مضامین

آج کی ماں ذمہ داریوں سے غافل کیوں؟

ایک نئی وباء موبائل فون کا بے جا استعمال ہے۔ اگر مائیں خود سارا سارا دن فون پہ مصروف رہیں گی۔ سارا سارا دن TVڈرامے دیکھتی رہیں گی توبچوں کو کس منہ سے منع کریں گی؟

حیدرآباد: دنیا کی سب سے بڑی نعمت ماں ہے۔ اس کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جس کی پیشانی پہ نور ،آنکھوں میں ٹھنڈک ،الفاظ میں محبت ،آغوش میں دنیا بھر کا سکون ،ہاتھوں میں شفقت اورپیروں تلے جنت ہے۔ اس کی محبت کا کوئی جواب نہیں۔ اگر محبت کے 100حصے کریں تو 99ماں کے حصے میں آتی ہے۔

ایک اچھے معاشرے اور بہتر مستقبل کا دارومدار ہماری آنے والی نسلوں پہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا آج کی ماں اپنی اولاد کی تربیت بھی کررہی ہے یا ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے ؟ زمانہ قدیم کی ماں روایتی طور پہ کسی یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ نہ تھی مگر وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ سے کم نہ تھی جو ساری ساری رات اس لئے جاگتی تھی کہ بچے امتحانوں کے دنوں میں سونہ جائیں، پاس بیٹھ کے قرآن کی تلاوت کرتی تھی۔ یا بچوں کے سویٹر بنتی تھی۔

اور آج کی بیشترمائیں ساری ساری رات واٹس ایپ اور فیس بک پہ گزارنے لگی ہیں۔وہ ماں جس نے خود کبھی نمازنہ پڑھی ہو بچوں کو اس کی تنقین کرے بھی تو کوئی فائدہ نہیں ۔

ماضی کی مائیں بچوں کی خاطر قربانی دینا جانتی تھیں ایک یہ ماں ہے کہ پیسے کم ہونے کی وجہ سے طلاق لینے میں کوئی عار نہیں سمجھتی ۔ کبھی سوچاہے ؟ کیا وجہ ہے کہ آج کی ماں ان ماؤں سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے۔ زیادہ اچھے ماحول میں رہ رہی ہے۔ زیادہ سہولیات ملی ہوئی ہیں۔ پھر بھی ہمارے بچے اپنی تہذیب سے کیوں دور جارہے ہیں۔ اپنی روایات کا پاس کسی کو نہیں۔

دین سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ صبر اور برداشت تو اس نئی نسل میں ذرا بھی نہیں ۔ یہ کس کا قصور ہے؟ بچے تو جب پیدا ہوتے ہیں ان کا ذہن ایک صاف سلیٹ کی مانند ہوتا ہے۔ ہم جیسے چاہیں، جو چاہیں اس پہ لکھ سکتے ہیں۔یاد ہوگا پرانے زمانے میں ماں کے جہیز میں’’ بہشتی زیور‘‘ ایک کتاب قرآن کے ساتھ دی جاتی تھی۔ جس میں عائلی زندگی کے تمام اصول لکھے ہوئے ہیں۔

جس کو پڑھ کے مائیںاپنے بچوں کی مثالی اور دین کے مطابق تربیت کرتی تھیں ۔   نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا، ’’مجھے اچھی مائیں دو، میں تمہیں اچھی قوم دوں گا‘‘آج کی ماں ایک اچھی ڈاکٹر ایک اچھی انجینئر ،ایک اچھی ٹیچر اور ایک اچھی آفیسرتو بن چکی ہے۔

غرض اس نے خود کو ہرمیدان میں منوالیا ہے کہ وہ کسی سے کم نہیں ہے،وہ دنیا کا ہر کام مردوں کے شانہ بشانہ کرسکتی ہے۔ مگر کیا وہ ایک اچھی ماں بھی ہے؟ یہ ایک سوال ہے … آج وہ ایک ماں کی ذمہ داری ٹھیک طرح سے نبھا نہیں پارہی ۔

