شمالی بھارت

بدنام زمانہ جعلی بابا لوگوں کی حماقت کا فائدہ اٹھاتے ہیں: ڈاکٹر پروہت

نیشنل مینٹل ہیلتھ پروگرام کے مشیر ڈاکٹر نریش پروہت نے اتوار کو کہا کہ بدنام زمانہ فرضی بابا ذہنی طور پر بیمار اور ان پڑھ لوگوں کو بے شرمی سے ٹھگتے ہیں۔ وہ لوگوں کی حماقت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

جالندھر: نیشنل مینٹل ہیلتھ پروگرام کے مشیر ڈاکٹر نریش پروہت نے اتوار کو کہا کہ بدنام زمانہ فرضی بابا ذہنی طور پر بیمار اور ان پڑھ لوگوں کو بے شرمی سے ٹھگتے ہیں۔ وہ لوگوں کی حماقت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اس معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، آفات کے ذہنی صحت کے ماہر ڈاکٹر پروہت نے کہا کہ حال ہی میں اترپردیش کے ہاتھرس میں منعقدہ ایک ستسنگ میں بھگدڑ اور اپنے پیروکاروں کی موت کے لئے مبینہ طورپر سورج پال عرف بھولے بابا کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔

یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سورج پال عرف بھولے بابا پر جنسی ہراسانی کے الزامات سمیت قانونی پریشانیوں کی بھی تاریخ رہی ہے۔ ان کے خلاف آگرہ، اٹاوہ، کاس گنج، فرخ آباد اور راجستھان سمیت مختلف عدالتوں میں مبینہ طور پر کئی مقدمات درج کئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا، "اگرچہ ایسے جعلی گرو اور باباوں کے قتل، عصمت دری، ٹیکس چوری اور دھوکہ دہی جیسے جرائم میں ملوث ہونے کی اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں، پھر بھی ہندوستان میں ان باباؤں کے ساتھ غیر صحت مندانہ جنون بدستور جاری ہے۔”

انہوں نے کہا، "ہندوستان میں ایسے باباؤں کی کمی نہیں ہے، جنہیں الگ الگ ناموں سے ‘بابا’، ‘گرو’، ‘سنت’ یا ‘سوامی’ کہا جاتا ہے، جو خود کو خدا کے ساتھ وشواسیوں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ خدا کے ساتھ براہ راست بات چیت کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں اور مستقبل کے واقعات کی پیشین گوئی کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ دھوکے باز ہیں۔

ڈاکٹر پروہت نے کہا کہ ہندوستانی ان خودساختہ باباوں کے پاس اس لئے آتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مرکزی دھارے کی سیاست اور مذہب نے انہیں ناکام کیا ہے۔ اس لیے جب ان کے دکھوں کو دور کرنے کے لیے کوئی سیاست دان یا پجاری نہیں ہوتا، تو وہ مدد کے لیے گروؤں، باباؤں، پادریوں اور مولویوں سے رجوع کرتے ہیں۔

کئی معنوں میں حال ہی میں بھولے بابا جیسے باباؤں کا عروج ہمیں اس کے بارے میں کچھ بتاتا ہے کہ کس طرح روایتی سیاست اور مذہب لوگوں کی بڑی تعداد کو ناکام کر رہے ہیں۔

چنانچہ یہ لوگ پیروکار بن جاتے ہیں اور کسی عزت اور معیار کی تلاش میں غیر روایتی مذہب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ جمہوری، جدید دنیا کے بہت سے حصوں میں ایسے گروہ ابھرے ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہندوستان ایک کثیر النسل اور کثیر المذہبی ملک ہے جہاں کے لوگ آسانی سے خدا پر ناقابل یقین عقیدہ پیدا کر لیتے ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ ہزاروں ہندوستانی ان گرووں پر بھروسہ کرتے ہیں، لیکن بہت کم لوگ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر قابل احترام بابا عام مجرم ہیں جو کمال ہوشیاری سے منی لانڈرنگ کا کاروبار چلاتے ہیں۔

ڈاکٹر پروہت نے انکشاف کیا، "ہندوستان میں مذہبی رہنما نہ صرف موت کے قدرتی انسانی خوف کا فائدہ اٹھاتے ہیں، بلکہ اڑیسہ، بہار، اتر پردیش اور دیگر پسماندہ علاقوں میں غریب لوگوں کو اندرونی روحانی سفر کے وعدے کے ساتھ بہکاتے ہیں اور بالآخر انہیں اپنے ہی خاندان کے خلاف بغاوت پر مجبور کرتے ہیں۔ لیکن غریب مرد اور عورتیں ان روحانی پیشواؤں کے اصل ارادوں کا علم اس وقت تک نہیں ہوپاتا جب تک کہ وہ ان کے آشرم میں داس کے طورپر ان کی خدمت نہیں کرلیتے۔

a3w
a3w