آپریشن موسیٰ ندی، غیر قانونی تعمیرات کے انہدام کے پیچھے حکومت کا کوئی خفیہ منصوبہ تو نہیں؟
حکام کو 150 گھروں کے انہدام کے دوران مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بات پر بھی بحث جاری ہے کہ کیا موسی ندی کے کنارے موجود تمام 2,166 تعمیرات کو منہدم کیا جائے گا یا نہیں۔ باقی ڈھانچوں کو بھی انہدام کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔
حیدرآباد: کیا حکومت نے موسیٰ ندی کے کنارے موجود غیر قانونی تعمیرات کے انہدام کے پیچھے کوئی خفیہ منصوبہ تیار کیا ہے؟ کیا جے سی بی اور بلڈوزر میدان میں لائے گئے ہیں تاکہ بڑے پیمانے پر انہدامات کا آغاز ہو؟ سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ حکومت نے بلڈوزر کا استعمال نہ کرتے ہوئے مزدوروں کو میدان میں اتارا تاکہ انہدامات حکومت کی ذمہ داری نہ بنیں۔
اسی حکمت عملی کے تحت تقریباً 90 مزدور موسی نگر اور شنکر نگر میں گھروں کو گرانے کیلئے بھیجے گئے۔ اس کام کے لیے ان مزدوروں کو 2 لاکھ 40 ہزار روپے کی ادائیگی کی گئی۔
یہی رقم اصل حکمت عملی کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر لوگ اپنے گھروں کو خود گرا رہے ہیں، تو مزدوروں کو ادائیگی کس نے کی؟ یہ پیسہ کہاں سے آیا؟ اس موضوع پر اب بحث جاری ہے۔ کچھ حکام کا کہنا ہے کہ مقامی ایم آئی ایم ایم ایل اے نے ان مزدوروں کو ادائیگی کی۔
ساتھ ہی انہوں نے حکام کو مطلع کیا کہ یہ رقم ریونیو کے کھاتے سے ادا کی جائے۔ مزید یہ کہ جلد ہی حکام انہدام کے ملبہ کو ہٹانے کے لیے ٹینڈر جاری کریں گے۔ انہدام کے لیے رقم مختص کرنے کے لیے ایک فائل کلکٹر کے پاس بھیجی گئی ہے۔
حکام کو 150 گھروں کے انہدام کے دوران مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس بات پر بھی بحث جاری ہے کہ کیا موسی ندی کے کنارے موجود تمام 2,166 تعمیرات کو منہدم کیا جائے گا یا نہیں۔ باقی ڈھانچوں کو بھی انہدام کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ ایسی صورت میں، کیا مزید انہدامات ممکن ہوں گے؟ یا نہیں؟ حکام بھی ان سوالات سے پریشان ہیں۔ اس دوران حکام نے مختلف محکموں کے اہلکاروں کی ایک ٹیم تشکیل دی ہے جو انہدام کے عمل کی نگرانی کر رہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر اعلیٰ حکام کو رپورٹ دے رہی ہے۔
دوسری طرف، مقامی ایم ایل اے بعض جگہوں پر انہدامات کی مخالفت کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے حکام الجھن کا شکار ہیں کہ ایسی صورتحال میں آگے کیسے بڑھنا ہے۔
دوسری جانب دریائے موسیٰ کے کنارے مکانات کے مکین اپنے گھروں کے انہدام کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور عدالت سے رجوع کر رہے ہیں۔ پیٹل برجو کے باشندے اس بات پر ناراض ہیں کہ مندروں پر بھی سرخ نشان لگا دیے گئے ہیں۔ اس معاملہ پر عدالت نے انہدامات روکنے کا حکم جاری کیا ہے اور حکام کو قوانین کی پابندی کرنے کی ہدایت کی ہے۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے الاٹ کیے گئے ڈبل بیڈ رومز میں بنیادی سہولیات کی کمی ہے، جس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ جوائنٹ فیملیز کو صرف ایک ڈبل بیڈ روم دیا جا رہا ہے، جو ان کے لیے ناکافی ہے۔ دریا کے کنارے سے 2,166 تعمیرات کو ہٹانا حکام کے لیے ایک پیچیدہ مسئلہ بن گیا ہے، جس کی وجہ سے حکومت نے فی الحال اس عمل کو روک دیا ہے۔