کرشناجنم استھان۔شاہی عیدگاہ کیسس، ہائی کورٹ کا فیصلہ محفوظ
الہٰ آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کے دن اپنا فیصلہ محفوظ رکھا کہ متھرا کے کرشنا جنم استھان۔ شاہی عیدگاہ تنازعہ میں کیسس چل سکتے ہیں یا نہیں۔

پریاگ راج(یوپی) : الہٰ آباد ہائی کورٹ نے جمعرات کے دن اپنا فیصلہ محفوظ رکھا کہ متھرا کے کرشنا جنم استھان۔ شاہی عیدگاہ تنازعہ میں کیسس چل سکتے ہیں یا نہیں۔
کرشن مندر سے متصل شاہی عیدگاہ مسجد کو ”ہٹانے“ کیلئے کئی کیسس دائر ہوئے۔ کیسس دائر کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ اورنگ زیب کے دور کی مسجد‘ مندر کو ڈھاکربنائی گئی تھی۔
مسلم فریق کی تاہم دلیل ہے کہ 1991ء کے مذہبی مقامات قانون اور وقف ایکٹ کے تحت کیسس نہیں چل سکتے۔ 1991ء کے قانون کی رو سے 15اگست1947ء کو مذہبی مقامات کی نوعیت جوں کی توں رہے گی یعنی اس دن جو عبادت گاہ مسجد تھی‘ مسجد ہی رہے گی اور مندر‘ مندر ہی رہے گا۔
ایسا ہی دیگر عبادتگاہوں کا بھی معاملہ ہوگا۔ کیس کی سماعت جسٹس مینک کمارجین کررہے ہیں۔ جمعرات کے دن مسلم فریق کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے تسلیمہ عزیزاحمدی نے عدالت سے کہا کہ اس پر وقف قانون لاگو ہوتا ہے اور معاملہ کی سماعت کا اختیار وقف ٹریبونل کو ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایاکہ فریقین نے 12اکتوبر1968ء کو سمجھوتہ کرلیاتھا جس کی توثیق 1974ء کے دیوانی مقدمہ سے ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ سمجھوتہ کو تین سال میں چیالنج کیاجاسکتا ہے لیکن مقدمہ 2020ء میں دائر ہوا لہذا اس پر لاء آف لمیٹیشن لگتا ہے۔
ہندو فریق کے وکیل نے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ 1991ء کا قانون غیر متنازعہ اسٹرکچرس کے کیسس میں لاگو ہوتا ہے۔ متنازعہ کیسس پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