مذہب

اشعریؓ سے ازہریؒ تک لحنِ داؤدی ؑکی لَے

صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دور مبارک میں یوں تو بہت سے قراء اور ماہرین قرآن موجود تھے۔ حضرت ابی ابن کعب‘ حضرت زید بن ثابت، حضرت عثمان غنی، حضرت عبداللہ بن مسعود وغیرھم رضی اللہ عنہم لیکن ان سب میں حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تمغہ تحسین حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے پایا۔

ڈاکٹر سید شاہ مرتضیٰ علی صوفی حیدرؔپادشاہ قادری
معتمد سید الصوفیہ اکیڈمی ‘پرنسپل ایس ‘ایم ‘وی کالج حیدرآباد

کائنات میں جس طرح حسن و جمالِ سیدنا یوسف علیہ السلام مشہور اور مثالی ہے اسی طرح حسنِ صوت یعنی خوش آوازی کے لئے حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔ یوں تو ہر ہر نبی کو اللہ تعالیٰ نے آواز کے سلسلہ میں خوبی و خوبصورتی سے نوازا ہے تاہم حضرت داؤد علیہ السلام اُن سب میں نمایاں شان کے حامل ہیں، اُن کی آواز میں ایسی دلکشی تھی کہ اُن پر نازل شدہ آسمانی کتاب ’’زبور شریف‘‘ کی آپ جب کبھی تلاوت کیا کرتے تو پرندے ہوا میں ٹھہر جاتے تھے اور اُن کے سُرکے ساتھ سُر ملاتے تھے اور جب آپ رَب کی تسبیح بیان کرتے تو پرندے بھی اُن کے ساتھ تسبیح خداوندی میں مصروف ہوجایا کرتے تھے۔ چنانچہ تاریخ دمشق میں حضرت عبداللہ بن عامر کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام کو ایسی خوش آوازی عطا کی گئی تھی کہ ایسی کسی اور کو نہیں ملی حتیٰ کہ اُن کا ترنم سن کر پرندے اُن کے پاس آکر بیٹھ جاتے اور یونہی بیٹھے بیٹھے (لحن داؤدی میں کھوکر بھوک و پیاس کو تک فراموش کردیتے) اور بھوکے پیاسے مرجاتے اور یہاں تک کہ (حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام کی خوش الحانی کے اثر سے) دریا بھی چلتے چلتے رک جاتا تھا۔ (تاریخ دمشق)۔

اب نہ تو ’’زبور‘‘ ہے اور نہ اس کے پڑھنے والے کوئی باقی ہیں، لیکن آخری آسمانی کتاب ’’قرآن کریم‘‘ جو سب سے آخری رسول ہمارے آقا سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی ہے، نہ صرف باقی ہے بلکہ کائنات کی وہ واحد کتاب ہے جو سب سے زیادہ چھاپی اور پڑھی جاتی ہے اور اس کے پڑھنے پڑھانے والے ہر زمانے اور ہر علاقے میں پائے جاتے تھے، پائے جاتے ہیں اور پائے جاتے رہیں گے۔ ان ہی میں ایک پڑھنے والے قاری ایسے بھی گذرے ہیں جنہیں سید عالم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف پسند فرمایا بلکہ اُن کی خوش آوازی کو سن کر اُن کی تلاوت قرآنی پر تحسین فرماتے ہوئے حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام کو یاد فرمایا چنانچہ مسند احمد کی ایک روایت کے مطابق ام المومنین حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا: ابو موسیٰ کو آل داؤد کے مزامیر (بانسریاں) عطا کئے گئے ہیں(مسند احمد) ۔ گویا اُن کے گلے کی سریلی آواز کو پسند فرماتے ہوئے لحنِ داؤدی کو یاد فرمایا اور اُن کے انداز تلاوت کی تعریف کی۔

