ممبئی دہشت گردانہ 26/11 حملہ : ہیڈلی اور رانا نے دہشت گردانہ حملوں کی بنیاد رکھی
دونوں کی عمریں 64 سال ہیں اور ان کے پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) اور حرکت الجہادی اسلامی (ایچ یو جے آئی) جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔

ممبئی: پاکستانی نژاد امریکی شہری ڈیوڈ کولمین ہیڈلی عرف داؤد سید گیلانی اور پاکستانی نژاد کینیڈین ڈاکٹر تہور حسین رانا، جو بچپن کے دوست اور پنجاب کے ضلع اٹک میں واقع کیڈٹ کالج حسن ابدال کے ہم جماعت رہ چکے ہیں، نے ممبئی میں 26/11 کے فدائین حملوں کی بنیاد رکھی تھی۔
دونوں کی عمریں 64 سال ہیں اور ان کے پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، لشکر طیبہ (ایل ای ٹی) اور حرکت الجہادی اسلامی (ایچ یو جے آئی) جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ گہرے تعلقات تھے۔
یہ انکشاف کرائم برانچ-سی آئی ڈی اور نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی مشترکہ تحقیقات میں ہوا ہے۔ہیڈلی نے عدالت میں وعدہ معاف گواہ بن کر محفوظ معافی حاصل کی تھی اور فروری و مارچ 2016 میں ممبئی کی ایک خصوصی عدالت کو تفصیلی ثبوت فراہم کیے،تھے جب کہ رانا کو امریکی عدالت کی جانب سے بری کر دیا گیا تھا۔
دونوں نے لشکر طیبہ کے منصوبہ بند "مکی ماؤس پروجیکٹ” میں کلیدی کردار ادا کیا، جس میں 2005 اور 26 تا 29 نومبر کو ممبئی میں ہونے والے حملے، اور ڈنمارک کے اخبار "مورگن آویزن یلاندس پوستن” پر حملے کی سازش شامل تھی۔ اس اخبار نے پیغمبر اسلام محمدؑ کے گستاخانہ کارٹون شائع کیے تھے۔ ان حملوں میں 300 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔
ہیڈلی نے اپنے جاسوسی مشنوں کے دوران ممبئی میں قیام کیا اور مالی تعاون اپنے شکاگو میں مقیم دوست رانا سے حاصل کیا، جب کہ ساجد میر، آئی ایس آئی کے میجر اقبال اور میجر عبدالرحمن پاشا سے بھی مالی معاونت حاصل ہوئی۔ میجر پاشا بعد میں لشکر طیبہ اور پھر القاعدہ سے جا ملے تھے۔
ذرائع کے مطابق، آئی ایس آئی، لشکر طیبہ، ایچ یو جے آئی، ہیڈلی، رانا، الیاس کشمیری، میجر اقبال اور ساجد میر کے درمیان گہرا ربط تھا۔ پاکستانی دہشت گرد محمد اجمل قصاب کے بیانات، جسے بعد میں پھانسی دی گئی، اور ہیڈلی کی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے عدالت میں دی گئی گواہی سے بھی یہی تعلق ظاہر ہوا۔ہیڈلی نے عدالت میں لشکر طیبہ کے آپریشنل کمانڈر ذکی الرحمان لکھوی، بانی حافظ سعید، اور میجر اقبال کے ہینڈلرز ابو الکامہ و ابو خفا کے کردار کا بھی ذکر کیا۔
ہیڈلی نے عدالت میں نو دنوں کی پیشی کے دوران تقریباً 1,400 سوالات کا سامنا کیا، جن میں تقریباً 750 سوالاتوکیل استغاثہ اجول نکم کی جانب سے اور 650 سوالات وکیل دفاع عبدالوہاب خان کی جانب سے کیے گئے۔
ہیڈلی نے تسلیم کیا کہ اس نے اپنی سرگرمیوں کی آڑ میں "فرسٹ ورلڈ امیگریشن سروسز” کا دفتر کھولنے کے لیے رانا سے اجازت حاصل کی تھی۔ اپنے بیان میں اس نے آئی ایس آئی، لشکر طیبہ، اور اسامہ بن لادن کی قیادت میں القاعدہ سے اپنی وابستگی کا بھی اعتراف کیا۔
ہیڈلی نے ہندوستان کے سات دورے کیے، جن میں سے پانچ 26/11 سے قبل اور دو بعد میں کیے گئے۔ اس نے رانا کو بھارت میں ممکنہ اہداف کی نشاندہی کی ذمہ داری سونپنے کی تجویز دی تھی، اور دفتر کھولنے کے سلسلے میں بھی مشورہ کیا تھا تاکہ اپنی سرگرمیوں کو چھپایا جا سکے۔
رانا نے ہیڈلی کو ویزا کے حصول کے طریقے بھی بتائے اور دونوں نے حملے کے اہداف کی نگرانی کے طریقہ کار پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ این آئی اے کے مطابق، رانا نے ہیڈلی سے کہا تھا کہ ممبئی حملوں میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کو بعد از مرگ پاکستان کا اعلیٰ ترین فوجی اعزاز دیا جانا چاہیے۔
ہیڈلی نے لاہور کے ایک تاجر حاجی اشرف کا نام بھی لیا، جو دہشت گرد گروپ کے مالی امور کنٹرول کرتا تھا۔ اس کا بھتیجا 24 تا 25 ستمبر 2002 کو گاندھی نگر کے اکشردھام مندر پر حملے کے دوران سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔
ڈاکٹر رانا سے ملنے والی مالی معاونت کے بارے میں ہیڈلی نے بتایا کہ اسے یہ رقوم چار مختلف مواقع پر فراہم کی گئیں: 11 اکتوبر 2006 کو 67,605 روپے، 7 نومبر 2006 کو 500 امریکی ڈالر، 30 نومبر 2006 کو 17,636 روپے اور دسمبر 2006 میں 1,600 امریکی ڈالر یا ماہانہ 1,400 روپے، جب کہ ایک موقع پر اسے 80,000 روپے بھی دیے گئے۔ اس کے علاوہ، میجر اقبال نے ممبئی روانگی سے قبل ہیڈلی کو 25,000 امریکی ڈالر دیے تھے۔