تلنگانہ

"چمن میں تلخ نوائی میری گوارا کر” — محمد عبدالعزیز، صدر ایم پی جے تلنگانہ کا بیان

انھوں نے کہا کہ داخلی انتشار، سیاسی بے وزنی اور ملت کے اندر عدم اتحاد کی وجہ سے دشمن فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ ملت کی بڑی تعداد، خصوصاً غریب و پسماندہ طبقہ، حالات سے مایوس ہوکر خاموش ہو گیا ہے، لیکن اب وہ خاموشی سوالات میں تبدیل ہو رہی ہے۔

نظام آباد: ایم پی جے تلنگانہ کے ریاستی صدر محمد عبدالعزیز نے وقف ترمیمی بل 2024 اور موجودہ ملی و سماجی صورتحال پر ایک سخت مگر فکر انگیز صحافتی بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ملت کی خاموشی اب بےچینی میں بدل رہی ہے، اور ان سوالات کو محض وقتی ردعمل کہہ کر ٹالا نہیں جا سکتا۔

متعلقہ خبریں
وقف ترمیمی بل، مرکزی حکومت کے ارادے نیک نہیں ہیں: جعفر پاشاہ
وقف ترمیمی بل 2024، اوقاف کی جائیدادوں کے خاتمہ کا آغاز : محمد مشتاق

انھوں نے کہا کہ داخلی انتشار، سیاسی بے وزنی اور ملت کے اندر عدم اتحاد کی وجہ سے دشمن فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ ملت کی بڑی تعداد، خصوصاً غریب و پسماندہ طبقہ، حالات سے مایوس ہوکر خاموش ہو گیا ہے، لیکن اب وہ خاموشی سوالات میں تبدیل ہو رہی ہے۔

محمد عبدالعزیز نے سی اے اے اور این آر سی کی تحریک کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک بھر میں جو جوش و خروش دیکھا گیا تھا، وہ آج وقف ترمیمی ایکٹ کے مسئلے پر مفقود ہے، حالانکہ حالات میں کوئی بڑا فرق نہیں آیا۔ انھوں نے شاہین باغ تحریک کو فسطائی قوتوں کے لیے ڈراؤنا خواب قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج بھی ویسی ہی بیداری کی ضرورت ہے۔

انھوں نے ملی اداروں، خاص طور پر مسلم پرسنل لا بورڈ، مسلم مجلس مشاورت، اور بڑے تعلیمی اداروں سے سوال کیا کہ آخر کب تک ملت کے نادار، یتیم، بیوائیں اور غریب اپنے بنیادی حقوق سے محروم رہیں گے؟ اُن املاک پر جو ان کے لیے وقف کی گئی تھیں، آج طاقتور لوگ قابض ہو چکے ہیں، اور المیہ یہ ہے کہ قوم کے اجتماعی ضمیر نے چپ سادھ لی ہے۔

انھوں نے ارباب اقتدار، دینی، سماجی اور سیاسی ذمہ داروں سے استفسار کیا کہ:

کیا 78 سال میں کوئی رکشہ راں، مزدور یا مدرسے کا معلم وقف جائیداد کا قابض نکلا؟

کیا کوئی آٹو ڈرائیور بے نامی جائیدادوں کے مافیا میں شامل ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جنہوں نے غریبوں کے خون پسینے پر اپنے محل تعمیر کیے، اور جو آج بھی ملت کی بقا کے نام پر محض مفادات کا کھیل کھیل رہے ہیں۔

محمد عبدالعزیز نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلے۔ انھوں نے کہا کہ ملت کے ارباب دانش و اثر کو چاہیے کہ وہ حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے فوری طور پر متحرک ہوں، بصورت دیگر تاریخ نہ تو کسی کو معاف کرتی ہے اور نہ ہی خود بخود دُہرائی جاتی ہے۔

"اجتماعی ضمیر کی موت، اجتماعی عذاب کا پیش خیمہ ہے” — مولانا مودودیؒ کے اس قول کی روشنی میں ہمیں اپنے حالات پر غور کرنا ہوگا۔”