 بہترین معاشرے کے مہذب شہری بنانا ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے۔ اولاد کے حقوق توہمارے دین اسلام نے بھی واضح کردیئے ہیں۔ جو والدین کے فرائض ہیں۔ ایک باپ کا اپنی اولاد کے لئے بہترین تحفہ اس کی بہترین تربیت ہے۔ جس میں پہلے ماں اور پھر باپ کی ذمہ داری ہے۔

سوال یہ ہے کہ کتنے فیصد عورتیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں؟ یہ فرض کتنی مائیں نبھارہی ہیں۔آپ سب جانتے ہیں ۔ بلکہ یورپ کی ماں یہ سمجھ چکی ہی کہ اس کے بچے کی صحت اوراس کی اپنی صحت کا راز اسی میں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلائے۔

 اس سے ایک توبچے، میں ماں کی محبت بڑھتی ہے، دوسرے وہ بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ آج کی عورت جاب کرکے پیسے توکمارہی ہے انہی پیسوں سے بچوں کو ڈبے کا دودھ دے رہی ہے۔ خود وہ مصروف ہے اوربچوں کے لئے ایک ان پڑھ آیا رکھی ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کیا ایک آیا بچے کی وہ تربیت کرسکتی ہے جوایک ماں کرسکتی ہے؟

عورت کی تعلیم ایک نسل کی تعلیم ہے اورایک مرد کی تعلیم صرف ایک مرد کی تعلیم ہے۔ معاشرے کے بگاڑ کی ذمہ دارکون ہے؟  ہمارے دین میں صرف ماں باپ کے ہی نہیں اولاد کے بھی حقوق ہیں۔ جو والدین کے فرائض میں شامل ہیں۔

 ماں کی اچھی تربیت سے ہی کل کو اچھی قوم بنے گی۔ ملک ترقی کرے گا۔ ماں کو ہرگزیہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے بچوں کا وقت صرف پیسے کمانے میں لگادے۔ پیسہ بہت کچھ ہے مگرسب کچھ نہیں ہے۔

بچوں کو خالی پیسے نہیں ان کی اچھی تربیت دینا بھی بے حد ضروری ہے ۔چھوٹے بچوں کو اسکول کا کام کرانا بہت ضروری ہے۔ کسی ٹیوشن سینٹر کی نہیں ماں اورپھر باپ کی بھی ڈیوٹی ہے۔ بچوں پہ نظررکھنا ضروری ہے۔

ایک نئی وباء موبائل فون کا بے جا استعمال ہے۔ اگر مائیں خود سارا سارا دن فون پہ مصروف رہیں گی۔ سارا سارا دن TVڈرامے دیکھتی رہیں گی توبچوں کو کس منہ سے منع کریں گی؟  کسی بھی چیز کا ناجائز استعمال صحت اورکردار دونوں کوخراب کرتا ہے۔

آج کی ماؤں سے ایک اور سوال ہے۔ کیاآپ نے کبھی اپنے بچوں کو اسکول یا مدرسے  میں داخل کروانے سے قبل انہیں سمجھایا بھی ہے کہ یہ کیا جگہ ہے؟ بچے اسکول جانے سے پہلے روز روتے ہیں۔ا سکول میں ان کا دل نہیں لگتا،اکثر تواسکول فوبیا کا شکار ہوجاتے ہیں۔

 جب کہ پڑھی لکھی ماؤں کا کام ہے ان کوا سکول جانے سے پہلے تیارکیا جائے۔ ان کے اندر وہ شوق پیدا کردیا جائے کہ وہ اسکول کو بوجھ نہ سمجھیں۔ ایک اچھی ماں اپنے بچوں کے ہرآنے والے دورکے لئے ریڈی کرلیتی ہے۔