کیوں نہ ہو کہ خوش آوازی سے قرآن کی تلاوت کا تو باقاعدہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم ارشاد فرمایا ہے: عن البرا وقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: زینوا القران بأصواتکم۔ ترجمہ: اپنی آوازوں کے ذریعہ قرآن پاک کو خوبصورت بناؤ (مسند احمد، ابوداؤد) اور اگر کوئی خوش آوازی سے تلاوت کرے تو حضور اُس سے خوش ہوا کرتے اور دعاؤں سے بھی نوازتے، بیہقی کی ایک روایت میں تو خود حضرت ابوموسیٰ شعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کاش تم مجھے گذشتہ رات اُس وقت دیکھتے جب میں تمہاری قرأت سن رہا تھا۔ بیشک تمہیں آلِ داؤد کی بانسریوں میں سے ایک بانسری دی گئی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ سن رہے ہیں تو میں اور مزید پڑھتا (بیہقی بحوالہ تفسیر ابن کثیر) مزامیر عربی لفظ ہے جس کا واحد ’’مزمار‘‘ بتلایا گیا ہے اور اس کے معنیٰ ہیں بانسری یا اس جیسا ایساباجا ہے جو منہ سے بجایا جاتا ہو۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دور مبارک میں یوں تو بہت سے قراء اور ماہرین قرآن موجود تھے۔ حضرت ابی ابن کعب‘ حضرت زید بن ثابت، حضرت عثمان غنی، حضرت عبداللہ بن مسعود وغیرھم رضی اللہ عنہم لیکن ان سب میں حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تمغہ تحسین حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے پایا۔ بعد والے ادوار میں ایک سے بڑھ کر ایک قراء کرام گذرے ہیں ماضی قریب میں قاری عبدالباسط عبد الصمدؒ یا قاری صدیق منشاوی وغیرھم نے بین الاقوامی سطح پر مقبولیت پائی تاہم ہمارے ممدوح مصباح القراء حضرت عبداللہ قریشی الازہریؒ کوسر زمین ہند سے تعلق رکھنے والے اس صدی کے ایک عظیم حافظ قرآن قاریٔ خوش الحان، خادم کلام رحمن، مقری عشاقانِ قرآن، استاذ و معلم کثیر قاریان کہا جاسکتا ہے کہ جن کی مساعی جمیلہ کا اثر چند برسوں تک نہیں بلکہ صدیوں اور زمانوں تک پھیلتا رہے گا۔

کیونکہ آپ نے وہ تاریخ ساز خدمات میدان قرأت و تجوید میں انجام دی ہیں کہ جس کی مثال دور دور تک نہیں ملتی۔ تجوید و قرأت سبعہ و عشرہ کے سلسلہ میں تو سابق میں بہت نام ملتے ہیں جیسے حضرت تاج القراء شاہ محمد تاج الدین فاروقیؒ ، اعظم القراء حضرت محمد احمد قادریؒ، عماد القراء حضرت کرنل بسم اللہ بیگ نقشبندی جماعتی ؒ(مولف تذکرہ قاریان ہند)، شیخ القراء حضرت قاری شیخ سالم صدیقی العمودی صوفیانی ؒ، حضرت قاری سیدکلیم اللہ حسینیؒ، حضرت قاری ریاض الدین احمدؒ، حضرت قاری فخرالدینؒ،نجم القراء حضرت قاری محمد عمر صوفی قادریؒ وغیرہ اور ان سب کے سرخیل و استاذ بلکہ استاد الاساتذہ حضرت قاری میر روشن علی سناؒ نے میدان قرأت سبعہ و عشرہ میں بہت کام کیا تاہم خوش الحانی سے تلاوت اور عوام الناس کو اس سے متاثر کرنے میں قاری نشرگاہ حضرت قاری عبدالباریؒ (جن کی قرأت ریڈیو سے نشر ہوا کرتی تھی اور جسے سننے کا احقر کو بھی شرف حاصل ہے) نے اپنا رول ادا کیا لیکن عوام الناس کو صرف سامعین بنائے رکھنے کے بجائے اُن کو قاری بنانے اور قراء کرام کی ایک بڑی فوج تیار کرنے میں جو محنت و مشقت اور جہد مسلسل حضرت مصباح القرائؒ نے فرمایا اس میں آپ کا کوئی سہیم و شریک نہیں۔ کئی ایسے افراد جو اپنی خوش آوازی کی نعمت کا غلط استعمال کرنے میں مصروف تھے ان کو نیا حوصلہ ملا اور وہ قرآن کو سیکھنے اور لحن کے ساتھ پڑھنے والے بن گئے۔ کون نہیں جانتا کہ آواز خوبصورت ہو اور اس کا استعمال نامناسب جگہ کیا جائے تو بلاشبہ اس میں بندے کا نقصان ہی نقصان ہے تاہم اس خوش آوازی کو تلاوت قرآن کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کے بہترین اثرات سننے والوں کے دل و دماغ پر پڑھنے لگیں تو اس سے بڑھ کر آواز کا درست استعمال کیا ہوسکتا ہے؟ حضرت مصباح القراء علیہ الرحمہ کی وہ شخصیت ہے جن پر بجا طور پر اہل حیدرآباد دکن بلکہ اہل ہندوستان فخر کرسکتے ہیں کہ جنہوں نے بے شمار افراد کے دلوں میں اپنی آواز کے درست استعمال کا نہ صرف داعیہ پیدا کیا بلکہ سینکڑوں نہیں ہزاروں کو عاشقانِ قرآن بنا دیا ؎

