سوچی اور بتائی وہ مسلمانوں کو دشمن نظر آئے، انھوں نے اپنی رہنمائی کے لیے ایسے لوگوں کو پسند کیا جو اندھے جوش، کھوکھلے نعروں، جھوٹی توقعات غلط امیدوں، بے بنیاد آرزوؤں اور بے زور لاف و گزاف کے ذریعہ سے ان کے غرور و نفس کو فی الوقت تسکین دے سکیں…

وہ اس آواز پر مرمٹے کہ کوئی دِلی کے لال قلعہ پر آصف جاہی جھنڈا گاڑ دینے کی بات کرتا ہے اور اس نشے میں 40 لاکھ کی پوری آبادی مست ہو گئی کوئی یہ سوچ کر اپنے وقتی لطف کو کرکرا کرنے پر راضی نہ ہوا کہ آخر یہ کام ہو گا کس طرح؟ سب کے سب آنکھیں بند کر کے اس لاف زنی (شیخی بگھارنا)کے پیچھے چل پڑے اور اپنی قسمت پر ناز کرنے لگے کہ اس گئے گزرے زمانے میں بھی انھیں ایسے بے نظیر لیڈر میسر آتے ہی چلے جاتے ہیں!”‘‘مولانا مودودی نے کسی شخص کا نام نہیں لیا لیکن نظام حیدرآباد کو بے بنیاد مشوروں سے نوازنے والوں کو نشانہ بنایا کہ اگر دانشمندی اور حکمت سے کچھ فیصلے کیئے جاتے تو اپنی سلطنت کو برقرار رکھ سکتے تھے۔ ـ

بہر حال ریاست حیدرآباد اور آندھرا انگریزوں کی مدراس پریسڈنسی میں شامل تھے، ج سکے بعد آندھرا قائدین کی نظر ریاست حیدرآباد کی دولت و وسائل پر تھی جو بارہا انڈین یونین سے مطالبہ کررہے تھے کہ تلنگانہ اور آندھرا کو ملا کر متحدہ آندھرا پردیش بنائے جس کیلئے باضابطہ ایک تحریک کا آغاز کیا پھر ایک متحدہ آندھرا پردیش ریاست کی تشکیل پر رضامندی ہوئی چونکہ ملک کی ریاستیں ابھی الگ تھلگ نہیں ہوئی تھیں، اسی اثناء میں فضل علی کمیشن کی سفارشات پر ریاستوں کو علحدگی کا تنظیمی جدید قانون1956میں بنایا گیا ۔

بعد ازاں آندھرا اور تلنگانہ کے قائدین کے درمیان متحدہ ریاست آندھرا پردیش کی تشکیل کیلئے دہلی میں ایک شریفانہ معاہدہ ہوا جسکے ماتحت تلنگانہ کے علاقہ کو آندھرا میں شامل کرتے ہوئے متحدہ ریاست آندھرا پردیش کا قیام یکم نومبر 1956 کو عمل میں آیا جسکا صدر مقام حیدر آباد مقرر کیا گیایہ شریفانہ معاہدہ جو14نکات پر مبنی تھا لیکن ان 14نکات میں سے ایک نکات پر بھی عمل آواری نہیں ہوئی چونکہ حیدرآباد ترقی یافتہ ریاست تھی، اس لیے معاہدہ میں حیدرآباد ریاست کو اس کے وسیع وسائل کی طرز پر آندھرا کی بہ نسبت زائد حقوق و اختیارات طئے کیے گئے تھے- 1956میں ریاست آندھرا پردیش کے قیام کے بعد سے لیکر 2014تک تلنگانہ سے مسلسل نا انصافی ہوتی رہی جو شریفانہ معاہدہ تشکیل آندھرا پردیش کے وقت ہوا تھا وہ محظ شریفانہ ہی بنکر رہ گیا چونکہ تلنگانہ کی عوام سے ان 58سالہ عرصہ میں آندھرائی تلگو ریاست آصف جاہی سلطنت کے دور کی ترقی اور وسائل کو تلنگانہ عوام کے ساتھ حق تلفی کرتے ہوئے اپنا ڈیرہ جما رکھا تھا… باوجود اس کے ایک طویل جدو جہد کے بعد علیحدہ تلنگانہ کی تشکیل عمل میں آئی ـ…