ایک اچھی ماں پیارکرنے والی نرم دل ہوتی ہے۔ ایک رول ماڈل ہوتی ہے۔ ایک مثالی رول ادا کرتی ہے۔ جس ماں کا اپنا کردار ٹھیک نہ ہوگا، وہ کیسے بچوں کی تربیت کرے گی۔ وہ بچوں کو صبر سکھاتی ہے۔

 ان کو بڑے چھوٹے کی تمیز سکھائی ہے ۔ ان کو مضبوط بناتی ہے۔ اور باپ کا رول کیا ہے اس کی کس طرح عزت کرنی ہے یہ بھی ماں ہی بتاتی ہے۔ جو عورت خوداپنے شوہر کی عزت نہ کرتی ہو،بچوں کو اس کی عزت کرنا نہیں سکھا سکتی۔ ایک ماںاولاد کے لئے ہمیشہ دعا گورہتی ہے۔

مگرافسوس کہ آج کی ماں بہت مصروف ہوچکی ہے۔ اس کے پاس اپنے ہی بچے کے لئے وقت درکار نہیں۔ وہ کسی نہ کسی جاب پہ لگی ہے یا کوئی NGOچلارہی ہے تو کوئی سوشل ورک کررہی ہے یا کوئی گورنمنٹ کی جاب پہ لگی ہے۔ وہ ائرہوسسٹس اوربس ہوسٹس بھی ہے۔ کسی بھی شعبے میں خود کومنوالیا ہے مگراپنا اصلی شعبہ بھول بیٹھی ہے۔

ہربڑے سے بڑے عہدے پہ بیٹھنے والی ہرعورت کو یہ ضروریاد رکھنا ہوگا کہ بنیادی طورپر وہ ایک ماں بھی ہے۔ وہ ماں جوساری دنیا کو سنوارنے نکلی ہے مگر اپنے بچے گھر میں کسی آیا ،نوکریا کسی نانی دادی کے پاس رہ رہے ہیں۔

ا سٹیج پہ کھڑی وہ ماں اوربچے کی صحت پہ بات کرنے والی عورت کو یاددلاؤ کہ اس کے اپنے بچے گھر میں کسی نوکر کے رحم وکرم پہ ہیں۔ جب قول اورفعل میں تضادہوگا توکون سنے گا؟ اگر سن بھی لے گا تو کون عمل کرے گا؟

 کیسے اچھے اور مہذب معاشرے کی تشکیل ہوگی؟ کیسے آئے دن خواتین کی بے عزتی ختم ہو گی؟ کیسے لڑکے اپنے بوڑھے والدین کو اولڈ ہاؤس چھوڑکے آنا چھوڑیں گے؟ کیسے ہم اچھے محب وطن بنیں گے؟ کیسے ہم عورت کو جہیز کے نام پہ چولہے کی نذر کرنا چھوڑیں گے؟ کیسے بچوں کو راتوں رات امیر ہونے کے چکر میں نشے کے عادی ہونے سے بچائیں گے؟

کیسے نوجوان نسل عدم برداشت کی وجہ سے خودکشیاں کرنا چھوڑے گی؟کیسے شرح طلاق کم ہوگی؟ نوجوان نسل کب صبر اور برداشت سیکھیں گے ؟ کب دنیا میں اقبال اور سرسید احمد خان پیدا ہوں گے؟ کب تک غیرت کے نام پہ قتل ہوتے رہیں گے؟

 کب تک لوگ ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے رہیں گے؟ کب تک لڑکیاں شادی نہیں کرپائیں گی اور ماں باپ کی دہلیز پہ بوڑھی ہوتی رہیں گی؟ ہم کب ساس اوربہو کی جنگ ختم کرنے میں کامیا ب ہوں گے؟ یہ سب کیسے اورکب ممکن ہوگا؟ یہ تب ہی ممکن ہوگاجب مائیں اپنی  ذمہ داروں کو دل سے نبھائیںگی۔