خدا کی اُس کے گلے میں عجیب قدرت تھی

آپ کی ولادت بتاریخ 19؍ستمبر 1935ء (22؍ جمادی الاخری54 13ھ) بروز جمعہ بمقام ڈنڈیگل قریب حیدرآباد میں ہوئی۔ آپ کے نسب کے بارے میں سوانح نگار لکھتے ہیں کہ یمن سے قبیلہ با معافہ سے آپ کا تعلق ہے اور اس قبیلہ کا سلسلہ نواسۂ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے جس کی تصدیق خود حضرت مصباح القراء نے بھی اپنی حین حیات فرمائی۔ آپ کے والد گرامی حضرت حافظ و قاری محمد عبدالرحیم قریشی رحمۃ اللہ علیہ تاریخی مکہ مسجد کے امام و مدرسہ حفاظ شاہی واقع مکہ مسجد حیدرآباد دکن میں معلم حفظ تھے۔ یہیں پر والد گرامی کے پاس آپ نے حفظ قرآن کریم کی تکمیل کی اور تجوید و فن قرأت کے لئے جامع مسجد سکندرآباد کے خطیب مفسر قرآن قاری نشرگاہ حیدرآباد (حیدرآباد ریڈیو) حضرت مولانا محمد عبدالباریؒ سابق استاذ جامعہ نظامیہ سے رجوع ہوئے اور قرأت سبعہ و عشرہ کی تکمیل کے لئے حضرت قاری سید کلیم اللہ حسینی ؒبانی دارالقراء الکلیمیہ سے شرف تلمذ حاصل کیا۔

بعد ازاں مصر میں حضرت شیخ ابراہیم عوض المصریؒ سے اس سلسلہ میں اکتساب فیض کیا۔ 1950ء میں جامعہ نظامیہ میں شریک ہوکر حضرت ابو الحفظہ حافظ محمد ولی اللہ قادری قبلہؒ شیخ المعقولات ، جلالۃ العلم حضرت سید شاہ حبیب اللہ قادری الجیلانی رشید پاشاہ صاحب قبلہؒ و دیگر شیوخ کرام سے اپنے آپ کو خوب فیضیاب کیا۔ علی گڑھ میٹرک کیا اور 1964ء میں مصر کی زائد از ایک ہزار سالہ قدیم اسلامی یونیورسٹی ’’جامعہ ازہر‘‘ میں شریک ہوئے اور آٹھ سال تک علوم و فنون سیکھتے رہے۔ بطور خاص حضرت شیخ عبدالحلیم محمود رحمہ اللہ ، شیخ الازہر کے تلمیذ خاص کے طور پر خوب استفادہ کیا اور فن قرأت میں شیخ ابراہیم عوض المصریؒ سے بھی رہا۔ 1973ء بعد واپسی از مصر حیدرآباد میں آپ رشتہ ازدواج میں جڑ گئے۔

