مذہب

طلاق کے لئے صرف نیت کافی نہیں

زید اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے اور اسی نیت کے تحت وہ یہ عمل اپنے آپ سے کرلیتا ہے کہ اگر وہ چار مہینے یا اس سے زیادہ اپنی بیوی سے کسی قسم کے ازدواجی تعلقات نہ رکھے، توخود بخود طلاق بائن ہوچکی ؟

سوال:- زید اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے اور اسی نیت کے تحت وہ یہ عمل اپنے آپ سے کرلیتا ہے کہ اگر وہ چار مہینے یا اس سے زیادہ اپنی بیوی سے کسی قسم کے ازدواجی تعلقات نہ رکھے، توخود بخود طلاق بائن ہوچکی ؟

متعلقہ خبریں
خلوت سے پہلے طلاق ہوگئی تو کتنا مہر واجب ہے ؟
گناہ سے بچنے کی تدبیریں
شادی شدہ خاتون از خود خلع نہیں لے سکتی
باپ کا لڑکے سے خلع کا مطالبہ کرنا
تین طلاق قانون کے جواز کو چالینج، سپریم کورٹ میں تازہ درخواست

کیا اس کی بیوی اس کی نکاح میں شامل ہے ؟ نیز یہ بھی کہ زید نے کسی کتاب میں ایلا کے بارے میں بھی پڑھا ہے تو کیا بغیر اقرار کے صرف دل میں طلاق کی نیت کرکے ایسا عمل کرنے سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں ؟ کیوںکہ کسی بھی چیز کا انحصار نیت پر ہوتا ہے۔ (علی عدنان واجد، یاقوت پورہ )

جواب:- شریعت میں بعض امور وہ ہیں جو محض نیت اور ارادہ سے وجود میں آجاتے ہیں، گویا وہ قلب کے فعل سے متعلق ہیں اور بعض اعضاء و جوارح کے ذریعہ وجود پذیر ہوتے ہیں، نکاح و طلاق بھی ان معاملات میں سے ہیں، جو زبان کے ذریعہ وجود میں آتے ہیں،

اس کے لئے دل کا ارادہ کافی نہیں، اس لئے محض نیت کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی، ایلاء کے لئے بھی دل کا ارادہ کافی نہیں؛ بلکہ زبان سے ترک تعلق کے عزم کا اظہار نیز حنفیہ کے نزدیک اس پر قسم کھانا بھی ضروری ہے:

’’ و أما رکنہ فہو اللفظ الدال علی منع النفس عن الجماع فی الفرج موکدا بالیمین باللہ تعالیٰ۔ الخ ‘‘(بدائع الصنائع: ۳/۲۵۴ )

a3w
a3w