تبدیلی مذہب معاملہ، عدالت نے مولانا کلیم صدیقی اور اُن کے ساتھیوں کوقصوروار قراردے دیا
لکھنؤ کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ نے الزام لگایا کہ مولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں نے منصوبہ بند طریقے سے لوگوں کو مذہب تبدیل کرانے کے لیے دھوکہ دہی اور لالچ کا سہارا لیا۔
لکھنؤ: اتر پردیش کی دارالحکومت لکھنؤ کی ایک عدالت نے معروف اسلامی مبلغ مولانا کلیم صدیقی اور ان کے رفقاء کو تبدیلی مذہب کیس میں قصوروار قرار دے دیا ہے۔ مولانا کلیم صدیقی، جو کہ ہندوستان کے ایک مشہور داعی اسلام اور تبلیغی شخصیت ہیں، پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک منظم نیٹ ورک کے ذریعہ غیر قانونی طور پر لوگوں کو مذہب تبدیل کرانے کا کام کیا۔ اس کیس میں مولانا کے ساتھ ان کے کئی قریبی ساتھی بھی شامل تھے، جنہیں بھی عدالت نے قصوروار پایا ہے۔
یہ کیس 2021 میں اس وقت سامنے آیا جب اتر پردیش پولیس نے دعویٰ کیا کہ ریاست میں تبدیلی مذہب کے ایک بڑے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ پولیس کا الزام تھا کہ اس نیٹ ورک کے ذریعے خاص طور پر کمزور اور پسماندہ طبقات کے افراد کو دھوکہ دہی، لالچ اور زبردستی کے ذریعے اسلام قبول کرایا جا رہا تھا۔
اس نیٹ ورک کی تحقیقات کے دوران مولانا کلیم صدیقی کا نام سامنے آیا، جو ملک بھر میں اپنی اسلامی خدمات اور تبلیغی سرگرمیوں کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔
مولانا صدیقی پر الزام ہے کہ وہ اس نیٹ ورک کی قیادت کر رہے تھے اور مالی امداد فراہم کر رہے تھے تاکہ بڑے پیمانے پر مذہب تبدیل کرایا جا سکے۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ کیا گیا کہ مولانا اور ان کے ساتھیوں نے غیر قانونی طریقہ سے مذہب تبدیل کرانے کے لیے دیگر ریاستوں میں بھی سرگرمیاں انجام دیں۔
لکھنؤ کی عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران استغاثہ نے الزام لگایا کہ مولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں نے منصوبہ بند طریقے سے لوگوں کو مذہب تبدیل کرانے کے لیے دھوکہ دہی اور لالچ کا سہارا لیا۔ استغاثہ کے مطابق، اس نیٹ ورک کا مقصد خاص طور پر ایسے افراد کو ہدف بنانا تھا جو مالی طور پر کمزور اور سماجی طور پر پسماندہ تھے۔
عدالت میں پیش کیے گئے شواہد کے مطابق، مولانا صدیقی اور ان کے ساتھیوں نے مختلف پروگراموں کے ذریعے ان افراد کی مدد کی، لیکن اس کا مقصد ان کا مذہب تبدیل کرانا تھا۔
عدالت نے تمام شواہد اور گواہوں کی روشنی میں مولانا کلیم صدیقی اور ان کے ساتھیوں کو قصوروار قرار دیا۔ عدالت نے کہا کہ مولانا اور ان کے رفقاء کا کردار اس معاملے میں کلیدی تھا اور ان کے نیٹ ورک نے قانونی اور آئینی اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔
مولانا کلیم صدیقی نے اپنے اوپر عائد الزامات کی ہمیشہ سے تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی تمام سرگرمیاں آئین کے دائرے میں ہیں اور وہ صرف تبلیغی کام کر رہے تھے، جو کہ ہندوستان کے آئین کے تحت ہر شخص کا حق ہے۔ مولانا کے مطابق، انہوں نے کبھی کسی کو زبردستی یا لالچ دے کر مذہب تبدیل نہیں کرایا، بلکہ جو بھی لوگ اسلام قبول کرتے ہیں وہ اپنی مرضی اور خوشی سے ایسا کرتے ہیں۔
مولانا کے وکلاء نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ تبدیلی مذہب ایک شخصی حق ہے اور اس کا غلط استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ مولانا نے دعویٰ کیا کہ ان کے خلاف الزامات سیاسی اور مذہبی بنیادوں پر عائد کیے گئے ہیں تاکہ ان کی خدمات اور تبلیغی کاموں کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
مولانا کلیم صدیقی اور ان کے رفقاء کو قصوروار قرار دیے جانے کے بعد ملک بھر میں مختلف ردعمل سامنے آئے ہیں۔ مولانا کے حامیوں اور متعدد اسلامی تنظیموں نے اس فیصلے پر تنقید کی ہے اور اسے ناانصافی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مولانا ہمیشہ قانون کا احترام کرتے رہے ہیں اور ان کی تبلیغی سرگرمیاں مکمل طور پر قانونی ہیں۔