زوجہ اولیٰ کے داغ مفارقت دے جانے کے بعد آپ نے زوجہ ثانیہ کے ساتھ زندگی گذاری جب وہ بھی وفات پاگئیں تو پھر زوجہ ثالثہ نے آخر وقت تک آپ کی خدمت کی اور خود داغ بیوگی برداشت کیا۔ تینوں ازواج کی گود سونی ہی رہی۔تاہم ہزاروں کی تعداد میں آپ کی معنوی و روحانی اولاد آپ سے فیض پاکر دنیا کو فیضیاب کررہی ہے۔ بیعت و خلافت کے لئے ملتانی سلسلہ سے رجوع ہوئے اور مفسر قرآن حضرت شاہ معزالدین ملتانیؒ سے نعمت خلافت و اجازت پائی۔ 1978ء مادر علمی ازہر ہند جامعہ نظامیہ میں تدریسی خدمات شروع فرمائی۔ 2012ء تک (35) سال تسلسل کے ساتھ بلاوقفہ اپنے فرائض منصبی انجام دیتے رہے۔ نہ صرف شیخ الادب جامعہ نظامیہ کا عہدہ آپ کے لئے شایان شان تھا بلکہ خود اس عہدے پر ایسی قابل و فاضل ترین شخصیت کی موجودگی عہدہ شیخ الادب کے لئے باعث افتخار تھا۔ (اسی دوران جامعہ نظامیہ میں حضرت مصباح القرائؒ سے جماعت مولوی فاضل میں شرف تلمذ کا راقم الحروف کو بھی موقع نصیب ہوا)۔-1981 1979کے دوران شکاگو امریکہ میں قرآن کی تلاوت در نماز تراویح فرمائی ۔

لطیفیہ عربی اورینٹل کالج مغلپورہ سے 1982ء آپ کی وابستگی بحیثیت لکچرر ہوئی اور 1993ء میں بطور پرنسپل وظیفۂ حسن خدمت پر سبکدوشی عمل میں آئی۔1987ء سے تاریخی مکہ مسجد کا منبر آپ کے فصیح و بلیغ عربی خطبوں سے گونج اٹھا اوروہاں کے درو دیوار آپ کی مسحور کن قرأت سے معطر ہوتے رہے۔ اس دوران عیدین کے موقع پر عیدگاہ میرعالم میں آپ کی گرجدار آواز گونجا کرتی تھی۔ اور 12ربیع الاول کو آپ کے خطبہ میلاد بطور خاص سننے کے لئے عوام و خوص علماء و مشائح امڈ آتے تھے۔ علاوہ ازیں رمضان المبارک میں نماز تراویح کے دوران آپ کی روزانہ تین پاروں کی تلاوت اپنی پوری سحر انگیزی کے ساتھ ہوا کرتی جس کے لاکھوں لوگ گواہ ہیں۔کبر سنی کے باوجود سینہ کی مضبوطی آواز کی پختگی اورسانس کی لمبائی قابل رشک ہوا کرتی تھی قرآن کی خدمت کرتے کرتے بالآخر بعمر (80) سال 8؍ڈسمبر 2015ء م 25؍صفر 1437ھ بروز سہ شنبہ آپ نے وصال فرمایا۔