بی جے پی ہر سال تلنگانہ میں 17/ستمبر آنے سے قبل اس کی تیاری کرتی ہے اور اس کو ہندو مسلم کی آنکھ سے دیکھتی بھی ہے اور ریاست کی عوام کو بھی اپنی ہی طرح دیکھنے پر باور کراتی ہے، تاکہ بی جے پی سیاسی مفاد حاصل کرسکے… بی جے پی 17/ستمبر کو یومِ نجات سرکاری طور پر منانے کا مطالبہ کرتی ہے اور اس کو فرقہ وارانہ ایجنڈے کے تحت مسلم حکمراں سے ہندو آبادی کو ملی آزادی کے طور پر پیش کر کے بتانا چاہتی ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ کیا 1947کو انگریزوں سے ملی آزادی نہیں تھی…؟ کیا نظام بھی ایک غیر ملکی تھے جس کو بی جے پی آزادی کہتی ہے….؟ نہیں تو پھر بی جے پی اس دن یومِ نجات کس طرح منا سکتی ہے؟ حالانکہ ریاست حیدرآباد کا ہندوستان یونین میں انضمام ہونا ہندو مسلم کی بنیاد پر نہیں ہوا اور نہ ہی اس کیلئے ہندو مسلم میں کسی بھی قسم کا تضاد تھا لیکن بی جے پی اس کو فرقہ پرستی سے جوڑنا چاہتی ہے اور کہتی ہے کہ نظام حکمران سے ریاست حیدرآباد آزاد ہوا کیونکہ بی جے پی کو ریاست حیدرآباد سے نہیں بلکہ سلطنت آصفیہ کے دور سے گھٹن ہوتی ہے جنکی اپنی ایک سلطنت جو تھی، بی جے پی کو یہ ہضم نہیں ہوتا اس لیے وہ ہر سال تلنگانہ کے عوام کے سامنے جھوٹ پر مبنی بیان بازی کرکے عوام کو ورغلانے کا کام کرتی ہے۔

جب بھی 17 ستمبر آتا ہے، تو بھارتیہ جنتا پارٹی تلنگانہ کے لئے بے پناہ محبت کے گل نچھاور کرتی ہے نظام اور انکے دورحکومت پر غصہ کا اظہار کرتی ہے،وہ نظام کے خلاف جدو جہد کرنے والے اور ان کی قربانیوں کی من گھڑت کہانیاں سناتے نہیں تھکتی ہے… یہ سب دیکھ‌کر تاریخ سے بےخبر لوگوں کو یہ احساس ہو سکتا ہے کہ بی جے پی یا ان کے ماتحت ادارے کے لوگوں نے سچ مچ نظام کے خلاف جدو جہد کی ہوگی، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ نظام مخالف جدو جہد میں نہ بی جے پی، نہ ہی آر ایس ایس اور نہ ان کی معاون تنظیموں کا ذرا بھی رول تھا بلکہ جنھوں نے جدو جہد کی انکی تاریخ سے عوام کو آشنا نہیں کرواتی بلکہ اس کو فرقہ پرستی کا رنگ دینے کی کوشش کرتی ہے۔بی جے پی اور ان کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس کے رہنماء یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس وقت کے حکمران مسلمان تھے جنھوں نے ہندو مذہب کے لوگوں پر ظلم کیا تھا وہ تلنگانہ کے لوگوں کی مسلح بغاوت کو مسلمان حکمرانوں کے خلاف ہندو عوام کی جدو جہد کے طور پر پیش کرنے کی ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہےجبکہ سچائی یہ ہے کہ تلنگانہ کے تمام مذاہب کے لوگوں نے نظام کی حکومت کو گنگا جمنا تہذیب کا سہرا باندھا تھا جنکے کارناموں کو ریاست تلنگانہ کھبی بھی فراموش نہیں کرسکتی ۔

ابھی بھی تلنگانہ میں بی جے پی بڑے پیمانے پر یوم نجات کا جشن منانے جارہی ہے ،امیت شاہ اس تقریب میں شرکت کرنے والے ہیں۔ پچھلے سال بھی امیت شاہ نے اسی موقع پر تلنگانہ کا دورہ کرتے ہوئے بی جے پی کی یاترا پرجا سنگھا راما کے تحت 17/ستمبر کو نرمل میں ایک سبھا کی اور پھر سے وہی یومِ نجات کو سرکاری طور پرمنانے کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور نظام حکومت کے احسانات گنوانےکے بجائے نظام مخالف فرقہ پرستی کی سیاست کا تماشا دیکھا گیا، جس سے بی جے پی تلنگانہ میں اپنی سیاسی طاقت کو مضبوط کرنا چاہتی ہے اور بی جے پی کا ہمیشہ سے یہ منشاء رہاکہ نظام حکومت کو ہندو مخالف بتایا جائے تاکہ اکثریتی فرقہ کے رائے دہندوں کواپنی جانب راغب کیا جاسکے اور بی جے پی ابھی اس کاسیاسی فائدہ منوگوڑ کے ضمنی انتخاب اور تلنگانہ کے آنے والے اسمبلی انتخابات میں لینا چاہتی ہے لیکن ہر بار بی جے پی ریاست تلنگانہ میں اپنی سیاست چمکانے میں بہت پیچھے رہی ہے کیونکہ عوام کو فی الحال فرقہ پرست سیاست کی نہیں بلکہ ترقی اور روزگار کی ضرورت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ریاست تلنگانہ کے منوگوڑ ضمنی انتخاب میں ہوا کا رخ کونسی پارٹی کی طرف جھکتا ہے ـ۔

٭٭٭