دوسرے دن 9؍ڈسمبر 2015ء روز چہارشنبہ بعد نماز ظہر لاکھوں افراد کی موجودگی میں تاریخی مکہ مسجد میں نماز جنازہ آپ کے برادر حافظ محمد عبدالعلیم قریشی صاحب مدظلہ خطیب و امام جامع مسجد چوک نے پڑھائی اور مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین قبلہؒ نے دعاء کی۔ جلوس جنازہ میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اور آپ کا جسد خاکی بانیٔ جامعہ نظامیہ شیخ الاسلام امام انوار اللہ فاروقی ؒ کی بارگاہ میں چند منٹ کے لئے رکھا گیا اور پھر وہاں سے نقشبندی چمن مصری گنج میںلے جاکر سپرد خاک کیا گیا۔ یہ تھا آپ کا مختصر سوانحی خاکہ جس سے آپ کی (80) سالہ حیات کے خدوخال سمجھنے میں آسانی ہوگی تاہم آپ کی ہمہ پہلو شخصیت کے ہر ہر پہلو پر ایک ایک مفصل کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ آپ بیک وقت ایک جید عالم، بہترین حافظ، بے مثال قاری، لاجواب ادیب، بے نظیر خطیب ‘بے بدل مصلح، عاشق رسول، شیخ طریقت اور مربی اورعدیم المثال خادم قرآن تھے۔ اس چھوٹے سے مضمون میں ان سب پر تفصیلی روشنی ڈالنا ممکن نہیں اس لئے آپ کی نسبت قرآنی سے متعلق کچھ باتیں سطور آئندہ میں ملاحظہ فرمائیں جس سے آپ کی خدمات کے صرف ایک پہلو کو سمجھنے میں قارئین کو سہولت ہوگی۔

تجوید قرآن کے انوار کو دور دور تک پہنچانے کی غرض سے آپ نے مصر سے واپسی کے بعد 1974ء میں ’’مکرم جاہ دارالتجوید والقرأت‘‘ کو قائم فرماکر محلہ پرانی حویلی میں درس دینا شروع کیا جو کچھ دن بعد مکرم جاہ بہادر کی سرپرستی میں محلہ خلوت کے چومحلہ پیالس میں منتقل ہوگیا۔ سالہا سال بلاوقفہ سلسلہ درس و تدریس قرأت جاری رہا تاآنکہ پیالیس جب تجارتی مقاصد کے تحت دے دیا گیا تو ادارۂ قرأت و تجوید قرآن کی سرگرمیاں محلہ مغلپورہ میں واقع خواجہ کے چھلہ میں منتقل ہوکر جاری رہیں۔ اس پورے دورانیے میں تقریباً 40سال حضرتؒ بعد نماز فجر بپابندی درس دیا کرتے جس سے بلا قید عمر و بلا لحاظ مسلک و عقیدہ لاکھوں کی تعداد میں عشاقان قرآن نے اکتساب فیض کیا اور یہ سلسلہ حضرتؒ کی وفات شریف کے دن تک جاری و ساری رہا۔

آپ کے تلامذہ کا حلقہ اس قدر وسیع تھا کہ سال تمام وقفہ وقفہ سے کہیں نہ کہیں جلسہ ہائے قرأت کلام پاک کا حضرت مصباح القرائؒ کی صدارت میں اہتمام کیا جاتا جس میں سامعین انوار قرآنی سے اپنے قلوب کو منور کیا کرتے۔جس میں قابل ذکر حافظ قاری صلاح الدین جاوید ؒ (کراٹے کلب)کا جلسہ کافی مشہور ہے جو ان کے بعد ان کے فرزند حافظ و قاری کلیم الدین حسان اورقاری ولایت قادری کی کوششوں سے اب بھی جاری ہے اور دوسرا مشہور جلسہ قاری یوسف علی خان مرحوم کا مسجد حافظ ڈنکا مغل پورہ میں ہوتا رہا اور جس کواب راقم الحروف اپنے رفقاء کے ساتھ والدی ومرشدی اعظم المشائخ مصاح المفسرین حضرت علامہ قاضی سید شاہ اعظم علی صوفی ا عظمؔ حسنی حسینی قادری علیہ الرحمہ و مصباح القراء حضرت عبد اللہ قریشی الازہریؒ ونجم القراء استاذی حضرت قاری محمد عمر صوفی قادریؒ کی یاد میں منعقد کرنے کی سعادت پارہا ہے۔ حضرت مصباح القرائؒ کی صدارت و نگرانی میں بزرگان دین و اولیاء اللہ کے اعراس کے موقع پر بھی سالانہ جلسہ ہائے قرأت قرآن کریم کا بپابندی انعقاد عمل میں آتا جس میں آپ کے تلامذہ حسن قرأت کا مظاہرہ فرماکر اک سماں باندھ دیتے اور جب خود حضرت مصباح القراء ؒ کی تلاوت ہوتی تھی تو ہر دل سے یہ صدا آتی؎

جی چاہتا ہے میں تیری آواز چوم لوں

ہمارے جد امجد حضرت صوفی اعظم قطب دکن ؒ و داداقبلہ حضرت سید الصوفیہؒ کے اعراس کے موقع پر منعقدہ جلسہ ہائے قرات میں علی الترتیب تصوف کدہ و تصوف منزل میں بھی حضرت مصباح القراء ؒ تشریف لایا کرتے تھے۔

رمضان المبارک میں تراویح سنانے کی عرض سے آپ کے تلامذہ آپ کو سالانہ دور سنانے آتے تو سب کو وقت دیا کرتے کسی کو مایوس نہیں کرتے اکثر مقامات پر خطبہ نکاح پڑھنے کی غرض سے آپ کو زحمت دی جاتی اور کہیں کہیں محفل عقد میں بھی قرأت کلام پاک سنانے کی آپ کو درخواست کی جاتی تو آپ اس کو قبول فرمالیاکرتے۔ آپ قراء کرام کے لئے مثل چراغ بنے ہوئے تھے اور آپ نے اپنی روشنی سے خوب خوب اجالا کیا اسی لئے آپ کو ایک موقع پر جلسہ اعتراف خدمات کے دوران ’’مصباح القرائ‘‘ کا خطاب پیش کیا گیا جو آپ کی شناخت بن گیا۔ آپ نے تراویح میں قرآن سنانے کی غرض سے بیرون ملک امریکہ کے علاوہ پڑوسی ریاست کرناٹک کے مختلف شہروں بنگلورو، بلہاری وغیرہ میں بھی خدمات انجام دی ہیں اور شہر حیدرآباد میں آپ کے سکونتی محلہ کی مسجد حافظ ڈنکا مغلپورہ میں بھی آپ تراویح میں قرآن کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

بعد ازاں مکہ مسجد میں آپ کا عشرہ اولیٰ میں تلاوت کرنا اہل حیدرآباد کے لئے یادگارموقع ہوتا کہ جس میں مصلیان شدید بارش میں بھی بھیگتے ہوئے آپ کی اقتداء میں تراویح کے دوران قرآن کی سماعت کیا کرتے۔ کئی مسابقات حفظ قرآن و مقابلہ جات قرأت قرآن میں آپ کو بطور حکم (جج) زحمت دی جاتی تو بحسن و خوبی اس خدمت کو قبول فرماتے۔ عربی خطبہ اور اس کی فصاحت و بلاغت اور اس کو عالم اسلام کے مشاہیر عربوں کی طرف سے پسند کئے جانے کی تفصیلات پر باقاعدہ ایک کتاب مرتب ہوسکتی ہے آپ قرآن اور حفاظ قرآن سے بہت محبت کیا کرتے۔

حضرت مصباح القراء ؒ سے قرابتی تعلق کی حامل عظیم شخصیت میرے استاذ محترم شیخ الحفاظ حضرت علامہ ڈاکٹر حافظ شیخ احمد محی الدین قادری شرفی مدظلہ بانی نعمانیہ و روضۃ الحفاظ کی خدمات حفظ قرآن کے بڑے معترف اور محب وقدردان تھے۔ ہر سال قبل از آغاز رمضان المبارک استاذ محترم حضرت شیخ الحفاظ مدظلہ بارگاہ حضرت بابا شرف الدینؒ پہاڑی شریف پر اپنے بہت سارے حفاظ تلامذہ و طلبہ کے ساتھ حاضر ہواکرتے ہیں اور وہاں اپنے ایک طالب علم کے دور قرآنی کی تکمیل کے موقع پر علماء و مفتیان کرام اور مشائخ عظام کو بھی تشریف لانے کی زحمت دیتے تو اس موقع پر حضرت علامہ مفتی محمد عظیم الدین صاحب قبلہؒ، مصباح القراء حضرت عبداللہ قریشی الازہریؒ بھی بہ پابندی تشریف لایا کرتے بلکہ آخری کے کچھ سال تو سیڑھیوں پر سے آمد میں دشواری کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرسی میں بیٹھ کر آپ تشریف لاتے اور اپنی رقت انگیز دعاؤں سے سارے شرکاء کے قلوب کوانوار قرآنی وتجلیات ربانی سے منور و مطہر کیا کرتے۔ حضرت مصباح القرائؒ کے تلامذہ میں کئی تو عالمی شہرت یافتہ ہیں اور اب خود چراغ بن کر حضرت مصباح القرائؒ کے اجالوں کو تقسیم کررہے ہیں جس کی بہت طویل فہرست ہے البتہ آپ نے اپنی نگرانی اور خصوصی توجہ میں موجودہ خطیب مکہ مسجد مولانا حافظ و قاری محمد رضوان قریشی کی تربیت فرمائی جو آپ کے حقیقی برادرزادے اور فرزند آغوشی ہیں جن سے حضرت مصباح القراء کی خدمات کا تسلسل الحمدللہ جاری ہے۔

ایک اور برادرزادے حافظ احمد عبد الحی قریشی نعمانی کی خدمت قرآنی بھی جاری ہے ان کے علاوہ حضرت مصباح القراء کے جن چند شاگردوں کی طرف سے تجوید و قرأت کی عملی تربیت دینے کا کام ہورہا ہے ان میں حافظ قاری محمد غوث خاں، قاری حافظ شیخ عبدالقادر ملتانی(امریکہ)، قاری انیس احمد (قاری عشرہ)، قاری غلام احمد نیازی،قاری ابوالخیر عبداللہ صوفیانی، حافظ قاری محمد نور نقشبندی ‘حافظ قاری عبدالعلی صدیقی قادری‘حافظ قاری محمد مسیح الدین غوری، حافظ قاری ذبیح اللہ نقشبندی قادری(طیبہ اسکول) ‘حافظ قاری ملک اسمعیل وغیرہم کے علاوہ اور بہت سے افراد ہیں جن کی تفصیلات کا مضمون ہذا متحمل نہیں ہوسکتا۔ حضرت مصباح القراءؒ کی (50) سالہ خدمات کے اعتراف میںشاندار پیمانہ پر15؍مئی 2012ء م 1433ھ جشن کا انعقاد عمل میں آیا تھا ۔ اس موقع پر سماج کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والی سیاسی، مذہبی علمی وعوامی شخصیتوں نے شریک ہوکر حضرت کو خوب خوب خراج تحسین و آفرین پیش کیا اس کا جلسہ بمقام مکہ مسجد منعقد ہوا تھا اور اس موقع پر فصیح البیان حضرت مولانا محمد فصیح الدین نظامی صاحب نے اپنا قلمی ندرانہ محبت پیش کیا تھے جسے الانصار پبلی کیشن کی جانب سے طبع بھی کروایا گیا تھا۔ حضرت مصباح القرائؒ کی حیات و عظیم خدمات میں سے صرف قرأت قرآن کے حوالہ سے آپ کی زندگی کا یہ ایک ورق ہے جو پیش کیاگیا ورنہ ہر ہر پہلو پر ضخیم کتابیں بھی آپ کی خدمات کا حق ادا نہیں کرسکتیں۔ اہل علم و قلم کے لئے میدان کھلا ہے الگ الگ عنوانات پر آپ کی خدمات کو اجاگر کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ تاکہ نئی نسل اپنے اسلاف کی بے لوث اور خلوص سے بھرپور خدمات سے واقف بھی ہوسکے۔اور ان سے روشنی حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو بھی ایسی خدمات کے لئے وقف کرسکے جو رضائے الٰہی و محبت مصطفائی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصول کا ذریعہ اور موجب ہیں۔؎

تیری آواز کو اس شہر کی لہریں ترستیں ہیں
٭٭٭